ٹیگ کے محفوظات: شرمندگی

مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 3
محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
کیا ہے وعدہ فردا انہوں نے دیکھئے کیا ہو
یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا
چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی سے ہو نہیں سکتا
نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقےکا
پریشانی میں کوئی کا جی سے ہو نہیں سکتا
ہوا ہوں اس قدر محبوب عرض مدعا کر کے
اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا
خدا جب دوست ہے اے داغ کیا دشمن سے اندیشہ
ہمارا کچھ کسی کی دشمنی سے ہو نہیں سکتا
داغ دہلوی

جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی

دیوان ششم غزل 1880
دل غم سے خوں ہوا تو بس اب زندگی ہوئی
جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی
خدمت میں اس صنم کے گئی عمر پر ہمیں
گویا کہ روز اس سے نئی بندگی ہوئی
گریے کا میرے جوش جو دیکھا تو شرم سے
سیلاب کو بھی دیر سر افگندگی ہوئی
تھا دو دلا وصال میں بھی میں کہ ہجر میں
پانچوں حواس کی تو پراگندگی ہوئی
اب صبر میر ہو نہیں سکتا فراق میں
یک عمر جان و دل کی فریبندگی ہوئی
میر تقی میر