ٹیگ کے محفوظات: شمائل

مفت میں مشہور میں لوگوں میں عامل ہو گیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 36
وہ پری وش عشق کے افسوں سے مائل ہو گیا
مفت میں مشہور میں لوگوں میں عامل ہو گیا
میں نہیں فرہاد، وہ خسرو نہیں، پھر کیا سبب؟
غیر کا مائل جو وہ شیریں شمائل ہو گیا
اشک باری ہم کناری کی ہوس میں رات تھی
قلزمِ گریہ کو اس کا دھیان ساحل ہو گیا
زخم میرے خنجرِ خوں ریز تھے اغیار کو
بے وفائی سے خجل کس وقت قاتل ہو گیا
اہلِ وحشت کو مری شورش سے لازم ہے خطر
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں کے مقابل ہو گیا
رشکِ خسرو بے تصرف، نازِ شیریں بے اثر
سینۂ فرہاد مثلِ بے ستوں، سِل ہو گیا
ہے خراشِ ناخنِ غم میں بھی کیا بالیدگی
جو ہلالِ غرہ تھا، سو ماہِ کامل ہو گیا
عید کے دن ذبح کرنا اور بھی اچھا ہوا
حلقۂ اسلام میں وہ شوخ داخل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی یہ ہلچل پڑ گئی بس بزم میں
طورِ روزِ حشر سب کو طورِ محفل ہو گیا
ہوش تو دیکھو کہ سن کر میری وحشت کی خبر
چھوڑ کر دیوانہ پن کو قیس عاقل ہو گیا
ہاتھ اٹھایا اس نے قتلِ بے گنہ سے میرے بعد
طالع اغیار سے جلاد عادل ہو گیا
حسن کے اعجاز نے تیرے مٹایا کفر کو
تیرے آگے نقشِ مانی، نقشِ باطل ہو گیا
میرے مرتے دم جو رویا وہ بڑی تسخیر تھی
آبِ چشمِ یار آبِ چاہِ بابل ہو گیا
ہے عدم میں بھی تلاشِ سرمہ و مشک و نمک
شیفتہ تیغِ نگہ سے کس کی گھائل ہو گیا
مصطفٰی خان شیفتہ

میری خوں ریزی ہی کا مائل ہے

دیوان پنجم غزل 1772
سخت بے رحم آہ قاتل ہے
میری خوں ریزی ہی کا مائل ہے
دور مجنوں کا ہو گیا آخر
یاں جنوں کا ابھی اوائل ہے
نکلے اس راہ کس طرح وہ ماہ
نہ تو طالع نہ جذب کامل ہے
مثل صورت ہیں جلوہ کے حیراں
ہائے کیا شکل کیا شمائل ہے
ہاتھ رکھ لیوے تو کہے کہ بس اب
کیا جیے گا بہت یہ گھائل ہے
حق میں اس بت کے بد کہیں کیونکر
وہ ہمارا خداے باطل ہے
سچ ہے راحت تو بعد مرنے کے
پر بڑا واقعہ یہ ہائل ہے
تیغ اگر درمیاں رہے تو رہے
یار میرا جوان جاہل ہے
رو نہیں چشم تر سے اب رکھیے
سیل اسی در کا کب سے سائل ہے
حال ہم ڈوبتوں کا کیا جانے
جس کو دریا پہ سیر ساحل ہے
میر کب تک بحال مرگ جئیں
کچھ بھی اس زندگی کا حاصل ہے
میر تقی میر

ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 2
سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شمعِ نظر، خیال کے انجم ، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچہء قاتل سے آئے ہیں
بادِ خزاں کا شکر کرو، فیض جس کے ہاتھ
نامے کسی بہار شمائل سے آئے ہیں
فیض احمد فیض

مرتے ہوئے لوگوں کومسائل سے نکالو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 228
تہذیب کو فرسودہ دلائل سے نکالو
مرتے ہوئے لوگوں کومسائل سے نکالو
تم ملک خدا داد کا لوٹا ہوا گلشن
اب زردمعیشت کے خصائل سے نکالو
خیرات پہ جینا توکوئی جینا نہیں ہے
اک تازہ سحر اپنے وسائل سے نکالو
قانون کو نافذ کرو ہر ایک گلی پر
تم قاتلوں کو اپنے قبائل سے نکالو
منصور لٹیروں کو سرِعام دو پھانسی
اب دیس کرپشن کی شمائل سے نکالو
منصور آفاق