ٹیگ کے محفوظات: شکن

روزن سے میرے آتی کوئی بھی کرن نہیں

جاتی اندھیر پن کی یہاں سے گھٹن نہیں
روزن سے میرے آتی کوئی بھی کرن نہیں
دِن بھر کی شورشوں کے دباؤ کے شور سے
شب کے لِباسِ حبس میں کوئی شکن نہیں
کیوں روشنی گروں کی زبانیں ہیں سوختہ
کیوں لوَ کسی چراغ کی بھی سینہ زن نہیں
اندھے خلا کی کھائی میں گرتا ہی جاؤں میَں
پیروں تلے زمیں نہیں سر پر گگن نہیں
اک نغمہ خامشی کا بنی جائے زندگی
اک رقص ہے کہ جس میں کوئی چھن چھنن نہیں
یاوؔر ہی بس ہے عاجز و ناچیز و خاکسار
ورنہ یہاں پہ کون خدائے سُخن نہیں
یاور ماجد

تُو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا

اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا
تُو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا
وہ سراپا ترا وہ ترے خال و خد میری یادوں میں سب منتشر ہو گئے
لفظ کی جستجو میں لرزتا ہوا نیم وا غنچہ سا اک دہن رہ گیا
حرف کے حرف سے کیا تضادات ہیں تُو نے بھی کچھ کہا میں نے بھی کچھ کہا
تیرے پہلو میں دنیا سمٹتی گئی میرے حصے میں حرفِ سخن رہ گیا
تیرے جانے سے مجھ پر یہ عقدہ کھلا رنگ و خوشبو تو بس تیری میراث تھے
ایک حسرت سجی رہ گئی گُل بہ گُل ایک ماتم چمن در چمن رہ گیا
ایک بے نام خواہش کی پاداش میں تیری پلکیں بھی باہم پرو دی گئیں
ایک وحشت کو سیراب کرتے ہوئے میں بھی آنکھوں میں لے کر تھکن رہ گیا
عرصۂ خواب سے وقتِ موجود کے راستے میں گنوا دی گئی گفتگو
ایک اصرار کی بے بسی رہ گئی ایک انکار کا بانکپن رہ گیا
تُو ستاروں کو اپنے جلو میں لیے جا رہا تھا تجھے کیا خبر کیا ہوا
اک تمنا دریچے میں بیٹھی رہی ایک بستر کہیں بے شکن رہ گیا
عرفان ستار

غُربَت نَصیب خوابِ وَطَن دیکھتے رَہے

ہَم اِفتراقِ رُوح و بَدَن دیکھتے رَہے
غُربَت نَصیب خوابِ وَطَن دیکھتے رَہے
کیسے ہُوئے شَریکِ بَہاراں نہ پُوچھیے
ہَم رَوزَنِ قَفَس سے چَمَن دیکھتے رَہے
کِس کو بھَلا تھی جُراتِ اعلانِ حَرفِ حَق
حَسرَت سے سَب کو دار و رَسَن دیکھتے رَہے
تَرکِ تَعَلُّقات کا مَنظَر عَجیب تھا
چیِنِ جبیِنِ وعدہ شکَن دیکھتے رَہے
کُہرامِ آگَہی تھا ہر اِک سُو خزاں بَدوش
جہلِ خِرَد کے سَرو و سَمَن دیکھتے رَہے
دادِ سُخَن میں اُن کے کِسی کو نہ ہوش تھا
اِک ہَم ہی تھے جو رُوئے سُخَن دیکھتے رَہے
ضامنؔ! شِگُفتِ عالَمِ تَنہائی کیا کَہیَں !
ہَر گام ایک نَقشِ کُہَن دیکھتے رَہے
ضامن جعفری

طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
کلی کلی کو لپک جس کے بانکپن کی ہے
طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے
ہزار بھنوروں سا اُس کا کریں احاطہ ہم
بدن میں اُس کے بھی خُو بُو بھرے چمن کی ہے
مقامِ شکر ہے وجدان مطمئن ہے مرا
یہی بہا، یہی قیمت مرے سخن کی ہے
ہر اک نظر پہ عیاں ہو بقدرِ حَظ طلبی
تمہیں یہ قید سی کاہے کو پیرہن کی ہے
کھُلی ہے دعوتِ نظارۂِ جمال یہاں
زباں دراز قباؤں کی ہر شکن کی ہے
ترا سلوک تو ماجدؔ بجا ہے جو کُچھ ہے
اُسے بھی جانچ کہ نیّت جو انجمن کی ہے
ماجد صدیقی

