ٹیگ کے محفوظات: شیشم

افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 608
قاتل بھی شریکِ صفِ ماتم ہے عجب ہے
افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے
بہتے ہیں کئی طرح کے افسوس نظر سے
یہ آنکھ بھی دریاؤں کا سنگم ہے عجب ہے
پھولوں کے مراسم ہیں کہیں آتشیں لب سے
شعلوں کی مصاحب کہیں شبنم ہے عجب ہے
کل تک وہی شداد تھا نمرود تھا لیکن
اب وہی مسیحاوہی گوتم ہے عجب ہے
منظر ہے وہی لوگ مگر اور کوئی ہیں
دیکھو وہی دریا وہی شیشم ہے عجب ہے
وہ جس نے نکالا تھا بہشت آباد سے ہم کو
خوابوں میں وہی دانہ ء گندم ہے عجب ہے
ہم ڈھونڈتے نکلے تھے جسے عرشِ بریں پر
گلیوں میں وہی حسنِ مجسم ہے عجب ہے
منصور مجھے چھوڑا ہے اک شخص نے لیکن
ہر آنکھ میں انکار کا موسم ہے عجب ہے
منصور آفاق

کچھ تو کہیے آپ کے ہم کیا ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 505
محرم دل، غیر محرم کیا ہوئے
کچھ تو کہیے آپ کے ہم کیا ہوئے
کیا ہوئے وہ بانسری کے نرم سُر
وہ کنارِ آب شیشم کیا ہوئے
کس گلی میں رک گیا سچ کا جلوس
سرپھروں کے اونچے پرچم کیا ہوئے
رک گیا دل ، تھم گئی نبضِ حیات
وقت کے سنگیت مدہم کیا ہوئے
گاؤں کے چھتنار پیڑوں کے تلے
وہ جوتھے سوچوں کے سنگم کیا ہوئے
خوبرو تھی جو محبت کیا ہوئی
وہ ہمارے دلرباغم کیا ہوئے
کیا ہوا آہنگ بہتی نظم کا
لفظ جو ہوتے تھے محکم کیا ہوئے
سنگ باری کی رتیں کیوں آگئیں
قربتوں کے سرخ ریشم کیا ہوئے
کیا ہوئی منصوررنگوں کی بہار
شوخ دوپٹوں کے موسم کیا ہوئے
منصور آفاق

اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 495
بانسری بانس کے جنگل سے سنوں غم کی یونہی
اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی
کوئی امکان بظاہر تو بچھڑنے کا نہیں
یاد آئی ہے مجھے ہجر کے موسم کی یونہی
دشت کی دھوپ کوئی چیز نہیں میرے غزال
گفتگو تجھ سے ہوئی سایہ ء شیشم کی یونہی
میں نے جانا نہیں برفاب تہوں میں اس کی
بات سنتا ہوں میں بہتے ہوئے جہلم کی یونہی
برف گرتی ہے تو آتی ہے نظر خوابوں میں
اک پری زاد مجھے وادی ء نیلم کی یونہی
صبر کرتا رہا قربان حسین ابن علی
ظلم کہتا رہا حرمت ہے محرم کی یونہی
مجھ کو معلوم نہیں کون کہاں روتا ہے
بات کی سبزہ پہ بکھری ہوئی شبنم کی یونہی
اک موبائل سے بنا لینے دو تصویر مجھے
پہنے رکھو ذرا پوشاک یہ ریشم کی یونہی
ذکر ہوتا رہے لیلائے وطن کا منصور
آگ جلتی رہے بس نوحۂ ماتم کی یونہی
منصور آفاق