ٹیگ کے محفوظات: شب

کیا لکھیے سرِ دامنِ شب، سوچ رہے ہیں

لَودے اٹھے وہ حرفِ طلب سوچ رہے ہیں
کیا لکھیے سرِ دامنِ شب، سوچ رہے ہیں
کیا جانیے منزل ہے کہاں، جاتے ہیں کس سمت
بھٹکی ہوئی اس بھیڑ میں سب سوچ رہے ہیں
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سُلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
ٹوٹے ہوئے پتّوں سے د رختوں کو تعلق؟
ہم دور کھڑے کنجِ طرب سوچ رہے ہیں
بُجھتی ہوئی شمعوں کا دھواں ہے سرِ محفل
کیا رنگ جَمے آخرِ شب سوچ رہے ہیں
اس لہر کے پیچھے بھی رَواں ہیں نئی لہریں
پہلے نہیں سوچا تھا، جو اب سوچ رہے ہیں
ٹو ٹے ہو ئے پتّوں کو درختوں سے تعلق؟
ہم دُور کھڑے شہرِ طرب سوچ رہے ہیں
ہم اُبھر ے بھی ،ڈو بے بھی سیا ہی کے بھنو ر میں
ہم سو ئے نہیں شب ، ہمہ شب سوچ رہے ہیں
ایما ن کی شہ رگ ہُوں ، میں انِسا ن کا دل ہوں
کیا آپ مرا نا م و نَسَب سوچ رہے ہیں
شکیب جلالی

مدہوش نہیں تشنہ بہ لَب سوچ رہے ہیں

محجوب ہے کیوں بنتِ عَنَب سوچ رہے ہیں
مدہوش نہیں تشنہ بہ لَب سوچ رہے ہیں
بُجھتی ہوئی شمعوں کا دھواں ہے سرِ محفل
کیا رنگ جمے آخرِ شب سوچ رہے ہیں
ٹوٹے ہوئے پتّوں کو درختوں سے تعلّق؟
ہم دُور کھڑے شہرِ طرب سوچ رہے ہیں
تبدیلیِ حالات نے بَدلے ہیں خیالات
پہلے نہیں سوچا تھا جو اب سوچ رہے ہیں
ہم ابھرے بھی، ڈوبے بھی سیاہی کے بھنور میں
ہم سوئے نہیں شب، ہمہ شب سوچ رہے ہیں
ایمان کی شہ رگ ہُوں میں اِنسان کا دل ہوں
کیا آپ مرا نام و نَسَب سوچ رہے ہیں
شکیب جلالی

شگُفتِ رنگ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے

سَحر میں حُسن ہے کیسا! بہارِ شب کیا ہے
شگُفتِ رنگ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
یہ اور بات ہے کوئی کسی کا دوست نہ ہو
اگر ہے کوئی تو پھر دشمنی عجب کیا ہے
’’کوئی بتائے کہ اب کیا جواب دوں ان کو،،
وہ پوچھتے ہیں مرے پیار کا سبب کیا ہے
وہ ایک بات جو سینے میں مثلِ راز نہ تھی
سمجھ گیا ہو زمانہ تو پھر عجب کیا ہے
وہ زرنگار ستارے بھی چھپ گئے آخر
خلا میں ڈھونڈ رہا ہوں متاعِ شب کیا ہے
زہے کرم کہ ہمیشہ سے تم مخالف ہو
وگرنہ جب بھی نہ تھا کچھ شکیبؔ، اب کیا ہے
شکیب جلالی

اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟

رگوں میں رقص کناں موجہِ طرب کیا ہے؟
اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟
ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر
مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے؟
مرے کہے سے مرے گردوپیش کچھ بھی نہیں
میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے؟
نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ لا موجود
نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے؟
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآلِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں
خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ لب کیا ہے
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
پسِ زیاں جو درِ دل پہ میں نے دستک دی
‘‘کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ ’’اب کیا ہے؟
عرفان ستار

گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے

مجلسِ غم، نہ کوئی بزمِطرب، کیا کرتے
گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے
یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھّی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے
روشنی، رنگ، مہک، طائرِ خوش لحن، صبا
تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلانِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرزِ سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے
یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میر بھلا تیرا ادب کیا کرتے
عرفان ستار

