حضور! شہرت کی آب کاری میں لگ گیا ہوں
کہ کارِبےکار و بےقراری میں لگ گیا ہوں
میں نفسیاتی ضیافتوں کا شکار ہو کر
ترے تقرب کی آب یاری میں لگ گیا ہوں
یہ دنیاداری مجھے گوارا نہیں پرندو
مرے مریدو! میں خاکساری میں لگ گیا ہوں
زمیں کی ساری غلیظ رسموں سے ہاتھ کرکے
زہے فراغت کہ شرمساری میں لگ گیا ہوں
غریب ہوتی ہوئی محبت مجھے منا لے
برائے حجت میں اشکباری میں لگ گیا ہوں
افتخار فلک