دیوان دوم غزل 876
رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں
کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں
سنبھالے سدھ کہاں سر ہی فرو لاتا نہیں ہرگز
وگرنہ مان جاتا تھا کہاں تھوڑی سی منت میں
گئے دن متصل جانے کے اس کی اور اٹھ اٹھ کر
تفاوت ہو گیا اب تو بہت پائوں کی طاقت میں
تحمل ہوسکا جب تک بدن میں تاب و طاقت تھی
قیامت اب گذر جاتی ہے جی پر ایک ساعت میں
عجب کیا ہے جو یاران چمن کو ہم نہ پہچانیں
رہائی اتفاق اپنی پڑی ہے ایک مدت میں
سلاتا تیغ خوں میں گر نہ میرے تو قیامت تھی
اٹھا تھا روز محشر کا سا فتنہ رات صحبت میں
کوئی عمامہ لے بھاگا کنھوں نے پیرہن پھاڑا
بہت گستاخیاں یاروں نے کیں واعظ کی خدمت میں
ملا تیوری چڑھائے تو لگا ابرو بھی خم کرنے
موثر کچھ ہوا سر مارنا محراب طاعت میں
قدم پر رکھ قدم اس کے بہت مشکل ہے مر جانا
سرآمد ہو گیا ہے میر فن مہر و الفت میں
میر تقی میر