ٹیگ کے محفوظات: صحبت

اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 46
روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد
میری حالت دیکھ لو تغئیر کتنی ہو چکی
وصل کے دن دم بہ دم کیوں شیشۂ ساعت کی یاد
میں ہوں بے کس اور بے کس پر ترحم ہے ضرور
حسنِ روز افزوں دلا دینا مری حالت کی یاد
طاقتِ جنبش نہیں اس حال پہ قصدِ عدم
مر گئے پر بھی رہے گی اپنی اس ہمت کی یاد
غالباً ایامِ حرماں بے خودی میں کٹ گئے
آتی ہے پھر آرزو بھولی ہوئی مدت کی یاد
دل لگانے کا ارادہ پھر ہے شائد شیفتہ
ایسی حسرت سے جو ہے گزری ہوئی الفت کی یاد
مصطفٰی خان شیفتہ

اور گذارا کب تک ہو گا کچھ اب ہم رخصت سے ہیں

دیوان پنجم غزل 1691
صبر کیا ہے برسوں ہم نے رات سے بے طاقت سے ہیں
اور گذارا کب تک ہو گا کچھ اب ہم رخصت سے ہیں
رسم لطف نہیں ہے مطلق شہر خوش محبوباں میں
دیکھے کم جو کرتے کسو پر ہم عاشق مدت سے ہیں
عشق کے دین اور مذہب میں مرجانا واجب آیا ہے
کوہکن و مجنون موئے اب ہم بھی اسی ملت سے ہیں
ملنا نفروں سے ان کا چھوٹا آکر میری صحبت میں
پھر متنفر بھی یہ بے تہ مجھ سے کی صحبت سے ہیں
فرصت ان کو کم ہے اگرچہ پر ملتے ہیں قابو پر
برسوں میر سے مل دیکھا ہے کچھ وے کم فرصت سے ہیں
میر تقی میر

یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب

دیوان پنجم غزل 1577
تاب عشق نہیں ہے دل کو جی بھی بے طاقت ہے اب
یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب
وصل میں کیا کیا صحبتیں رنگیں کس کس عیش میں دن گذرے
تنہا بیٹھ رہے ہیں یک سو ہجر میں یہ صحبت ہے اب
جب سے بناے صبح ہستی دو دم پر یاں ٹھہرائی
کیا کیا کریے اس مہلت میں کچھ بھی ہمیں فرصت ہے اب
چور اچکے سکّھ مرہٹے شاہ و گدا زرخواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر بھی اک دولت ہے اب
پائوں پہ سر رکھنے کی مجھ کو رخصت دی تھی میر ان نے
کیا پوچھو ہو سر پر میرے منت سی منت ہے اب
میر تقی میر

وے اندھیری مینھ برسے جوں کبھو شدت سے یاں

دیوان چہارم غزل 1459
ہجر میں روتا ہوں ہر شب میں تو اس صورت سے یاں
وے اندھیری مینھ برسے جوں کبھو شدت سے یاں
کس قدر بیگانہ خو ہیں مردمان شہرحسن
بات کرنا رسم و عادت ہی نہیں الفت سے یاں
اٹھ گئے ہیں جب سے ہم سونا پڑا ہے باغ سب
شور ہنگام سحر کا مہر ہے مدت سے یاں
سر کوئی پھوڑے محبت میں تو بارے اس طرح
مر گیا ہے عشق میں فرہاد جس قدرت سے یاں
دلکشی اس بزم کی ظاہر ہے تم دیکھو تو ہو
لوگ جی دیتے چلے جاتے ہیں کس حسرت سے یاں
صورتوں سے خاکداں یہ عالم تصویر ہے
بولیں کیا اہل نظر خاموش ہیں حیرت سے یاں
فہم حرفوں کے تنافر کا بھی یاروں کو نہیں
اس پہ رکھتے ہیں تنفر سب مری صحبت سے یاں
پنج روزہ عمر کریے عاشقی یا زاہدی
کام کچھ چلتا نہیں اس تھوڑی سی مہلت سے یاں
کیا سرجنگ و جدل ہو بے دماغ عشق کو
صلح کی ہے میر نے ہفتاد و دو ملت سے یاں
میر تقی میر

کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج

دیوان چہارم غزل 1368
حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج
کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج
سامنے ہے وہ آئینہ پر آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
دل تنگی سے رکے ہے دم کیا کہیے صورت کیا ہے آج
فرق و تیغ جٹے رہتے ہیں جب سے دل کی لاگ لگی
اس ظالم بے رحم کی میری ایسی صحبت کیا ہے آج
شیشہ صراحی ساغر و مینا سب کل تک بھی حاضر تھے
کوے بادہ فروشاں میں یہ میری حرمت کیا ہے آج
میر کھڑے اک ساعت ہی میں غش تم کرنے لگتے ہو
تاب نہیں کیا ضعف ہے دل میں جی بے طاقت کیا ہے آج
میر تقی میر

دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت

دیوان چہارم غزل 1362
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت
دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت
کم نہیں دیوانہ ہونا بھی ہمارا دفعتہ
ڈریے ہوجاوے خردور کی جو پلٹے مت بہت
گریہ و زاری سے روز وشب کی شکوے کچھ نہیں
مجھ کو رونا یہ ہے جی کو اس سے ہے الفت بہت
کیا وداع اس یار کے کوچے سے ہم مشکل ہوئے
زار باراں لوگ روتے تھے دم رخصت بہت
بعد مرگ آنکھیں کھلی رہنے سے یہ جانا گیا
دیکھنے کی اس کے میرے جی میں تھی حسرت بہت
سن کے ضائع روزگاری اس کی جی لایا نہ تاب
آپ کو کر بیٹھے ضائع ہم کو تھی غیرت بہت
آنکھیں جاتی ہیں مندی ضعف دلی سے دم بہ دم
ان دنوں ان کو بھی ایدھر ہی سے ہے غفلت بہت
دل گئے پر آج کل سے چپ نہیں مجھ کو لگی
گذری اس بھی بات کو اے ہم نفس مدت بہت
دل میں جا کرتا ہے طورمیر شاید دوستاں
ان نے صاحب دل کسو سے رکھی ہے صحبت بہت
میر تقی میر

یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے

دیوان سوم غزل 1288
ہے تماشا حسن و خط حیرت بھی ہے
یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے
تا دم آخر نہیں بولے ہیں ہم
کچھ کہیں گے بارے اب رخصت بھی ہے
ہے وہ فتنہ ہم حریف و ہم ظریف
مار ہے گالی ہے پھر منت بھی ہے
تیغ نے اس کی ہمیں قسمت کیا
خوش نصیبی ہے تو پر قسمت بھی ہے
وا نسیم صبح سے ہوتا ہے گل
تجھ کو اے مرغ چمن غیرت بھی ہے
جی ہی دینے کا نہیں کڑھنا فقط
اس کے در سے جانے کی حسرت بھی ہے
دور سے باتیں کرے ہے یوں ہی یار
میر صاحب سے انھیں صحبت بھی ہے
میر تقی میر

دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی

دیوان سوم غزل 1255
کیسے نحس دنوں میں یارب میں نے اس سے محبت کی
دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی
میں تو سرو و شاخ گل کی قطع ہی کا دیوانہ تھا
یار نے قد قامت دکھلاکر سر پر میرے قیامت کی
قسمت میں جو کچھ کہ بدا ہو دیتے ہیں وہ ہی انساں کو
غم غصہ ہی ہم کو ملا ہے خوبی اپنی قسمت کی
خلوت یار ہے عالم عالم ایک نہیں ہے ہم کو بار
در پر جاکر پھر آتے ہیں خوب ہماری عزت کی
اک گردن سے سو حق باندھے کیا کیا کریے ہوں جو ادا
مدت اس پر ایک نفس جوں صبح ہماری فرصت کی
شیوہ اس کا قہر و غضب ہے ناز و خشم و ستم وے سب
کوئی نگاہ لطف اگر کی ان نے ہم سے مروت کی
بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی
جب کہ فقیری کے اوپر میں خرچ بڑی سی دولت کی
ناز و خشم کا رتبہ کیسا ہٹ کس اعلیٰ درجے میں
بات ہماری ایک نہ مانی برسوں ہم نے منت کی
دکھن پورب پچھم سے لوگ آکر مجھ کو دیکھیں ہیں
حیف کہ پروا تم کو نہیں ہے مطلق میری صحبت کی
دوستی یاری الفت باہم عہد میں اس کے رسم نہیں
یہ جانے ہیں مہر و وفا اک بات ہے گویا مدت کی
آب حسرت آنکھوں میں اس کی نومیدانہ پھرتا تھا
میر نے شاید خواہش دل کی آج کوئی پھر رخصت کی
میر تقی میر

