ٹیگ کے محفوظات: عالم

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں

جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں
ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں
گریہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں
رات بھر نم رہا ہے آنکھوں میں
اُس گلِ تر کی یاد میں تا صبح
رقصِ شبنم رہا ہے آنکھوں میں
صبحِ رخصت ابھی نہیں بھولی
وہ سماں رم رہا ہے آنکھوں میں
دل میں اک عمر جس نے شور کیا
وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی دیکھی تھی اُس کی ایک جھلک
رنگ سا جم رہا ہے آنکھوں میں
ناصر کاظمی

زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
مہرِ رخشاں رات میں ضم ہو گیا
زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا
لکھ رہا تھا جانے کیا کاغذ پہ میں
آنکھ بھر آنے سے جو نم ہو گیا
دل نجانے ہم سخن کس سے ہوا
حرف کا امرت بھی ہے سم ہو گیا
ڈوبتے ہی اِک ذرا اُس ماہ کے
دیکھیے کیا دل کا عالم ہو گیا
کم نہیں یہ مُعجزہ اِس دَور کا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ جم ہو گیا
بچ کے ماجدؔ جس سے نکلے تھے کبھی
سر اُسی دہلیز پر خم ہو گیا
ماجد صدیقی

آنکھ کا آنگن ہمیشہ نم رہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
سر پہ سایہ ابر کا گو کم رہا
آنکھ کا آنگن ہمیشہ نم رہا
جس سے کچھ اُمید تھی اُس پیڑ پر
بانجھ پن کا ہی سدا موسم رہا
وہ بھی کیا منظر تھا جس کو دیکھ کر
دل پہ سکتے کا سا اک عالم رہا
برق کا ماجدؔ کبھی صّیاد کا
ایک کھٹکا سا ہمیں پیہم رہا
ماجد صدیقی

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 75
ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 128
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں
میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں
ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں
تم کو جہانِ شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں
اب اپنے طور ہی میں نہیں سو کاش کہ
خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں
اس شہرِ حیلہ جُو میں جو محرم ملے مجھے
فریادِ جانِ جاں وہی محرم ملے تمہیں
دیتا ہوں تم کو خشکیِ مژ گاں کی میں دعا
مطلب یہ ہے کہ دامنِ پرنم ملے تمہیں
میں اُن میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا
جاناں ! جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں
تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا
شرمندہ ہیں کہ اُس میں بہت خم ملے تمہیں
یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے
ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں
جون ایلیا

تھے تمہاری زلف کے خم رائگاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 85
دل تھا درہم اور برہم رائگاں
تھے تمہاری زلف کے خم رائگاں
اپنی ساری آرزوئیں تھیں فریب
اپنے خوابوں کا تھا عالم رائگاں
زندگی بس رائگانی ہی تو ہے
میں بہت خوش ہوں کہ تھے ہم رائگاں
جون شاید کچھ نہیں کچھ بھی نہیں
ہے دوام اک وہم اور دم رائگاں
جون ایلیا

تیر و نشتر سے کیا پلک کم ہے

دیوان ششم غزل 1899
رشک شمشیر ابرو کا خم ہے
تیر و نشتر سے کیا پلک کم ہے
تم کرو شاد زندگی کہ مجھے
دل کے خوں ہونے کا بہت غم ہے
جب سے عالم میں جلوہ گر ہے تو
مہلکے میں تمام عالم ہے
حبس دم پر نہ جائیو ان کے
شیخ صاحب کا یہ بھی اک دم ہے
زال دنیا کو جن نے چھوڑ دیا
وہی نزدیک اپنے رستم ہے
سرو و طوبیٰ کا ناز ہے بیجا
اس کے قد کا سا کب خم و چم ہے
کچھ تو نسبت ہے اس کے بالوں سے
یوں ہی کیا حال میر درہم ہے
میر تقی میر

تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں

دیوان ششم غزل 1855
دم ہے مہلت شیب میں جانے کا اپنے غم کہاں
تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں
عالم عالم جمع تھے خوباں جہاں صافا ہوا
گرچہ عالم اور ہے اب واں پہ وہ عالم کہاں
تھی بلا شوخی شرارت یار کی ہنگامہ ساز
شور یوں تو اوروں کا بھی ہے پہ وہ اودھم کہاں
کیا جنوں ہے تم کو جو تم طالب ویرانہ ہو
جس کو فردوس بریں کہتے ہیں واں آدم کہاں
حبس دم میں شیخ جو کرتا نہیں حرف و سخن
حق طرف ہے اس کے اس بیہودہ گو میں دم کہاں
ہو سو ہو میں میر اب تو دم بخود ہوں ہجر میں
کیا لکھوں تہ دل کی باتیں کاغذ و محرم کہاں
میر تقی میر

