ٹیگ کے محفوظات: صنم

کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے

کیوں تجھے اپنے ستم یاد آئے
کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے
جھک گئی کیوں یہ نظر ملتے ہی
کیا کوئی قول و قسم یاد آئے
کچھ نہ کچھ ہے تو اُداسی کا سبب
مان بھی جاؤ کہ ہم یاد آئے
بت کدہ چھوڑ کے جانے والو
کیا کروگے جو صنم یاد آئے
جب بھی پامالیِ اقدار ہوئی
وقت کو اہلِ قلم یاد آئے
کیا ہُوا راہِ جنوں کو ضامنؔ
کیوں مرے نقشِ قدم یاد آئے
ضامن جعفری

متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں

فسانہِ غمِ ہستی رَقَم کروں نہ کروں
متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں
وہ جن میں دھڑکنیں اُن کے بھی دل کی ہیں شامل
وہ حادثات سپُردِ قَلَم کروں نہ کروں
تمام عمر لیے دل میں سوچتا ہی رَہا
قبول ہو نہ ہو نذرِ صَنَم کروں نہ کروں
ہو بحثِ رشتہِ عصیاں و زلف گر ضامنؔ
کہو کہ تذکرہِ پیچ و خَم کروں نہ کروں
ضامن جعفری

کیوں نہ ہَوں کیا کسی سے کم ہیں ہم

خسروِ کِشوَرِ اَلَم ہیں ہم
کیوں نہ ہَوں کیا کسی سے کم ہیں ہم
شبِ تنہائی اب یہ ڈر کیسا
اَور کوئی نہیں ہے ہم ہیں ہم
کس قدر پُر سکون ہے دنیا
لبِ خاموش و چشمِ نَم ہیں ہم
کچھ عناصِر ابھی نہیں بِکھرے
دَمِ تحریر تَو بَہَم ہیں ہم
زندگی ایسی رایگاں بھی نہیں
کچھ دِلوں پر کہیِں رَقَم ہیں ہم
احتیاطاً کِیا نہ ذِکر اُن کا
سارا موضوع بیش و کم ہیں ہم
ضامنؔ! اِک رازِ کاینات کہوں ؟
خود پُجاری ہیں خود صَنَم ہیں ہم
ضامن جعفری

کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آ رہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر
تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دِن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر
تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دِلوں کے ختن
پاشکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر
شہر اُجڑے تو کیا، ہے کشادہ زمینِ خدا
اِک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
یہ محلاتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں اِن کے علم صبر کر صبر کر
دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر
لہلہائیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابرِ کرم صبر کر صبر کر
کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر
پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریرِ قلم صبر کر صبر کر
درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر
دیکھ ناصر زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر
ناصر کاظمی

خُدا سمجھتے رہے تھے جِسے صنم نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
نہیں کُچھ ایسا تغافل میں وُہ بھی کم نکلا
خُدا سمجھتے رہے تھے جِسے صنم نکلا
یہاں کے لوگ اذیّت پسند ہیں کیا کیا
مِلے جِسے بھی وُہ گرویدۂ ستم نکلا
وُہی جو قلقلِ خوں میں تھا رقصِ بِسمل کے
کُچھ اپنی لے میں بھی ایسا ہی زیر و بم نکلا
یقیں نہیں ہے پہ حسبِ روایتِ غیراں
جنم ہمارا بھی ہے ناطلب جنم نکلا
سنور گئے ہیں یہاں قصر کیا سے کیا ماجدؔ
مِرے مکان کی دیوار کا نہ خم نکلا
ماجد صدیقی

ڈھونڈھتے، روز کا رزق ہم تھک گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
جمع کرتے بدن کی یہ نم، تھک گئے
ڈھونڈھتے، روز کا رزق ہم تھک گئے
یوں لگے، ڈھیل توبہ کی دیتے ہوئے
ہم پہ ہوتے رہے جو، کرم تھک گئے
ایک انساں، نہ سجدوں سے باز آ سکا
پُوجے جانے سے، کیا کیا صنم تھک گئے
آرزو جستجو اور محرومیاں
اس مسلسل سفر سے، قدم تھک گئے
ہیں کُچھ ایسی ہی ماجدؔ حکایاتِ غم
لکھتے لکھتے جنہیں، سب قلم تھک گئے
ماجد صدیقی