اَیسی فَرسُودہ رسومات کو اَب رہنے دو

جو بھی دِل میں ہے کَہو، پاسِ اَدَب رہنے دو
اَیسی فَرسُودہ رسومات کو اَب رہنے دو
تِیر کِس سمت سے آیا ہے یہی کافی ہے
تِیر اَنداز کا اَب نام و نَسَب رہنے دو
مُجھ سے اُترے ہوئے چہرے نہیں دیکھے جاتے
کوئی پُوچھے بھی تَو کہتا ہُوں ، سَبَب رہنے دو
جِس کو خُورشیدِ قَیامَت سے اُجالا نہ مِلے
کیا عَجَب گَر وہ کہے ظُلمَتِ شَب رہنے دو
دِل کا اصرار ہے جو دِل میں ہے کہہ دُوں اُن سے
ذہن کہتا ہے، وہ اَب وہ نہیں ، اَب رہنے دو
کون رکھتا ہے رہ و رَسمِ زمانہ کا خیال
صِرف کہنے کی یہ باتیں ہیں ، یہ سَب رہنے دو
مُجھ کو طُوفاں نے ڈبویا نہیِں ، خُود ڈُوبا ہُوں
اہلِ ساحِل سے کہو جَشنِ طَرَب رہنے دو
عَکسِ قاتِل نَظَر آجائے نہ زَخموں میں کہیِں
جیسے مَقتَل میں پَڑا ہُوں اسی ڈَھَب رہنے دو
قحطِ اَقدار میں یہ مِہر و مُرَوَّت، ضامنؔ!
کیا ضرورَت ہے تکلّف کی یہ سَب رہنے دو
ضامن جعفری

آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی

تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی
آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی
آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
ہوش اُڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں
تیری بستی میں ہوں یا خوابِ طرب ہے کوئی
گیت بنتی ہے ترے شہر کی بھرپور ہوا
اجنبی میں ہی نہیں تو بھی عجب ہے کوئی
لیے جاتی ہیں کسی دھیان کی لہریں ناصر
دُور تک سلسلۂ تاکِ طرب ہے کوئی
ناصر کاظمی

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا
حالِ دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
ناصر کاظمی

گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی

کم فرصتئی خوابِ طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی
ہرچند ترا عہدِ وفا بھول گئے ہم
وہ کشمکشِ صبر طلب یاد رہے گی
سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک
وہ شوخیٔ یک جنبشِ لب یاد رہے گی
پھر جس کے تصوّر میں برسنے لگیں آنکھیں
وہ برہمیٔ صحبتِ شب یاد رہے گی
گو ہجر کے لمحات بہت تلخ تھے لیکن
ہر بات بعنوانِ طرب یاد رہے گی
ناصر کاظمی

حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہم نے اُتارا جس دم مرکب دریا میں
حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں
جب سے کنارے اُس کے تُجھ سے ملن ٹھہرا
اُترے آس کے کیا کیا کوکب دریا میں
ہر تنکے ہر پیڑ کو جو جتلاتا تھا
زور نہیں وہ پہلا سا اب دریا میں
ہاتھ میں چپّو تان لئے تو ڈرنا کیا
عمر کٹے یا کٹ جائے شب دریا میں
رنج نظر کا آخر آنکھ میں تیرے گا
لاش دبی رہتی ہے بھلا کب دریا میں
چاہت نے اسباب نہ دیکھے تھے ماجدؔ
کھُرتی خاک لئے اُتری جب دریا میں
ماجد صدیقی

اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 80
رگوں میں رقص کناں موجہِٗ طرب کیا ہے؟
اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟
ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر
مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے؟
مرے کہے سے مرے گردوپیش کچھ بھی نہیں
میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے؟
نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ لا موجود
نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے؟
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآلِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں
خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ لب کیا ہے
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
پسِ زیاں جو درِ دل پہ میں نے دستک دی
‘‘کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ ’’اب کیا ہے؟
عرفان ستار

گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 67
مجلسِ غم، نہ کوئی بزمِطرب، کیا کرتے
گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے
یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھّی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے
روشنی، رنگ، مہک، طائرِ خوش لحن، صبا
تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلانِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرزِ سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے
یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میر بھلا تیرا ادب کیا کرتے
عرفان ستار

لیکن میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 28
گو دورِ جام بزم میں تا ختمِ شب رہا
لیکن میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا
پروانہ میری طرح مصیبت میں کب رہا
بس رات بھر جلا تری محفل میں جب رہا
ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا
جس نے اٹھائی آنکھ وہی تشنہ لب رہا
سرکار پوچھتے ہیں کہ خفا ہو کے حالِ دل
بندہ نواز میں تو بتانے سے ادب رہا
بحر جہاں میں ساحل خاموش بن کے دیکھ
موجیں پڑیں گی پاؤں جو تو تشنہ لب رہا
وہ چودھویں کا چاند نہ آیا نظر قمر
میں اشتیاقِ دید میں تا ختمِ شب رہا
قمر جلالوی

ہم آرزوئے بوسہ بہ پیغام اب تلک

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 70
رہ جائے کیوں نہ ہجر میں جاں آ کے لب تلک
ہم آرزوئے بوسہ بہ پیغام اب تلک
کہتے ہیں بے وفا مجھے میں نے جو یہ کہا
مرتے رہیں گے آپ پہ، جیتے ہیں جب تلک
تمکینِ حسن ہے کہ نہ بے تاب ہو سکا
خلوت میں بھی کوئی قلقِ بے ادب تلک
آ جائے کاش موت ہی تسکیں نہ ہو، نہ ہو
ہر وقت بے قرار رہے کوئی کب تلک
وہ چشمِ التفات کہاں اب جو اس طرف
دیکھیں، کہ ہے دریغ نگاہِ غضب تلک
ایسے کریم ہم ہیں کہ دیتے ہیں بے طلب
پہنچاؤ یہ پیام اجلِ جاں طلب تلک
مایوس لطف سے نہ کر اے دشمنی شعار
امید سے اٹھاتے ہیں ہم جور اب تلک
یاں عجزِ بے ریا ہے نہ واں نازِ دل فریب
شکرِ بجا رہا گلۂ بے سبب تلک
ایسی ہی بے قراری رہی متصل اگر
اے شیفتہ ہم آج نہیں بچتے شب تلک
مصطفٰی خان شیفتہ

رہتی ہے خلش نالوں سے میرے دل شب میں

دیوان پنجم غزل 1688
فریاد سے کیا لوگ ہیں دن ہی کو عجب میں
رہتی ہے خلش نالوں سے میرے دل شب میں
حسرت کی جگہ ہے نہ کہ سبزان گل اندام
جاتے ہیں چلے آگے سے آتے نہیں ڈھب میں
افتادگی پر بھی نہ چھوا دامن انھوں کا
کوتاہی نہ کی دلبروں کے ہم نے ادب میں
کر خوف کَلک خَسپ کی جو سرخ ہیں آنکھیں
جلتے ہیں تر و خشک بھی مسکیں کے غضب میں
پایا نہ کنھوں نے اسے کوشش کی بہت میر
سب سالک و مجذوب گئے اس کی طلب میں
میر تقی میر

بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم

دیوان دوم غزل 858
محرم سے کسو روبرو ہوں کاشکے اب ہم
بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم
تدبیریں کریں اپنے تن زار و زبوں کی
افراط سے اندوہ کی ہوں آپ میں جب ہم
تو لاگو نہ ہو جی کا تو ناچار ہیں ورنہ
اس جنس گراں مایہ سے گذرے نہیں کب ہم
یک سلسلہ ہے قیس کا فرہاد کا اپنا
جوں حلقۂ زنجیر گرفتار ہیں سب ہم
کس دن نہ ملا غیر سے تو گرم علی الرغم
رہتے ہیں یوں ہی لوٹتے انگاروں پہ شب ہم
مجمع میں قیامت کے اک آشوب سا ہو گا
آنکلے اگر عرصے میں یوں نالہ بلب ہم
کیا معرفت اس سے ہوئی یاروں کو نہ سمجھے
اب تک تو نہیں پاتے ہیں کچھ یار کے ڈھب ہم
گہ نوچ لیا منھ کو گہے کوٹ لی چھاتی
دل تنگی ہجراں سے ہیں مغلوب غضب ہم
آغاز محبت میں تمامی ہوئی اپنی
اے واے ہوئے خاک بسر راہ طلب ہم
تربت سے ہماری نہ اٹھی گرد بھی اے میر
جی سے گئے لیکن نہ کیا ترک ادب ہم
میر تقی میر

بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور

دیوان دوم غزل 808
طاقت نہیں ہے جان میں کڑھنا تعب ہے اور
بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور
ہر چند چپ ہوں لیک مرا حال ہے عجب
احوال پرسی تو نہ کرے تو عجب ہے اور
آنکھ اس کی اس طرح سے نہیں پڑتی ٹک ادھر
اب خوب دیکھتے ہیں تو چتون کا ڈھب ہے اور
کیا کہیے حال دل کا جدائی کی رات میں
گذرے ہے کب کہانی کہے سے یہ شب ہے اور
دل لے چکے دکھا کے رخ خوب کو تبھی
اب منھ چھپا جو بیٹھے یہ حسن طلب ہے اور
اس دل لگے کے روگ کو نسبت مرض سے کیا
اپنا یہ جلتے رہنا ہے کچھ اور تب ہے اور
طور اگلے تیرے ملتے نہیں اس طرح سے ٹک
وہ اور کچھ تھا ہم سے تو پیارے یہ اب ہے اور
کیا بات تیری اے ہمہ عیاری و فریب
آنکھیں کہیں ہیں اور سخن زیر لب ہے اور
اسباب مرگ کے تو مہیا ہیں سارے میر
شاید کہ زندگانی کا اپنی سبب ہے اور
میر تقی میر

ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب

دیوان دوم غزل 772
جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب
ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب
سدھ کچھ سنبھالتے ہی وہ مغرور ہو گیا
ہر آن بے دماغی و ہر دم غضب ہے اب
دوری سے اس کی آہ عجب حال میں ہیں لوگ
کچھ بھی جو پاس وہ نہ کرے تو عجب ہے اب
طاقت کہ جس سے تاب جفا تھی سو ہوچکی
تھوڑی سی کوفت میں بھی بہت سا تعب ہے اب
دریا چلا ہے آج تو بوس و کنار کا
گر جی چلاوے کوئی دوانہ تو ڈھب ہے اب
جاں بخشیاں جو پیشتر از خط کیا کیے
ان ہی لبوں سے خلق خدا جاں بلب ہے اب
رنجش کی وجہ آگے تو ہوتی بھی تھی کوئی
روپوش ہم سے یار جو ہے بے سبب ہے اب
نے چاہ وہ اسے ہے نہ مجھ کو ہے وہ دماغ
جانا مرا ادھر کو بشرط طلب ہے اب
جاتا ہوں دن کو ملنے تو کہتا ہے دن ہے میر
جو شب کو جایئے تو کہے ہے کہ شب ہے اب
میر تقی میر

جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا

دیوان دوم غزل 738
حیراں ہے لحظہ لحظہ طرز عجب عجب کا
جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا
کہتے ہیں کوئی صورت بن معنی یاں نہیں ہے
یہ وجہ ہے کہ عارف منھ دیکھتا ہے سب کا
نسبت درست جس کی اس رو و مو سے پائی
ہے درہم اور برہم حال اس کے روز و شب کا
افسوس ہے نہیں تو انصاف دوست ورنہ
شایان لطف دشمن شائستہ میں غضب کا
سودائی ایک عالم اس کا بنا پھرے ہے
ہر چند عزلتی ہے وہ خال کنج لب کا
منھ اس کے منھ کے اوپر شام و سحر رکھوں ہوں
اب ہاتھ سے دیا ہے سررشتہ میں ادب کا
کیا آج کل سے اس کی یہ بے توجہی ہے
منھ ان نے اس طرف سے پھیرا ہے میر کب کا
میر تقی میر