اس طور اس طرح کے ایسے کم آشنا ہیں

دیوان ششم غزل 1854
ناآشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
اس طور اس طرح کے ایسے کم آشنا ہیں
باہم جو یاریاں ہیں اور آشنائیاں ہیں
سب ہیں نظر میں اپنی ہم عالم آشنا ہیں
ماتم کدہ ہے تکیہ کیا تازہ کچھ ہمارا
یک جا فقیر کب سے ہم سب غم آشنا ہیں
تحریر راز دل کی مشکل ہے کیونکے کریے
کاغذ قلم ہمارے کب محرم آشنا ہیں
یاری جہانیوں کی کیا میر معتبر ہے
ناآشنا ہیں یک دم یہ اک دم آشنا ہیں
میر تقی میر

دل نے پہلو تہی کیا ہم سے

دیوان پنجم غزل 1759
ہجر میں خوں ہوا تھا سب غم سے
دل نے پہلو تہی کیا ہم سے
عالم حسن ہے عجب عالم
چاہیے عشق اس بھی عالم سے
طرح چھریوں کی پلکوں سے ڈالی
نکلی تلوار ابرو کے خم سے
نسبت ان بالوں کی درست ہوئی
دیر میں میرے حال درہم سے
درپئے خون میر کے نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
میر تقی میر

بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو

دیوان پنجم غزل 1708
کیا غیرت سے دل پر تنگ رنج و غم نے دنیا کو
بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو
رہا ہے ایک عالم اور دنیاداروں میں اس کا
کیا ہے بے وفا معلوم سب عالم نے دنیا کو
ہمیشہ رونا کڑھنا سینہ کوبی ہر زماں کرنا
عزاخانہ کیا دل کے مرے ماتم نے دنیا کو
سنا میں نے کہ آخر ہاتھ اٹھایا اس نے دنیا سے
اگر پایا بھی محنت کر کسو ہمدم نے دنیا کو
زمیں سے آسماں تک میر ہے شور جنوں میرا
تہ و بالا کیا دونوں میں اس اودھم نے دنیا کو
میر تقی میر

کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب

دیوان پنجم غزل 1581
دل کے گئے بیکس کہلائے ایسا کہاں ہمدم ہے اب
کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب
سینہ زنی سے غم زدگی ہے سر دھننا ہے رونا ہے
دل جو ہمارا خون ہوا ہے اس سے بلا ماتم ہے اب
سن کر حال کسو کے دل کا رونا ہی مجھ کو آتا تھا
یعنی کبھو جو کڑھتا تھا میں وہ رونا ہر دم ہے اب
زردی چہرہ تن کی نزاری بیماری پھر چاہت ہے
دل میں غم ہے مژگاں نم ہیں حال بہت درہم ہے اب
دیکھیں دن کٹتے ہیں کیونکر راتیں کیونکے گذرتی ہیں
بیتابی ہے زیادہ زیادہ صبر بہت کم کم ہے اب
عشق ہمارا آہ نہ پوچھو کیا کیا رنگ بدلتا ہے
خون ہوا دل داغ ہوا پھر درد ہوا پھر غم ہے اب
ملنے والو پھر ملیے گا ہے وہ عالم دیگر میں
میر فقیر کو سکر ہے یعنی مستی کا عالم ہے اب
میر تقی میر

آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا

دیوان پنجم غزل 1571
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا
آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا
روتے کڑھتے خاک میں ملتے جیتے رہے ہم دنیا میں
دس دن اپنی عمر کے گویا عشرہ تھا یہ محرم کا
کشتی ہماری عشق میں کیا تھی ہاتھ ملاتے پاک ہوئی
پاے ثبات نہ ٹھہرا دم بھر اس میدان میں رستم کا
عالم نیستی کیا عالم تھا غم دنیا و دیں کا نہ تھا
ہوش آیا ہے جب سے سر میں شوق رہا اس عالم کا
یاں واجب ہے ہم کو تم کو دم لیویں تو شمردہ لیں
دینا ہو گا حساب کسو کو یک دم ہی میں دم دم کا
چھاتی کوٹی منھ نوچا سر دے دے مارا پتھر پر
دل کے خوں ہونے میں ہمارا یہی طریق ہے ماتم کا
لڑکے شوخ بہت ہیں لیکن ویسا میر نہیں کوئی
دھوم قیامت کی سی ہے ہنگامہ اس کے اودھم کا
میر تقی میر