تُو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 20
اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا
تُو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا
وہ سراپا ترا وہ ترے خال و خد میری یادوں میں سب منتشر ہو گئے
لفظ کی جستجو میں لرزتا ہوا نیم وا غنچہ سا اک دہن رہ گیا
حرف کے حرف سے کیا تضادات ہیں تُو نے بھی کچھ کہا میں نے بھی کچھ کہا
تیرے پہلو میں دنیا سمٹتی گئی میرے حصے میں حرفِ سخن رہ گیا
تیرے جانے سے مجھ پر یہ عقدہ کھلا رنگ و خوشبو تو بس تیری میراث تھے
ایک حسرت سجی رہ گئی گُل بہ گُل ایک ماتم چمن در چمن رہ گیا
ایک بے نام خواہش کی پاداش میں تیری پلکیں بھی باہم پرو دی گئیں
ایک وحشت کو سیراب کرتے ہوئے میں بھی آنکھوں میں لے کر تھکن رہ گیا
عرصۂ خواب سے وقتِ موجود کے راستے میں گنوا دی گئی گفتگو
ایک اصرار کی بے بسی رہ گئی ایک انکار کا بانکپن رہ گیا
تُو ستاروں کو اپنے جلو میں لیے جا رہا تھا تجھے کیا خبر کیا ہوا
اک تمنا دریچے میں بیٹھی رہی ایک بستر کہیں بے شکن رہ گیا
عرفان ستار

رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 42
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو
پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو
موجہ ءِ گُل کو ابھی اِذنِ تکلم نہ ملے
پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو
قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ
مہربان جب سے ہے اُس سرد بدن کی خوشبو
ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُو بہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو
عارضِ گُل کو چُھوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو
کِس نے زنجیر کیا ہے رمِ آہو چشماں
نکہتِ جاں ہے انہیں دشت و دمن کی خوشبو
اِس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے
صحنِ زنداں میں انہیں دشت وطن کی خوشبو
پروین شاکر

بارشوں کی ہوا میں بن کی طرح

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 34
رقص میں رات ہے بدن کی طرح
بارشوں کی ہوا میں بن کی طرح
چاند بھی میری کروٹوں کا گواہ
میرے بستر کی ہر شکن کی طرح
چاک ہے دامن قبائےِ بہار
میرے خوابوں کے پیرہن کی طرح
زندگی، تجھ سے دور رہ کر، میں
کاٹ لوں گی جلا وطن کی طرح
مجھ کو تسلیم، میرے چاند کہ میں
تیرے ہمراہ ہوں گہن کی طرح
بار ہا تیرا انتظار کیا
اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح
پروین شاکر

اب یہ ستم تازہ ہے ہم پر قید کیا ہے چمن کے بیچ

دیوان پنجم غزل 1594
فصل گل میں اسیر ہوئے تھے من ہی کی رہی من کے بیچ
اب یہ ستم تازہ ہے ہم پر قید کیا ہے چمن کے بیچ
یہ الجھائو سلجھتا ہم کو دے ہے دکھائی مشکل سا
یعنی دل اٹکا ہے جاکر ان بالوں کے شکن کے بیچ
وہ کرتا ہے جب زباں درازی حیرت سے ہم چپکے ہیں
کچھ بولا نہیں جاتا یعنی اس کے حرف و سخن کے بیچ
دشت بلا میں جاکر مریے اپنے نصیب جو سیدھے ہوں
واں کی خاک عنبر کی جاگہ رکھ دیں لوگ کفن کے بیچ
کبک کی جان مسافر ہووے دیکھے خرام ناز اس کا
نام نہیں لیتا ہے کوئی اس کا میرے وطن کے بیچ
کیا شیریں ہے حرف و حکایت حسرت ہم کو آتی ہے
ہائے زبان اپنی بھی ہووے یک دم اس کے دہن کے بیچ
غم و اندوہ عشقی سے ہر لحظہ نکلتی رہتی ہے
جان غلط کر میر آئی ہے گویا تیرے بدن کے بیچ
میر تقی میر