وُہ ماجرا سرِ دیوار ہے رقم دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
لب و زباں پہ اُترتے جسے ہے کم دیکھا
وُہ ماجرا سرِ دیوار ہے رقم دیکھا
وُہ دل بھی سنگ سے کمتر ہے کب کہ جس نے کبھی
کوئی خُدا، نہ پسِ آرزو، صنم دیکھا
شبِ الم کے تصّور سے یوں لگے جیسے
اِسی حیات میں اِک اور ہو جنم دیکھا
ستم کو نام دیا اَب کے جو ستمگر نے
کسی بھی جھُوٹ کا کھُلتے نہ یوں بھرم دیکھا
ملا فروغ جہاں بھی سکوں کے نغموں کو
وُہ شاخ راکھ ہوئی، آشیاں بھسم دیکھا
کبھی بہ حسنِ سلامت ہمیں نہ یاد آیا
وُہ شخص جس کو بچھڑتے بہ چشمِ نم دیکھا
ہوا کی چھیڑ بھی ماجدؔ تھی شاخِ بالا سے
نہ جھُک سکا جو کہیں سر وُہی قلم دیکھا
ماجد صدیقی

رکھنے لگے اغیار میں اپنا بھرم اچّھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
سمجھیں وُہ ہمارے لیے ابرو میں خم اچّھا
رکھنے لگے اغیار میں اپنا بھرم اچّھا
کہتے ہیں وہ آلام کو خاطر میں نہ لاؤ
ٹھہرے گا تمہارے لیے اگلا جنم اچّھا
وجداں نے کہی بات یہ کیا حق میں ہمارے
چہرہ یہ مرا اور لباس اُس کا نم اچّھا
جو شاخ بھی کٹتی ہے کٹے نام نمو پر
دیکھو تو چمن پر ہے یہ کیسا کرم اچّھا
کس درجہ بھروسہ ہے اُنہیں ذات پہ اپنی
وہ لوگ کہ یزداں سے جنہیں ہے صنم اچّھا
یہ لفظ تھے کل ایک جنونی کی زباں پر
بسنے سے ہے اِس شہر کا ہونا بھسم اچّھا
غیروں سے ملے گا تو کھلے گا کبھی تجھ پر
ماجدؔ بھی ترے حق میں نہ تھا ایسا کم اچّھا
ماجد صدیقی

پھر بھی اپنے عہد پر قائم ہیں ہم اپنی جگہ

احمد فراز ۔ غزل نمبر 86
تیرا غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ
پھر بھی اپنے عہد پر قائم ہیں ہم اپنی جگہ
کیا کریں یہ دل کسی کی ناصحا سنتا نہیں
آپ نے جو کچھ کہا اے محترم، اپنی جگہ
ہم موحد ہیں بتوں کے پوجنے والے نہیں
پر خدا لگتی کہیں تو وہ صنم اپنی جگہ
یارِ بے پروا! کبھی ہم نے کوئی شکوہ کیا
ہاں مگر ان ناسپاس آنکھوں کا نم اپنی جگہ
محفلِ جاناں ہو، مقتل ہو کہ مے خانہ فراز
جس جگہ جائیں بنا لیتے ہیں ہم اپنی جگہ
احمد فراز

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 227
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
@مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
@ نسخۂ حمیدیہ (اور مہر) میں یہاں لفظ "اگر” ہے، دوسرے تمام نسخوں میں "مگر”، صرف طباطبائی نے حمیدیہ کی املا قبول کی ہے۔ ممکن ہے کہ حمیدیہ میں یہ لفظ کتابت کی غلطی ہو۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

پر تنگ آگئے ہیں تمھارے ستم سے ہم

دیوان سوم غزل 1166
جی کے تئیں چھپاتے نہیں یوں تو غم سے ہم
پر تنگ آگئے ہیں تمھارے ستم سے ہم
اپنے خیال ہی میں گذرتی ہے اپنی عمر
پر کچھ نہ پوچھو سمجھے نہیں جاتے ہم سے ہم
زانو پہ سر ہے قامت خم گشتہ کے سبب
پیری میں اپنی آن لگے ہیں قدم سے ہم
جوں چکمہ میرحاج کا ہے خوار جانماز
بت خانے میں جو آئے ہیں چل کر حرم سے ہم
روتے بھی ان نے دیکھ کے ہم کو کیا نہ رحم
اک چشم داشت رکھتے تھے مژگان نم سے ہم
بدعہدیاں ہی کرتے گئے اس کو سال و ماہ
اب کب تسلی ہوتے ہیں قول و قسم سے ہم
زنار سا بندھا ہے گلے اپنے اب تو کفر
بدنام ہیں جہان میں عشق صنم سے ہم
لوگوں کے وصف کرنے سے بالیدگی ہوئی
جوں شیشہ پھیل پھوٹ پڑے ان کے دم سے ہم
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میر
کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
میر تقی میر

جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 29
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
ایک اک کرکے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
رقصِ مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں
کچھ ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں، مائل بہ کرم آتے ہیں
اور کچھ دیر نہ گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں
فیض احمد فیض