چپکے ہی چپکے ان نے ہمیں جاں بلب کیا

دیوان دوم غزل 732
اس بد زباں نے صرف سخن آہ کب کیا
چپکے ہی چپکے ان نے ہمیں جاں بلب کیا
طاقت سے میرے دل کی خبر تجھ کو کیا نہ تھی
ظالم نگاہ خشم ادھر کی غضب کیا
یکساں کیا نہیں ہے ہمیں خاک رہ سے آج
ایسا ہی کچھ سلوک کیا ان نے جب کیا
عمامہ لے کے شیخ کہیں میکدے سے جا
بس مغبچوں نے حد سے زیادہ ادب کیا
اس رخ سے دل اٹھایا تو زلفوں میں جا پھنسا
القصہ اپنے روز کو ہم نے بھی شب کیا
ظاہر ہوا نہ مجھ پہ کچھ اس ظلم کا سبب
کیا جانوں خون ان نے مرا کس سبب کیا
کچھ آگے آئے ہوتے جو منظور لطف تھا
ہم جی سے اپنے جاچکے تم قصد تب کیا
بچھڑے تمھارے اپنا عجب حال ہو گیا
جس کی نگاہ پڑ گئی ان نے عجب کیا
برسوں سے اپنے دل کی ہے دل میں کہ یار نے
اک دن جدا نہ غیر سے ہم کو طلب کیا
کی زندگی سو وہ کی موئے اب سو اس طرح
جو کام میر جی نے کیا سو کڈھب کیا
میر تقی میر

پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا

دیوان دوم غزل 671
رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا
پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا
ہم دل زدہ نہ رکھتے تھے تم سے یہ چشم داشت
کرتے ہو قہر لطف کی جاگہ غضب ہے کیا
عزت بھی بعد ذلت بسیار چھیڑ ہے
مجلس میں جب خفیف کیا پھر ادب ہے کیا
آئے ہم آپ میں تو نہ پہچانے پھر گئے
اس راہ صعب عشق میں یارو تعب ہے کیا
حیراں ہیں اس دہن کے عزیزان خوردہ بیں
یہ بھی مقام ہائے تامل طلب ہے کیا
آنکھیں جو ہوویں تیری تو تو عین کر رکھے
عالم تمام گر وہ نہیں تو یہ سب ہے کیا
اس آفتاب بن نہیں کچھ سوجھتا ہمیں
گر یہ ہی اپنے دن ہیں تو تاریک شب ہے کیا
تم نے ہمیشہ جور و ستم بے سبب کیے
اپنا ہی ظرف تھا جو نہ پوچھا سبب ہے کیا
کیونکر تمھاری بات کرے کوئی اعتبار
ظاہر میں کیا کہو ہو سخن زیر لب ہے کیا
اس مہ بغیر میر کا مرنا عجب ہوا
ہر چند مرگ عاشق مسکیں عجب ہے کیا
میر تقی میر

جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی

دیوان اول غزل 441
گئی چھائوں اس تیغ کی سر سے جب کی
جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی
پڑی خرمن گل پہ بجلی سی آخر
مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی
کوئی بات نکلے ہے دشوار منھ سے
ٹک اک تو بھی تو سن کسی جاں بلب کی
تو شملہ جو رکھتا ہے خر ہے وگرنہ
ضرورت ہے کیا شیخ دم اک وجب کی
یکایک بھی آ سر پہ واماندگاں کے
بہت دیکھتے ہیں تری راہ کب کی
دماغ و جگر دل مخالف ہوئے ہیں
ہوئی متفق اب ادھر رائے سب کی
تجھے کیونکے ڈھونڈوں کہ سوتے ہی گذری
تری راہ میں اپنے پاے طلب کی
دل عرش سے گذرے ہے ضعف میں بھی
یہ زور آوری دیکھو زاری شب کی
عجب کچھ ہے گر میر آوے میسر
گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی
میر تقی میر

ایک دم چھوڑ دو یوں ہی مجھے اب مت پوچھو

دیوان اول غزل 406
محرماں بے دمی کا میری سبب مت پوچھو
ایک دم چھوڑ دو یوں ہی مجھے اب مت پوچھو
گریۂ شمع کا اے ہم نفساں میں تھا حریف
گذری ہے رات کی صحبت بھی عجب مت پوچھو
سر پر شور سے میرے نہ کرو کوئی سوال
حشر تھے داخل خدام ادب مت پوچھو
لب پہ شیون مژہ پر خون و نگہ میں اک یاس
دن گیا ہجر کا جس ڈھنگ سے شب مت پوچھو
میرصاحب نئی یہ طرز ہو اس کی تو کہوں
موجب آزردگی کا وجہ غضب مت پوچھو
میر تقی میر

