ٹیگ کے محفوظات: صفات

انہیں ہنساکے رلانا بھی کوئ بات نہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 180
کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
انہیں ہنساکے رلانا بھی کوئ بات نہیں
کہاں سے لاکے دکھاۓ گی عمرِ کم مایہ
سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں
زبان حمد کی خوگر ہوئ تو کیا حاصل
کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں
خوشی، خوشی کو نہ کہہ، غم کو غم نہ جان اسدؔ
قرار داخلِ اجزاۓ کائنات نہیں
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا

دیوان دوم غزل 664
ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا
بکھری ہے زلف اس رخ عالم فروز پر
ورنہ بنائو ہووے نہ دن اور رات کا
در پردہ وہ ہی معنی مقوم نہ ہوں اگر
صورت نہ پکڑے کام فلک کے ثبات کا
ہیں مستحیل خاک سے اجزاے نوخطاں
کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا
مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ
عیسیٰ و خضر کو ہے مزہ کب وفات کا
اشجار ہوویں خامہ و آب سیہ بحار
لکھنا نہ تو بھی ہوسکے اس کی صفات کا
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
ہے دید چشم دل کے کھلے عین ذات کا
ہر صفحے میں ہے محو کلام اپنا دس جگہ
مصحف کو کھول دیکھ ٹک انداز بات کا
ہم مذنبوں میں صرف کرم سے ہے گفتگو
مذکور ذکر یاں نہیں صوم و صلوٰت کا
کیا میر تجھ کو نامہ سیاہی کا فکر ہے
ختم رسل سا شخص ہے ضامن نجات کا
میر تقی میر