غنیمت ہے جہاں میں دم ہمارا

دیوان پنجم غزل 1541
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
غنیمت ہے جہاں میں دم ہمارا
رہے ہم عالم مستی میں اکثر
رہا کچھ اور ہی عالم ہمارا
بہت ہی دور ہم سے بھاگتے ہو
کرو ہو پاس کچھ تو کم ہمارا
بکھر جاتے ہیں کچھ گیسو تمھارے
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا
رکھے رہتے ہیں دل پر ہاتھ اے میر
یہیں شاید کہ ہے سب غم ہمارا
میر تقی میر

ان ہی دیدئہ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے

دیوان چہارم غزل 1528
جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی درد و رنج و غم دیکھے
ان ہی دیدئہ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے
سر جانے کی اور اپنے زنہار نگاہ نہ کی ہم نے
اٹھ کے اندھا دھند آئے چلے ہی اس ظالم کے قدم دیکھے
عالم ہیئت مجموعی سے ایک عجیب مرقع ہے
ہر صفحے میں ورق میں اس کے دیکھے تو عالم دیکھے
زخم نہ ہوویں کیونکر غائر چھاتی میں دل خستوں کی
تیرنگاہ یار جگر پر لگتے ہوئے پیہم دیکھے
یار کے در پر ذکر ہے کیا ہنگامۂ روزمحشر کا
اس کوچے میں قیامت سے تو میر بہت اودھم دیکھے
میر تقی میر

ہم نے کھینچی کمان رستم بھی

دیوان چہارم غزل 1491
زورکش ہیں گے عشق کے ہم بھی
ہم نے کھینچی کمان رستم بھی
ہے بلا دھوم دل تڑپنے کی
ایسا ہوتا نہیں ہے اودھم بھی
کچھ نہیں اور دیکھیں ہیں کیا کیا
خواب کا سا ہے یاں کا عالم بھی
حیف دل جاتے پڑ گئی جی کی
ورنہ غم کرتے لیتے ماتم بھی
حرم کعبہ کا نہ پایا بھید
نہ ملا واں کا ایک محرم بھی
خشک نے سا تھا شیخ حیف موا
یوں تو یار اس کو دیتے تھے دم بھی
کھپ ہی جاتا ہے آدمی اے میر
آفت جاں ہے عشق کا غم بھی
میر تقی میر

ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی

دیوان چہارم غزل 1487
میں تو تنک صبری سے اپنی رہ نہیں سکتا اک دم بھی
ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی
جامۂ احرام آخر تہ کر دل کی اور توجہ کی
در پہ حرم کے اس لیے تھے ہم کوئی ملے گا محرم بھی
دیکھ ہوا کو طائر گلشن کس حسرت سے کہتے تھے
گل ہی چلے جاتے نہیں یاں سے چلنے کو بیٹھے ہیں ہم بھی
کیا کیا میں بیتاب رہا ہوں رنج و الم سے محبت کے
ہے عالم کچھ اور ہی میرے دل کے مرض کا عالم بھی
پنبہ و داغ کیا ہے کیا کیا اچھے ہونے والے نہ تھے
زخموں پر چھاتی کے میری رکھ دیکھو نہ مرہم بھی
گرم ہوا ہے ہو گا جوہر سیر چمن کی کر لیجے
پھول بکھرتے جاتے ہیں کچھ آخر ہے اب موسم بھی
نعل جڑے سینے کو کوٹا چہرے نچے پر خاک ملی
میر کیا ہے میں نے نہایت دل جانے کا ماتم بھی
میر تقی میر

دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا

دیوان چہارم غزل 1350
تھا محبت سے کبھو ہم میں کبھو یہ غم میں تھا
دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا
کیا ہوا پہلو سے دل کیا جانو کیا جانوں ہوں میں
ایک قطرہ خوں جھمکتا صبح چشم نم میں تھا
میر گذرے دونوں یاں عید و محرم ایک سے
یعنی دس دن جینے کے میں اپنے ہی ماتم میں تھا
میر تقی میر

