ٹیگ کے محفوظات: طوفان

مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا

دیوان سوم غزل 1064
کیا رویئے ہمیں کو یوں آن کر کے مارا
مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا
تربت کا میری لوحہ آئینے سے کرے ہے
یعنی کہ ان نے مجھ کو حیران کر کے مارا
بیگانہ جان ان نے کیا چوٹ رات کو کی
منھ دیکھ دیکھ میرا پہچان کر کے مارا
پہلے گلے لگایا پھر دست جور اٹھایا
مارا تو ان نے لیکن احسان کر کے مارا
اس سست عہد نے کیا کی تھی قسم مجھی سے
بہتوں کو ان نے عہد و پیمان کر کے مارا
حاضر یراق ہونا کاہے کو چاہیے تھا
مجھ بے نوا کو کیا کیا سامان کر کے مارا
کہنے لگا کہ شب کو میرے تئیں نشہ تھا
مستانہ میر کو میں کیا جان کر کے مارا
میر تقی میر

خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا

دیوان سوم غزل 1055
میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا
خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا
اس سرے دل کی خرابی ہوئی اے عشق دریغ
تو نے کس خانۂ مطبوع کو ویران کیا
ضبط تھا جب تئیں چاہت نہ ہوئی تھی ظاہر
اشک نے بہ کے مرے چہرے پہ طوفان کیا
انتہا شوق کی دل کے جو صبا سے پوچھی
اک کف خاک کو لے ان نے پریشان کیا
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میر تقی میر

آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے

دیوان اول غزل 606
اپنا سر شوریدہ تو وقف خم چوگان ہے
آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے
عالم مری تقلید سے خواہش تری کرنے لگا
میں تو پشیماں ہو چکا لوگوں کو اب ارمان ہے
ہر چند بیش از بیش ہے دعویٰ تو رونے کا تجھے
پر دیدئہ نمناک بھی اے ابرتر طوفان ہے
اس بے دمی میں بھی کبھو دل بھر اٹھے ہے دم ترا
آ ٹک شتابی بے وفا اب تک تو مجھ میں جان ہے
ہر لحظہ خنجر درمیاں ہر دم زباں زیر زباں
وہ طور وہ اسلوب ہے یہ عہد یہ پیمان ہے
اس آرزوے وصل نے مشکل کیا جینا مرا
ورنہ گذرنا جان سے اتنا نہیں آسان ہے
بس بے وقاری ہوچکی گلیوں میں خواری ہوچکی
اب پاس کر ٹک میر کا دو چار دن مہمان ہے
میر تقی میر

کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے

دیوان اول غزل 506
جوش دل آئے بہم دیدئہ گریان ہوئے
کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے
کیا چھپیں شہر محبت میں ترے خانہ خراب
گھر کے گھر ان کے ہیں اس بستی میں ویران ہوئے
کس نے لی رخصت پرواز پس از مرگ نسیم
مشت پر باغ میں آتے ہی پریشان ہوئے
سبزہ و لالہ و گل ابر و ہوا ہے مے دے
ساقی ہم توبہ کے کرنے سے پشیمان ہوئے
دیکھتے پھرتے ہیں منھ سب کا سحر آئینے
جلوہ گر ہو کہ یہ تجھ بن بہت حیران ہوئے
دعوی خوش دہنی گرچہ اسے تھا لیکن
دیکھ کر منھ کو ترے گل کے تئیں کان ہوئے
جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آب
جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے
اپنے جی ہی نے نہ چاہا کہ پئیں آب حیات
یوں تو ہم میر اسی چشمے پہ بے جان ہوئے
میر تقی میر

دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے

دیوان اول غزل 491
بے یار شہر دل کا ویران ہورہا ہے
دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے
اس منزل جہاں کے باشندے رفتنی ہیں
ہر اک کے ہاں سفر کا سامان ہورہا ہے
اچھا لگا ہے شاید آنکھوں میں یار اپنی
آئینہ دیکھ کر کچھ حیران ہورہا ہے
ٹک زیر طاق نیلی وسواس سے رہا کر
مدت سے گرنے پر یہ ایوان ہورہا ہے
گل دیکھ کر چمن میں تجھ کو کھلا ہی جا ہے
یعنی ہزار جی سے قربان ہورہا ہے
حال زبون اپنا پوشیدہ کچھ نہ تھا تو
سنتا نہ تھا کہ یہ صید بے جان ہورہا ہے
ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی
ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہورہا ہے
قرباں گہ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سو
دشوار جان دینا آسان ہورہا ہے
ہر شب گلی میں اس کی روتے تو رہتے ہو تم
اک روز میر صاحب طوفان ہورہا ہے
میر تقی میر

بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا

دیوان اول غزل 108
تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
گر ہے یہ بے قراری تو رہ چکا بغل میں
دو روز دل ہمارا مہمان ہے ہمارا
ہیں اس خراب دل سے مشہور شہرخوباں
اس ساری بستی میں گھر ویران ہے ہمارا
مشکل بہت ہے ہم سا پھر کوئی ہاتھ آنا
یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا
ادریس و خضر و عیسیٰ قاتل سے ہم چھڑائے
ان خوں گرفتگاں پر احسان ہے ہمارا
ہم وے ہیں سن رکھو تم مرجائیں رک کے یک جا
کیا کوچہ کوچہ پھرنا عنوان ہے ہمارا
ہیں صید گہ کے میری صیاد کیا نہ دھڑکے
کہتے ہیں صید جو ہے بے جان ہے ہمارا
کرتے ہیں باتیں کس کس ہنگامے کی یہ زاہد
دیوان حشر گویا دیوان ہے ہمارا
خورشید رو کا پرتو آنکھوں میں روز ہے گا
یعنی کہ شرق رویہ دالان ہے ہمارا
ماہیت دوعالم کھاتی پھرے ہے غوطے
یک قطرہ خون یہ دل طوفان ہے ہمارا
نالے میں اپنے ہر شب آتے ہیں ہم بھی پنہاں
غافل تری گلی میں مندان ہے ہمارا
کیا خانداں کا اپنے تجھ سے کہیں تقدس
روح القدس اک ادنیٰ دربان ہے ہمارا
کرتا ہے کام وہ دل جو عقل میں نہ آوے
گھر کا مشیر کتنا نادان ہے ہمارا
جی جا نہ آہ ظالم تیرا ہی تو ہے سب کچھ
کس منھ سے پھر کہیں جی قربان ہے ہمارا
بنجر زمین دل کی ہے میر ملک اپنی
پر داغ سینہ مہر فرمان ہے ہمارا
میر تقی میر

یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 467
پہلو میں آ کہ اپنا ہو عرفان سائیکی
یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی
میرے سگار میں رہے جلتے تمام عمر
احساس، خواب، آگہی، وجدان، سائیکی
اٹکا ہوا ہے خوف کے دھڑ میں مرا دماغ
وحشت زدہ خیال، پریشان سائیکی
باہر مرے حریمِ حرم سے نکل کے آ
اپنے چراغِ طور کو پہچان سائیکی
رستہ نجات کا ترے لاکٹ میں بند ہے
باہر کہیں نہیں کوئی نروان سائیکی
لاکھوں بلیک ہول ہیں مجھ میں چھپے ہوئے
میری خلاؤں سے بھی ہے سنسان سائیکی
کیا تُو برہنہ پھرتی ہے میری رگوں کے بیچ
میرے بدن میں کیسا ہے ہیجان سائیکی
خالی ہے دیکھ یاد کی کرسی پڑی ہوئی
سونا پڑا ہے شام کا دالان سائیکی
دریا نکل بھی سکتا ہے صحرائے چشم سے
تجھ میں دھڑکتا ہے کوئی طوفان سائیکی
یہ گیت یہ بہار یہ دستک یہ آہٹیں
یہ کیا کسی کا رہ گیا سامان سائیکی
یہ حسرتیں یہ روگ یہ ارماں یہ درد و غم
کرتی ہو جمع میر کا دیوان، سائیکی
شاخوں سے بر گ و بارکی امید کیا کروں
پہنچا ہوا جڑوں میں ہے سرطان سائیکی
ممکن ہے تجھ سے اپنی ملاقات ہوکبھی
موجود ہیں بڑے ابھی امکان سائیکی
گرداب کھینچ سکتے ہیں پاتال کی طرف
کوئی جہاز کا نہیں کپتان سائیکی
پھر ڈھونڈتا ہے تیرے خدو خال روح میں
منصور کا ہے پھر نیا رومان سائیکی
منصور آفاق