مریں بھی ہم تو نہ دیکھیں مروت ان کو نہیں

دیوان سوم غزل 1180
کہاں کے لوگ ہیں خوباں محبت ان کو نہیں
مریں بھی ہم تو نہ دیکھیں مروت ان کو نہیں
خراب و خوار ہے سلطاں شکستہ حال امیر
کسو فقیر سے شاید کہ صحبت ان کو نہیں
ہمارے دیدہ و دل سے ہی ہم پہ کام ہے تنگ
کہ رونے کڑھنے سے یک لحظہ فرصت ان کو نہیں
پری و سرو کو دعویٰ ہے اس رخ و قد سے
شکایت اس سے نہیں آدمیت ان کو نہیں
چلا ہے تیغ بکف یار غیر کی جانب
ہوئے ہیں میر تماشائی غیرت ان کو نہیں
میر تقی میر

آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی

دیوان دوم غزل 958
عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی
آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی
عکس اس بے دید کا تو متصل پڑتا تھا صبح
دن چڑھے کیا جانوں آئینے کی کیا صورت ہوئی
لوح سینہ پر مری سو نیزئہ خطی لگے
خستگی اس دل شکستہ کی اسی بابت ہوئی
کھولتے ہی آنکھیں پھر یاں موندنی ہم کو پڑیں
دید کیا کوئی کرے وہ کس قدر مہلت ہوئی
پائوں میرا کلبۂ احزاں میں اب رہتا نہیں
رفتہ رفتہ اس طرف جانے کی مجھ کو لت ہوئی
مر گیا آوارہ ہوکر میں تو جیسے گردباد
پر جسے یہ واقعہ پہنچا اسے وحشت ہوئی
شاد و خوش طالع کوئی ہو گا کسو کو چاہ کر
میں تو کلفت میں رہا جب سے مجھے الفت ہوئی
دل کا جانا آج کل تازہ ہوا ہو تو کہوں
گذرے اس بھی سانحے کو ہم نشیں مدت ہوئی
شوق دل ہم ناتوانوں کا لکھا جاتا ہے کب
اب تلک آپھی پہنچنے کی اگر طاقت ہوئی
کیا کف دست ایک میداں تھا بیاباں عشق کا
جان سے جب اس میں گذرے تب ہمیں راحت ہوئی
یوں تو ہم عاجزترین خلق عالم ہیں ولے
دیکھیو قدرت خدا کی گر ہمیں قدرت ہوئی
گوش زد چٹ پٹ ہی مرنا عشق میں اپنے ہوا
کس کو اس بیماری جانکاہ سے فرصت ہوئی
بے زباں جو کہتے ہیں مجھ کو سو چپ رہ جائیں گے
معرکے میں حشر کے گر بات کی رخصت ہوئی
ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل
چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی
اس غزل پر شام سے تو صوفیوں کو وجد تھا
پھر نہیں معلوم کچھ مجلس کی کیا حالت ہوئی
کم کسو کو میر کی میت کی ہاتھ آئی نماز
نعش پر اس بے سر و پا کی بلا کثرت ہوئی
میر تقی میر

اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی

دیوان دوم غزل 957
وہ رابطہ نہیں وہ محبت نہیں رہی
اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی
دیکھا تو مثل اشک نظر سے گرا دیا
اب میری اس کی آنکھ میں عزت نہیں رہی
رندھنے سے جی کے کس کو رہا ہے دماغ حرف
دم لینے کی بھی ہم کو تو فرصت نہیں رہی
تھی تاب جی میں جب تئیں رنج و تعب کھنچے
وہ جسم اب نہیں ہے وہ قدرت نہیں رہی
منعم امل کا طول یہ کس جینے کے لیے
جتنی گئی اب اتنی تو مدت نہیں رہی
دیوانگی سے اپنی ہے اب ساری بات خبط
افراط اشتیاق سے وہ مت نہیں رہی
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
میر تقی میر

کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں

دیوان دوم غزل 876
رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں
کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں
سنبھالے سدھ کہاں سر ہی فرو لاتا نہیں ہرگز
وگرنہ مان جاتا تھا کہاں تھوڑی سی منت میں
گئے دن متصل جانے کے اس کی اور اٹھ اٹھ کر
تفاوت ہو گیا اب تو بہت پائوں کی طاقت میں
تحمل ہوسکا جب تک بدن میں تاب و طاقت تھی
قیامت اب گذر جاتی ہے جی پر ایک ساعت میں
عجب کیا ہے جو یاران چمن کو ہم نہ پہچانیں
رہائی اتفاق اپنی پڑی ہے ایک مدت میں
سلاتا تیغ خوں میں گر نہ میرے تو قیامت تھی
اٹھا تھا روز محشر کا سا فتنہ رات صحبت میں
کوئی عمامہ لے بھاگا کنھوں نے پیرہن پھاڑا
بہت گستاخیاں یاروں نے کیں واعظ کی خدمت میں
ملا تیوری چڑھائے تو لگا ابرو بھی خم کرنے
موثر کچھ ہوا سر مارنا محراب طاعت میں
قدم پر رکھ قدم اس کے بہت مشکل ہے مر جانا
سرآمد ہو گیا ہے میر فن مہر و الفت میں
میر تقی میر

سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد

دیوان دوم غزل 801
بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد
سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد
جدائی کے حالات میں کیا کہوں
قیامت تھی ایک ایک ساعت کے بعد
موا کوہکن بے ستوں کھود کر
یہ راحت ہوئی ایسی محنت کے بعد
لگا آگ پانی کو دوڑے ہے تو
یہ گرمی تری اس شرارت کے بعد
کہے کو ہمارے کب ان نے سنا
کوئی بات مانی سو منت کے بعد
سخن کی نہ تکلیف ہم سے کرو
لہو ٹپکے ہے اب شکایت کے بعد
نظر میر نے کیسی حسرت سے کی
بہت روئے ہم اس کی رخصت کے بعد
میر تقی میر

اٹھے ہے فتنہ ہر اک شوخ تر قیامت سے

دیوان اول غزل 570
جہاں میں روز ہے آشوب اس کی قامت سے
اٹھے ہے فتنہ ہر اک شوخ تر قیامت سے
موا ہوں ہو کے دل افسردہ رنج کلفت سے
اگے ہے سبزئہ پژمردہ میری تربت سے
جہاں ملے تہاں کافر ہی ہونا پڑتا ہے
خدا پناہ میں رکھے بتوں کی صحبت سے
تسلی ان نے نہ کی ایک دو سخن سے کبھو
جو کوئی بات کہی بھی تو آدھی لکنت سے
پلک کے مارتے ہم تو نظر نہیں آتے
سخن کرو ہو عبث تم ہماری فرصت سے
امیرزادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھیں کی دولت سے
یہ جہل دیکھ کہ ان سمجھے میں اٹھا لایا
گراں وہ بار جو تھا بیش اپنی طاقت سے
رہا نہ ہو گا بخود صانع ازل بھی تب
بنایا ہو گا جب اس منھ کو دست قدرت سے
وہ آنکھیں پھیرے ہی لیتا ہے دیکھتے کیا ہو
معاملت ہے ہمیں دل کی بے مروت سے
جو سوچے ٹک تو وہ مطلوب ہم ہی نکلے میر
خراب پھرتے تھے جس کی طلب میں مدت سے
میر تقی میر

رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا

دیوان اول غزل 122
غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا
رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا
زمیں اک صفحۂ تصویر بیہوشاں سے مانا ہے
یہ مجلس جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا
جہاں جلوے سے اس محبوب کے یکسر لبالب ہے
نظر پیدا کر اول پھر تماشا دیکھ قدرت کا
ہنوز آوارئہ لیلیٰ ہے جان رفتہ مجنوں کی
موئے پر بھی رہا ہوتا نہیں وابستہ الفت کا
حریف بے جگر ہے صبر ورنہ کل کی صحبت میں
نیاز و ناز کا جھگڑا گرو تھا ایک جرأت کا
نگاہ یاس بھی اس صید افگن پر غنیمت ہے
نہایت تنگ ہے اے صید بسمل وقت فرصت کا
خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا
کہ آبادی بھی یاں تھی یا کہ ویرانہ تھا مدت کا
نگاہ مست نے اس کی لٹائی خانقہ ساری
پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زہد و طاعت کا
قدم ٹک دیکھ کر رکھ میر سر دل سے نکالے گا
پلک سے شوخ تر کانٹا ہے صحراے محبت کا
میر تقی میر

نکال لایا ہے حرص و ہواکی صحبت سے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 534
فقیر اپنا ستارہ خدا کی رحمت سے
نکال لایا ہے حرص و ہواکی صحبت سے
ثباتِذات کا اثبات کرلیا لیکن
گریزپا ہوں نفی سے فنا کی چاہت سے
مری گلی سے سویرے گزارنے والو
میں زخم زخم ہوں بادِ صبا کی نکہت سے
دکھائی دیتا ہے طوفان کوئی آیا ہوا
کواڑ ٹوٹ نہ جائیں ہوا کی وحشت سے
خدا نہیں ہے کہ اس کا شریک کوئی نہ ہو
اسے بھی چاہوں تمہیں بھی بلا کی شدت سے
کچھ اور ہوتے روشن ستم کی راہوں میں
دئیے،مصیبتِ بے انتہا کی ظلمت سے
بڑے وقار سے ٹکرا رہے ہیں پھرمنصور
ضمیر وقت کے، فرماروا کی قوت سے
منصور آفاق