ایسی جنت گئی جہنم میں

دیوان سوم غزل 1202
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں
نزع میں میرے ایک دم ٹھہرو
دم ابھی ہیں ہزار اک دم میں
نعل ہم چھاتیوں پہ جڑ کے پھرے
اپنے خوں گشتہ دل کے ماتم میں
ہے بہت جیب چاکی ہی جوں صبح
کیا کیا جائے فرصت کم میں
پرکے تھی بے کلی قفس میں بہت
دیکھیے اب کے گل کے موسم میں
آپ میں ہم نہیں تو کیا ہے عجب
دور اس سے رہا ہے کیا ہم میں
بے خودی پر نہ میر کی جائو
تم نے دیکھا ہے اور عالم میں
میر تقی میر

دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا

دیوان سوم غزل 1076
سینہ کوبی ہے طپش سے غم ہوا
دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا
آنکھیں دوڑیں خلق جا اودھر گری
اٹھ گیا پردہ کہاں اودھم ہوا
کیا لکھوں رویا جو لکھتے جوں قلم
سب مرے نامے کا کاغذ نم ہوا
ہم جو اس بن خوار ہیں حد سے زیاد
یار یاں تک آن کر کیا کم ہوا
آگیا یوں ہی خراماں وہ تو پھر
حشر کا ہنگامہ ہی برہم ہوا
درہمی سے برہمی سے دیکھیو
دونوں عالم کا عجب عالم ہوا
جسم خاکی کا جہاں پردہ اٹھا
ہم ہوئے وہ میر سب وہ ہم ہوا
میر تقی میر

یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے

دیوان دوم غزل 1036
زلف ہی درہم نہیں ابرو بھی پرخم اور ہے
یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے
پیٹ لینا سر لیے دل کے شروع عشق تھا
سینہ کوبی متصل ہے اب یہ ماتم اور ہے
جوں کف دریا کو دریا سے ہے نسبت دور کی
ابر بھی ووں اور کچھ ہے دیدئہ نم اور ہے
رہتے رہتے منتظر آنکھوں میں جی آیا ندان
دم غنیمت جان اب مہلت کوئی دم اور ہے
جی تو جانے کا ہمیں اندوہ ہی ہے لیک میر
حشر کو اٹھنا پڑے گا پھر یہ اک غم اور ہے
میر تقی میر

ہوتا تھا اگلے لوگوں میں بھی باہم اختلاط

دیوان دوم غزل 830
کرتے نہیں ہیں اس سے نیا کچھ ہم اختلاط
ہوتا تھا اگلے لوگوں میں بھی باہم اختلاط
ٹک گرم میں ملوں تو مجھی سے ملے خنک
اوروں سے تو وہی ہے اسے ہر دم اختلاط
ایسا نہ ہو کہ شیخ دغا دیوے ہم نشیں
ابلیس سے کرے ہے کوئی آدم اختلاط
بیگانگی مجھی سے چلی جاتی ہے خصوص
رکھتا ہے یوں تو یار سے اک عالم اختلاط
کس طور اتفاق پڑی صحبت اس سے دیر
ہے میر بے دماغ و قیامت کم اختلاط
میر تقی میر

چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا

دیوان دوم غزل 677
خط سے وہ زور صفاے حسن اب کم ہو گیا
چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا
سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہونے میں رہی
حق بجانب تھا ہمارے سخت ماتم ہو گیا
ایک سا عالم نہیں رہتا ہے اس عالم کے بیچ
اب جہاں کوئی نہیں یاں ایک عالم ہو گیا
آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا
زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہو گیا
اس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
آب حیواں یمن طالع سے مرے سم ہو گیا
وقت تب تک تھا تو سجدہ مسجدوں میں کفر تھا
فائدہ اب جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا
عشق ان شہری غزالوں کا جنوں کو اب کھنچا
وحشت دل بڑھ گئی آرام جاں رم ہو گیا
جی کھنچے جاتے ہیں فرط شوق سے آنکھوں کی اور
جن نے دیکھا ایک دم اس کو سو بے دم ہو گیا
ہم نے جو کچھ اس سے دیکھا سو خلاف چشم داشت
اپنا عزرائیل وہ جان مجسم ہو گیا
کیا کہوں کیا طرحیں بدلیں چاہ نے آخر کو میر
تھا گرہ جو درد چھاتی میں سو اب غم ہو گیا
میر تقی میر

چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے

دیوان اول غزل 582
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے
مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک
روشنی ہے سو یاں مرے دم سے
تم جو دلخواہ خلق ہو ہم کو
دشمنی ہے تمام عالم سے
درہمی آگئی مزاجوں میں
آخر ان گیسوان درہم سے
سب نے جانا کہیں یہ عاشق ہے
بہ گئے اشک دیدئہ نم سے
مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو
کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے
اکثر آلات جور اس سے ہوئے
آفتیں آئیں اس کے مقدم سے
دیکھ وے پلکیں برچھیاں چلیاں
تیغ نکلی اس ابروے خم سے
کوئی بیگانہ گر نہیں موجود
منھ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے
وجہ پردے کی پوچھیے بارے
ملیے اس کے کسو جو محرم سے
درپئے خون میر ہی نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
میر تقی میر

رہ سکے ہے تو تو رہ یاں ہم چلے

دیوان اول غزل 520
ہم تو اس کے ظلم سے ہمدم چلے
رہ سکے ہے تو تو رہ یاں ہم چلے
ٹوٹے جوں لالہ ستاں سے ایک پھول
ہم لے یاں سے داغ یک عالم چلے
جبنش ابرو تو واں رہتی نہیں
کب تلک تلوار یاں ہر دم چلے
نم جگر کے آیا آخر ہو گئے
اشک خونیں کچھ مژہ پر جم چلے
دیکھیے بخت زبوں کیا کیا دکھائے
تم تو خوباں ہم سے ہو برہم چلے
بھاگنے پر بیٹھے تھے گویا غزال
تیری آنکھیں دیکھتے ہی رم چلے
مجھ سے ناشائستہ کیا دیکھا کہ میر
آتے آتے کچھ جو آنسو تھم چلے
میر تقی میر

ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں

دیوان اول غزل 365
تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں
ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں
نہ کچھ کاغذ میں ہے تہ نے قلم کو درد نالوں کا
لکھوں کیا عشق کے حالات نامحرم ہیں یہ دونوں
لہو آنکھوں سے بہتے وقت رکھ لیتا ہوں ہاتھوں کو
جراحت ہیں اگر وے دونوں تو مرہم ہیں یہ دونوں
کسو چشمے پہ دریا کے دیا اوپر نظر رکھیے
ہمارے دیدئہ نم دیدہ کیا کچھ کم ہیں یہ دونوں
لب جاں بخش اس کے مار ہی رکھتے ہیں عاشق کو
اگرچہ آب حیواں ہیں ولیکن سم ہیں یہ دونوں
نہیں ابرو ہی مائل جھک رہی ہے تیغ بھی ایدھر
ہمارے کشت و خوں میں متفق باہم ہیں یہ دونوں
کھلے سینے کے داغوں پر ٹھہر رہتے ہیں کچھ آنسو
چمن میں مہر ورزی کے گل و شبنم ہیں یہ دونوں
کبھو دل رکنے لگتا ہے جگر گاہے تڑپتا ہے
غم ہجراں میں چھاتی کے ہماری جم ہیں یہ دونوں
خدا جانے کہ دنیا میں ملیں اس سے کہ عقبیٰ میں
مکاں تو میر صاحب شہرئہ عالم ہیں یہ دونوں
میر تقی میر

مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں

دیوان اول غزل 346
آجائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں
یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں
حاصل ہے کیا سواے ترائی کے دہر میں
اٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں
مائل بہ غیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے
تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں
ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں
اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں
عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں
ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں
اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں
میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمھیں
تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں
دل مت لگا رخ عرق آلود یار سے
آئینے کو اٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں
شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میر
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں
میر تقی میر

ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز

دیوان اول غزل 235
ہوچکا خون جگر رونا نہیں کچھ کم ہنوز
ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز
دل جلوں پر روتے ہیں جن کو ہے کچھ سوز جگر
شمع رکھتی ہے ہماری گور پر ماتم ہنوز
وضع یکساں اس زمانے میں نہیں رہتی کہیں
قد ترا چوگاں رہا ہے کس طرح سے خم ہنوز
آرہا ہے جی مرا آنکھوں میں اک پل اور ہوں
پر نہیں جاتا کسی کے دیکھنے کا غم ہنوز
وہ جو عالم اس کے اوپر تھا سو خط نے کھو دیا
مبتلا ہے اس بلا میں میر اک عالم ہنوز
میر تقی میر

