ٹیگ کے محفوظات: شناس

تسکیں کو دے نوید@ کہ مرنے کی آس ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 248
سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید@ کہ مرنے کی آس ہے
لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے
کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے
ہے وہ غرورِ حسن سے بیگانۂ وفا
ہرچند اس کے پاس دلِ حق شناس ہے
پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
@ نسخۂ عرشی میں یوں ہے: ’تسکین کو نوید‘۔ اصل نظامی اور دوسرے نسخوں میں اسی طرح ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں

دیوان سوم غزل 1178
جمع ہوتے نہیں حواس کہیں
جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں
دل کی دو اشک سے نہ نکلی بھڑاس
اوسوں بجھتی نہیں ہے پیاس کہیں
بائو خوشبو ہے آئی ہے واں سے
کوئی چھپتی ہے گل کی باس کہیں
اس جنوں میں کہیں ہے سر پر خاک
ٹکڑے ہو کر گرا لباس کہیں
گرد سر یار کے پھریں پہروں
ہم جو ہوں اس کے آس پاس کہیں
سب جگہ لوگ حق و ناحق پر
نہ ملا حیف حق شناس کہیں
ہر طرف ہیں امیدوار یار
اس سے کوئی نہیں نراس کہیں
عشق کا محو دشت شیریں ہوں
جان کا بھی نہیں ہراس کہیں
عرش تک تو خیال پہنچے میر
وہم پھر ہے کہیں قیاس کہیں
میر تقی میر

یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس

دیوان دوم غزل 824
رہتے تھے ہم وے آٹھ پہر یا تو پاس پاس
یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس
تا لوگ بدگماں نہ ہوں آئے نہ اس کی اور
ہم تو کیا ہے عشق میں دور از قیاس پاس
گر ہی پڑے جو دیکھے ہے تنکا بھی گر کہیں
مایہ نہیں ہے کچھ فلک بے سپاس پاس
شیخ ان لبوں کے بوسے کو اس ریش سے نہ جھک
رکھتا ہے کون آتش سو زندہ گھاس پاس
تم نے تو قدر کی ہے متاع وفا کی خوب
بیچیں گے اب یہ جنس کسو دل شناس پاس
آلودہ کر نہ مستی سے جامے کو جسم کے
ہشیار رہ یہ عاریتی ہے لباس پاس
وحشی ہے میر ربط ہے اس سے خلاف عقل
بیٹھے سو جا کے کیا کوئی ایسے اداس پاس
میر تقی میر

یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 49
یا پھونک سے چراغ، بجھا دے حواس کا
یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا
دم گھُٹ گیا ہے لمسِ لطافت سے اے خدا
اعلان کر ہواؤں میں مٹی کی باس کا
ہر آب جُو پہ ریت کا پہرہ لگا ہوا
یہ زندگی ہے یا کوئی صحرا ہے پیاس کا
جب دے سکا نہ کوئی گواہی سرِ صلیب
جرمانہ شہر پر ہوا خوف و ہراس کا
گھر کے سکوت نے تو ڈرایا بہت مگر
وجہِ سکوں تھا شور میرے آس پاس کا
ہر دستِ پُر فسوں ، یدِ بیضا دکھائی دے
اے روشنی پرست! یہ منظر ہے یاس کا
دستک ہر اک مکان پہ دنیا پڑی مجھے
مقصود تھا سراغ مرے غم شناس کا
آفتاب اقبال شمیم

تمہارے ہوتے ہوئے ہم اُداس کیسے ہوئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 255
نہ جانے اِتنے وفا ناشناس کیسے ہوئے
تمہارے ہوتے ہوئے ہم اُداس کیسے ہوئے
جو خواب میں نظر آتے تو چونک جاتا تھا
وہ حادثے مری آنکھوں کو راس کیسے ہوئے
دِلوں میں اَب وہ پُرانی کدورتیں بھی نہیں
یہ سایہ دار شجر بے لباس کیسے ہوئے
یہ نرم لہجہ تمہارا چلن نہ تھا عرفانؔ
تم آج ایسے زمانہ شناس کیسے ہوئے
عرفان صدیقی

کہ آپ چل کے کنواں آئے پاس ایسا ہو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 232
یہ لب سمیٹ لیں صحرا کی پیاس ایسا ہو
کہ آپ چل کے کنواں آئے پاس ایسا ہو
کری گلاس میں ڈالے پلیٹ میں پانی
میں چاہتا ہوں کہ وہ بدحواس ایسا ہو
تمام رات رہے مال روڈ پر بجلی
تمام رات یہ چیرنگ کراس ایسا ہو
مری گلی میں شعاعوں کی بھیڑ لگ جائے
اُس آئینے سے کوئی انعکاس ایسا ہو
وہ خوش خرام بدن نرم گرم جیسا ہے
مرے بدن کا بھی کوئی لباس ایسا ہو
ملال سسکیاں گلیوں میں بھرتے پھرتے ہوں
یہ شہر ہجر میں تیرے اداس ایسا ہو
کوئی بھی راستہ پاؤں کی دسترس میں نہ ہو
ہرایک راہ میں اگ آئے گھاس ایسا ہو
جو دیکھ سکتا ہومنظر نہیں پسِ منظر
کوئی تو شہر میں چہرہ شناس ایسا ہو
وہ بار بار پڑھے رات دن جسے منصور
کتابِ دل کا کوئی اقتباس ایسا ہو
منصور آفاق

تیرا فیضان بے قیاس ملا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 38
جب مجھے حسنِ التماس ملا
تیرا فیضان بے قیاس ملا
گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے
شیلف سے کیا ابو نواس ملا
جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا
تیرے قدموں کے آس پاس ملا
تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی
جب کہیں کوئی بھی اداس ملا
تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے
بس وہی مرتبہ شناس ملا
یوں بدن میں سلام لہرایا
جیسے کوثر کا اک گلاس ملا
تیری کملی کی روشنائی سے
زندگی کو حسیں لباس ملا
ابنِ عربی کی بزم میں منصور
کیوں مجھے احترامِ خاص ملا
منصور آفاق