ٹیگ کے محفوظات: طرحدار

اب ان نے سج بنائی ہے خونخوار بے طرح

دیوان پنجم غزل 1597
گھر سے لیے نکلتا ہے تلوار بے طرح
اب ان نے سج بنائی ہے خونخوار بے طرح
جی بچنے کی طرح نظر آتی نہیں کوئی
کرتا ہے میرے خون پہ اصرار بے طرح
چہرہ تو ان نے اپنا بنایا ہے خوب لیک
بگڑا پھرے ہے اب وہ طرحدار بے طرح
کس طرح جائے پکڑی زباں اس کی خشم میں
کہتا ہے بیٹھا متصل اب یار بے طرح
لوہو میں ڈوبے دیکھیو دامان و جیب میر
بپھرا ہے آج دیدئہ خونبار بے طرح
میر تقی میر

کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح

دیوان اول غزل 195
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح
میں اور قیس و کوہکن اب جو زباں پہ ہیں
مارے گئے ہیں سب یہ گنہگار ایک طرح
منظور اس کو پردے میں ہیں بے حجابیاں
کس سے ہوا دوچار وہ عیار ایک طرح
سب طرحیں اس کی اپنی نظر میں تھیں کیا کہیں
پر ہم بھی ہو گئے ہیں گرفتار ایک طرح
گھر اس کے جاکے آتے ہیں پامال ہوکے ہم
کریے مکاں ہی اب سر بازار ایک طرح
گہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو
آتا نہیں نظر وہ طرحدار ایک طرح
نیرنگ حسن دوست سے کر آنکھیں آشنا
ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح
سو طرح طرح دیکھ طبیبوں نے یہ کہا
صحت پذیر ہوئے یہ بیمار ایک طرح
سو بھی ہزار طرح سے ٹھہراوتے ہیں ہم
تسکین کے لیے تری ناچار ایک طرح
بن جی دیے ہو کوئی طرح فائدہ نہیں
گر ہے تو یہ ہے اے جگر افگار ایک طرح
ہر طرح تو ذلیل ہی رکھتا ہے میر کو
ہوتا ہے عاشقی میں کوئی خوار ایک طرح
میر تقی میر

بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا

دیوان اول غزل 77
محبت کا جب روز بازار ہو گا
بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا
تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن
کبھی یہ قیامت طرحدار ہو گا
صبا موے زلف اس کا ٹوٹے تو ڈر ہے
کہ اک وقت میں یہ سیہ مار ہو گا
مرا دانت ہے تیرے ہونٹوں پہ مت پوچھ
کہوں گا تو لڑنے کو تیار ہو گا
نہ خالی رہے گی مری جاگہ گر میں
نہ ہوں گا تو اندوہ بسیار ہو گا
یہ منصور کا خون ناحق کہ حق تھا
قیامت کو کس کس سے خوں دار ہو گا
عجب شیخ جی کی ہے شکل و شمائل
ملے گا تو صورت سے بیزار ہو گا
نہ رو عشق میں دشت گردی کو مجنوں
ابھی کیا ہوا ہے بہت خوار ہو گا
کھنچے عہد خط میں بھی دل تیری جانب
کبھو تو قیامت طرحدار ہو گا
زمیں گیر ہو عجز سے تو کہ اک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہو گا
نہ مرکر بھی چھوٹے گا اتنا رکے گا
ترے دام میں جو گرفتار ہو گا
نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میر بھی یاں
جو ہو گا تو جیسے گنہگار ہو گا
میر تقی میر

کیا خبر آج خراماں سرِ‌گلزار ہے کون

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 32
صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ‌گلزار ہے کون
شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون
رات مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرحدار ہے کون
پھر درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانیے پھر دلِ وحشی کا طلبگار ہے کون
فیض احمد فیض

تو صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 31
کِھلے جو ایک دریچے میں آج حسن کے پھول
تو صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر
جہاں کہیں‌ بھی گرا نور اُن نگاہوں سے
ہر ایک چیز طرحدار ہو گئی یکسر
قطعہ
فیض احمد فیض

ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 22
فکر دلداریء گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
قصہء سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوہء یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
جانے کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل
وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں
یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں
گویا اس سوچ میں ہے دل میں لہو بھر کے گلاب
دامن و جیب کو گلنار کروں یا نہ کروں
ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمیء گفتار کروں یا نہ کروں
نذرِ سودا
فیض احمد فیض