ٹیگ کے محفوظات: شرمساری

کہ کارِبےکار و بےقراری میں لگ گیا ہوں

حضور! شہرت کی آب کاری میں لگ گیا ہوں
کہ کارِبےکار و بےقراری میں لگ گیا ہوں
میں نفسیاتی ضیافتوں کا شکار ہو کر
ترے تقرب کی آب یاری میں لگ گیا ہوں
یہ دنیاداری مجھے گوارا نہیں پرندو
مرے مریدو! میں خاکساری میں لگ گیا ہوں
زمیں کی ساری غلیظ رسموں سے ہاتھ کرکے
زہے فراغت کہ شرمساری میں لگ گیا ہوں
غریب ہوتی ہوئی محبت مجھے منا لے
برائے حجت میں اشکباری میں لگ گیا ہوں
افتخار فلک

ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے

دیوان چہارم غزل 1508
ہماری تیری مودت ہے دوست داری ہے
ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے
گئی وہ نوبت مجنوں کہ نام باجے تھا
ہمارا شور جنوں اب ہے اپنی باری ہے
کریں تو جاکے گدایانہ اس طرف آواز
اگر صدا کوئی پہچانے شرمساری ہے
مسافران رہ عشق ہیں شکیب سے چپ
وگرنہ حال ہمارا تو اضطراری ہے
خرابی حال کی دل خواہ جو تمھارے تھی
سو خطرے میں نہیں خاطر ہمیں تمھاری ہے
ہمیں ہی عشق میں جینے کا کچھ خیال نہیں
وگرنہ سب کے تئیں جان اپنی پیاری ہے
نگاہ غور سے کر میر سارے عالم میں
کہ ہووے عین حقیقت وہی تو ساری ہے
میر تقی میر