پیارے پاکستان! خدا حافظ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 201
راکھ ہوئے ارمان، خدا حافظ
پیارے پاکستان! خدا حافظ
ایک بجا ہے رات کے چہرے پر
اچھا، میری جان! خدا حافظ
رختِ سفر میں باندھ نہیں سکتا
تتلی اور گلدان! خدا حافظ
جوشِ قدح سے آنکھیں بھر لی ہیں
اشکوں کے طوفان! خدا حافظ
رات کا خالی شہر بلاتا ہے
دہکے آتش دان! خدا حافظ
میں کیا جانوں میں کس اور گیا
اے دل اے انجان خدا حافظ
مان نہیں سکتا میں ہجر کی فال
حافظ کے دیوان خدا حافظ
تیرا قصبہ اب میں چھوڑ چلا
ساونت پوش مکان خدا حافظ
کالی رات سے میں مانوس ہوا
سورج کے امکان خدا حافظ
رات شرابی ہوتی جاتی ہے
اے میرے وجدان خدا حافظ
میں ہوں شہر سخن کا آوارہ
علم و قلم کی شان خدا حافظ
خود کو مان لیا پہچان لیا
اے چشمِ حیران خدا حافظ
دل منصور چراغِ طور ہوا
موسیٰ کے ارمان خدا حافظ
منصور آفاق

نظر دیوار سے گزری، رکی ڈھلوان پر بارش

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 192
تحیر خیز موسم کی ہوئی وجدان پر بارش
نظر دیوار سے گزری، رکی ڈھلوان پر بارش
ترے پاگل کی باتیں اتفاقاتِ جہاں ہیں کیا
ہوئی ہے یوں ہی برسوں بعد ریگستان پر بارش
سراپا آگ !دم بھر کو مرے چہرے پہ نظریں رکھ
تری آنکھوں سے ہو گی تیرے آتش دان پر بارش
گرے تو پھول بن جائے ترے چہرے پہ مہتابی
پڑے تو آگ بن جائے ترے دامان پر بارش
کتابِ غم کو کتنی بار برساتوں میں رکھا ہے
نہیں پڑتی جنابِ میر کے دیوان پر بارش
وہ برساتیں پہن کر گاؤں میں پھرتی ہوئی لڑکی
مجھے یاد آتی ہے اس سے مہکتی دھان پر بارش
محبت جاگتی ہے جب تو پھر ہوتی ہے سپنوں کی
مقام یاد پر بارش، شبِ پیمان پر بارش
عدم آباد سے آگے خدا کی آخری حد تک
رہی ہے زندگی کی قریہء امکان پر بارش
گئے گزرے زمانے ڈھونڈتی بدلی کی آنکھوں سے
یونہی ہے اِس کھنڈر جیسے دلِ ویران پر بارش
کئی برسوں سے پانی کو ترستی تھی مری چوپال
کسی کا پاؤں پڑتے ہی ہوئی دالان پر بارش
بڑی مشکل سے بادل گھیر لایا تھا کہیں سے میں
اتر آئی ہے اب لیکن مرے نقصان پر بارش
بہا کر لے گئی جو شہر کے کچے گھروندوں کو
نہیں ویسی نہیں ہے قصرِ عالی شان پر بارش
کہے ہے بادلو! یہ ڈوبتے سورج کی تنہائی
ذرا سی اہتمامِ شام کے سامان پر بارش
بدن کو ڈھانپ لیتی ہیں سنہری بھاپ کی لہریں
اثر انداز کیا ہو لمس کے طوفان پر بارش
جلایا کس گنہ گارہ کو معصوموں کی بستی نے
کہ اتری بال بکھرائے ہوئے شمشان پر بارش
کسی مشہور نٹ کا رقص تھا اونچی حویلی میں
ہوئی اچھی بھلی نوٹوں کی پاکستان پر بارش
مجھے مرجھاتے پھولوں کا ذرا سا دکھ ہوا منصور
مسلسل ہو رہی ہے کانچ کے گلدان پر بارش
منصور آفاق