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

دیوان اول غزل 102
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرئہ خوں تھا مژہ پر جم رہا
سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ
اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا
جامۂ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا
زلفیں کھولیں تو تو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کام دل برہم رہا
اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آب حیواں سم رہا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
صبح پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا
میر تقی میر

ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 16
یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آکے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَرمِٹیں ہم ، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری ، یُوں پِھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے ، وہی فصلِ گُل کا ماتم
لاہورجیل
فیض احمد فیض

فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 272
کیا ہرن ہے کہ کبھی رم نہیں کرتا ہم سے
فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے
پیکر سادہ ہے اور دل سے وہ کرتا ہے سلوک
جو کبھی حسنِ دو عالم نہیں کرتا ہم سے
خود ہی شاداب ہے وہ لالۂ صحرا ایسا
خواہشِ قطرۂ شبنم نہیں کرتا ہم سے
کیا خبر کون سی تقصیر پہ ناراض نہ ہو
وہ شکایت بھی تو پیہم نہیں کرتا ہم سے
صبر اے عشق‘ وہ خواہاں ہے شکیبائی کا
طلبِ دیدۂ پر نم نہیں کرتا ہم سے
عرفان صدیقی

علیؑ کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 119
دِل سوزاں پہ جیسے دست شبنم رکھ دیا دیکھو
علیؑ کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو
سنا ہے گرد راہِ بوترابؑ آنے کو ہے سر پر
سو میں نے خاک پر تاجِ مئے و جم رکھ دیا دیکھو
سخی داتا سے انعامِ قناعت میں نے مانگا تھا
مرے کشکول میں خوان دو عالم رکھ دیا دیکھو
ملا فرماں سخن کے ملک کی فرماں روائی کا
گدا کے ہاتھ پر آقا نے خاتم رکھ دیا دیکھو
طلسمِ شب مری آنکھوں کا دشمن تھا سو مولاؑ نے
لہو میں اِک چراغِ اِسم اعظم رکھ دیا دیکھو
کھلا آشفتہ جانوں پر علم مشکل کشائی کا
ہوائے ظلم نے پیروں میں پرچم رکھ دیا دیکھو
شہِ مرداںؑ کے در پر گوشہ گیری کا تصدق ہے
کہ میں نے توڑکر یہ حلقۂ رم رکھ دیا دیکھو
مجھے اس طرح نصرت کی نوید آئی کہ دم بھر میں
اُٹھاکر طاق پر سب دفترِ غم رکھ دیا دیکھو
عرفان صدیقی

یعنی ہے ایک کوچۂ ماتم میں زندگی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 470
گزری تمام ماہِ محرم میں زندگی
یعنی ہے ایک کوچۂ ماتم میں زندگی
کیسا عجب تھا اس کی اچٹتی نظر کا فیض
ساری بدل گئی ہے مری دم میں زندگی
صحرا کی دو پہر سے مسلسل میں ہم کلام
پھرتی ہے دشت دشت شبِ غم میں زندگی
کچھ کچھ سرکتی ہے کوئی ٹوٹی ہوئی چٹان
چلتی نہیں فراق کے موسم میں زندگی
ہرشام ایک مرثیہ ہر صبح ایک بین
اک چیخ ہے شعور کے عالم میں زندگی
منصور دوگھروں میں ہے آباد ایک جسم
تقسیم آدھی آدھی ہوئی ہم میں زندگی
منصور آفاق

مسکرانے لگے حیات کے غم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 16
دیکھ کر تیرے گیسوئے برہم
مسکرانے لگے حیات کے غم
اک تمہاری نظر بدلنے سے
ہو گئیں کتنی محفلیں برہم
آ گئے آپ درمیاں ورنہ
کھل چلی تھی حقیقت عالم
دیکھنا تو بہار کے انداز
غنچے غنچے کی آنکھ ہے پُرنم
آ رہی ہے وہ صبح نو باقیؔ
دیکھو لے کر حیات کا پرچم
باقی صدیقی