اس میں بھی جو سوچیے سخن ہے

دیوان دوم غزل 1039
کیا کہیے کلی سا وہ دہن ہے
اس میں بھی جو سوچیے سخن ہے
اس گل کو لگے ہے شاخ گل کب
یہ شاخچہ بندی چمن ہے
وابستگی مجھ سے شیشہ جاں کی
اس سنگ سے ہے کہ دل شکن ہے
کیا سہل گذرتی ہے جنوں سے
تحفہ ہم لوگوں کا چلن ہے
لطف اس کے بدن کا کچھ نہ پوچھو
کیا جانیے جان ہے کہ تن ہے
وے بند قبا کھلے تھے شاید
صد چاک گلوں کا پیرہن ہے
گہ دیر میں ہیں گہے حرم میں
اپنا تو یہی دوانہ پن ہے
ہم کشتۂ عشق ہیں ہمارا
میدان کی خاک ہی کفن ہے
کر میر کے حال پر ترحم
وہ شہر غریب و بے وطن ہے
میر تقی میر

تم بھی تو دیکھو زلف شکن در شکن کے بیچ

دیوان دوم غزل 790
دل کھو گیا ہوں میں یہیں دیوانہ پن کے بیچ
تم بھی تو دیکھو زلف شکن در شکن کے بیچ
کیا جانے دل میں چائو تھے کیا کیا دم وصال
مہجور اس کا تھا ہمہ حسرت کفن کے بیچ
کنعاں سے جا کے مصر میں یوسفؑ ہوا عزیز
عزت کسو کی ہوتی نہیں ہے وطن کے بیچ
سن اے جنوں کہ مجھ میں نہیں کچھ سواے دم
تار ایک رہ گیا ہے یہی پیرہن کے بیچ
سرسبز ہند ہی میں نہیں کچھ یہ ریختہ
ہے دھوم میرے شعر کی سارے دکھن کے بیچ
ستھرائی اور نازکی گلبرگ کی درست
پر ویسی بو کہاں کہ جو ہے اس بدن کے بیچ
بلبل خموش و لالہ و گل دونوں سرخ و زرد
شمشاد محو بے کلی اک نسترن کے بیچ
کل ہم بھی سیر باغ میں تھے ساتھ یار کے
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے چمن کے بیچ
یا ساتھ غیر کے ہے تمھیں ویسی بات چیت
سو سو طرح کے لطف ہیں اک اک سخن کے بیچ
یا پاس میرے لگتی ہے چپ ایسی آن کر
گویا زباں نہیں ہے تمھاری دہن کے بیچ
فرہاد و قیس و میر یہ آوارگان عشق
یوں ہی گئے ہیں سب کی رہی من کی من کے بیچ
میر تقی میر

ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 14
جب اک چراغِ راہگزر کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
شاخِ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہیں
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمانِ چمن پڑے
تنہا گلی، ترے مرے قدموں کی چاپ، رات
ہرسو وہ خامشی کہ نہ تابِ سخن پڑے
یہ کس حسیں دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی
ہر موجۂ خیال پہ صدہا شکن پڑے
جب دل کی سل پہ بج اٹھے نیندوں کا آبشار
نادیدہ پائلوں کی جھنک جھن جھنن پڑے
یہ چاندنی، یہ بھولی ہوئی چاہتوں کا دیس
گزروں تو رخ پہ رشحۂ عطرِ سمن پڑے
یہ کون ہے لبوں میں رسیلی رُتیں گھلیں
پلکوں کی اوٹ نیند میں گلگوں گگن پڑے
اک پل بھی کوئے دل میں نہ ٹھہرا وہ رہ نورد
اب جس کے نقشِ پا ہیں چمن در چمن پڑے
اِک جست اس طرف بھی غزالِ زمانہ رقص
رہ تیری دیکھتے ہیں خطا و ختن پڑے
جب انجمن تموّجِ صد گفتگو میں ہو
میری طرف بھی اک نگہِ کم سخن پڑے
صحرائے زندگی میں جدھر بھی قدم اٹھیں
رستے میں ایک آرزوؤں کا چمن پڑے
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
اے شاطرِ ازل ترے ہاتھوں کو چوم لوں
قرعے میں میرے نام جو دیوانہ پن پڑے
اے صبحِ دیرخیز انہیں آواز دے جو ہیں
اک شامِ زودخواب کے سکھ میں مگن پڑے
اک تم کہ مرگِ دل کے مسائل میں جی گئے
اک ہم کہ ہیں بہ کشمکشِ جان و تن پڑے
امجد طریقِ مے میں ہے یہ احتیاط شرط
اک داغ بھی کہیں نہ سرِ پیرہن پڑے
مجید امجد