ٹیگ کے محفوظات: عبرت

کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 148
وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو
ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہنگامۂ زبونئِ ہمّت ہے، انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے، عبرت ہی کیوں نہ ہو
وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر، نہ غیر سے، وحشت ہی کیوں نہ ہو
مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی ؟
عمرِ عزیز صَرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
مرزا اسد اللہ خان غالب

نیندوں کی بستیوں پہ مصیبت بنی ہوئی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 446
اس کی حرافہ یاد ہے آفت بنی ہوئی
نیندوں کی بستیوں پہ مصیبت بنی ہوئی
جلتی جہاں تھی آگ وہاں دیکھ تو سہی
اڑتی ہے راکھ، نوحۂ عبرت بنی ہوئی
وہ جمع لوگ ہیں کسی پاگل کے آس پاس
کوئی ہے انقلاب کی صورت بنی ہوئی
لگتا ہے تم ملاؤ گی اس کو بھی خاک میں
تھوڑی سی جو ہے شہر میں عزت بنی ہوئی
وہ اپنی خواہشوں کی ہے تکمیل کا چلن
جو چیز ہے جہاں میں محبت بنی ہوئی
ہر رات نظمِ تازہ اترتی ہے صحن میں
کیاہے جدائی باعثِ برکت بنی ہوئی
منصور رکھ د یا ہے اٹھا کرسٹور میں
پھرتی تھی وہ جو میری ضرورت بنی ہوئی
منصور آفاق