عشق کے دم قدم کی بات کرو

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 21
عجزِ اہل ستم کی بات کرو
عشق کے دم قدم کی بات کرو
بزمِ اہل طرب کو شرماو
بزمِ اصحابِ غم کی بات کرو
بزمِ ثروت کے خوش نشینوں سے
عظمتِ چشمِ نم کی بات کرو
ہے وہی بات یوں بھی اور یوں بھی
تم ستم یا کرم کی بات کرو
خیر، ہیں اہلِ دیر جیسے ہیں
آپ اہل حرم کی بات کرو
ہجر کی شب تو کٹ ہی جائے گی
روزِ وصلِ صنم کی بات کرو
جان جائیں گے جاننے والے
فیض، فرہاد و جم کی بات کرو
فیض احمد فیض

پر اسے معرکۂ عشق سے کم جانتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 186
سخت ہے مرحلۂ رزق بھی ہم جانتے ہیں
پر اسے معرکۂ عشق سے کم جانتے ہیں
آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے
میں تو اک عمر سے کافر ہوں‘ صنم جانتے ہیں
ان کمندوں میں گرفتار نہ ہوں گے کہ غزال
زخم خوردہ ہیں مگر شیوۂ رم جانتے ہیں
یہی اک دھوپ کا ٹکڑا‘ یہی اک کوزۂ خاک
ہم اسے دولتِ اسکندر و جم جانتے ہیں
جانتے سب ہیں کہ ہم رکھتے ہیں خم طرفِ کلاہ
اور کیوں رکھتے ہیں، یہ اہلِ ستم جانتے ہیں
عرفان صدیقی

یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 160
پڑے ہیں جو قلم کے ساتھ کاغذ
یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ
جلا آیا جلوسِ دانشِ دِین
شعورِ محترم کے ساتھ کاغذ
جڑے بس رہ گئے ہیں داستاں میں
ترے عہدِ ستم کے ساتھ کاغذ
یہی بس التماسِ دل کہ رکھنا
یہ دیوارِ حرم کے ساتھ کاغذ
پرندے بنتے جاتے ہیں مسلسل
ترے فضل و کرم کے ساتھ کاغذ
میانوالی میں آئے ہیں فلک سے
یہ امکانِ عدم کے ساتھ کاغذ
خود اپنے قتل نامے کا کسی کو
دیا پورے بھرم کے ساتھ کاغذ
کسی مبہم سی انجانی زباں میں
پڑے ہیں ہر قدم کے ساتھ کاغذ
الٹنے ہیں پلٹنے ہیں لحد تک
خیالِ بیش و کم کے ساتھ کاغذ
یہ وہ تہذیب ہے جو بیچتی ہے
ابھی دام و درم کے ساتھ کاغذ
کسی کو دستخط کرکے دیے ہیں
سرِ تسلیم خم کے ساتھ کاغذ
درازوں میں چھپانے پڑ رہے ہیں
کلامِ چشمِ نم کے ساتھ کاغذ
انہیں عباس نے لکھا ہے خوں سے
یہ چپکا دے علم کے ساتھ کاغذ
چمکتے پھر رہے ہیں آسماں کے
چراغِ ذی حشم کے ساتھ کاغذ
بدل جاتے ہیں اکثر دیکھتا ہوں
مری تاریخِ غم کے ساتھ کاغذ
ابد کے قہوہ خانے میں ملے ہیں
کسی تازہ صنم کے ساتھ کاغذ
ہوئے ہیں کس قدر منصور کالے
یہ شب ہائے الم کے ساتھ کاغذ
منصور آفاق

چل کے دو چار قدم دیکھتے ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 128
آپ ہیں دور کہ ہم دیکھتے ہیں
چل کے دو چار قدم دیکھتے ہیں
اپنی آواز پہ رحم آتا ہے
اس بلندی پہ ستم دیکھتے ہیں
ہم سفر کیسے کہ ہم مڑ مڑ کے
اپنے ہی نقش قدم دیکھتے ہیں
زلزلہ کوئی ادھر سے گزرا
تیری دیوار میں خم دیکھتے ہیں
قافلے شوق حرم سے گزرے
اوج پر بخت صنم دیکھتے ہیں
زندگی جنتی بلند اڑتی ہے
درد ہم اتنا ہی کم دیکھتے ہیں
جب کسی غم کا سوال آتا ہے
صورت اہل کرم دیکھتے ہیں
ریگ ساحل ہے مقدر اپنا
کیا ہر اک موج میں ہم دیکھتے ہیں
کتنا خوں اپنا جلا کر باقیؔ
صورت نان و درم دیکھتے ہیں
باقی صدیقی