کر جائوں گا سفر ہی میں دنیا سے تب تلک

دیوان اول غزل 257
بالیں پہ میری آوے گا تو گھر سے جب تلک
کر جائوں گا سفر ہی میں دنیا سے تب تلک
اتنا دن اور دل سے طپش کرلے کاوشیں
یہ مجہلہ تمام ہی ہے آج شب تلک
نقاش کیونکے کھینچ چکا تو شبیہ یار
کھینچوں ہوں ایک ناز ہی اس کا میں اب تلک
شب کوتہ اور قصہ مری جان کا دراز
القصہ اب کہا کروں تجھ سے میں کب تلک
باقی یہ داستان ہے اور کل کی رات ہے
گر جان میری میر نہ آپہنچے لب تلک
میر تقی میر

یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 43
دونوں ہی اک ساتھ بھلا ملتے ہیں
یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں
کون ہیں وُہ؟ وُہ خلق خدا کے بنجر ہیں
وُہ جو اُس ہوٹل میں ہر شب ملتے ہیں
آنکھیں کھول کہ دیکھو معنی دنیا کے
اِس لغّت میں سارے مطلب ملتے ہیں
کون کسے یاں جانے ہے پہچانے ہے
ملنے کو تو آپس میں سب ملتے ہیں
غم بھی اک تہذیب ہے جسکی کشور میں
تشنہ آنکھیں اور پیاسے لب ملتے ہیں
جان گنوا کر نام ملے گم ناموں کو
یہ گوہر جب کھو جائیں تب ملتے ہیں
آفتاب اقبال شمیم

وُہ دہشتیں ہیں کہ ہم شب کو شب بھی کہہ نہ سکیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 40
سلامتی کی ضمانت ہو، تب بھی کہہ نہ سکیں
وُہ دہشتیں ہیں کہ ہم شب کو شب بھی کہہ نہ سکیں
نمو پذیر ہے تہذیبِ جبر صدیوں سے
خدا معاف کرے اُس کو رب بھی کہہ نہ سکیں
گئی تو عمر گئی وضع داریاں نہ گئیں
جو بات کہہ نہ سکے تھے وُہ اب بھی کہہ نہ سکیں
تمام شہر کو وہ چٹکلے پسند آئے
جنہیں عمیق نظر میں ادب بھی کہہ نہ سکیں
ثبوتِ حُب وطن اس لئے وُہ مانگتے ہیں
کہ اپنی چاہ کو ہم منتخب بھی کہہ نہ سکیں
آفتاب اقبال شمیم

نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 35
تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہُوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شررِ ہے تو بھڑکے ، جو پھول ہے تو کِھلے
طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
بمبئی
فیض احمد فیض

نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 33
تری امید، ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہوا ہے جب سے دلِ ناصبور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارہء سحری ہمکلام کب سے ہے
لاہور
فیض احمد فیض

پھر اُس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 324
وہ اُن دِنوں تو ہمارا تھا، لیکن اَب کیا ہے
پھر اُس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے
تم اُس کا وَار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
دبیز کہر ہے یا نرم دُھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اَے غبارِ شب کیا ہے
دِکھا رہا ہے کسے وقت اَن گنت منظر
اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں تو پھر یہ سب کیا ہے
اَب اِس قدر بھی سکوں مت دِکھا بچھڑتے ہوئے
وہ پھر تجھے نہ کبھی مل سکے عجب کیا ہے
میں اَپنے چہرے سے کسی طرح یہ نقاب اُٹھاؤں
سمجھ بھی جا کہ پسِ پردۂ طرب کیا ہے
یہاں نہیں ہے یہ دَستورِ گفتگو، عرفانؔ
فغاں سنے نہ کوئی، حرفِ زیرِ لب کیا ہے
عرفان صدیقی

چلو یہ شام سرِ جوئے لب گذارتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 181
ذرا سا وقت کہیں بے سبب گذارتے ہیں
چلو یہ شام سرِ جوئے لب گذارتے ہیں
تو اک چراغِ جہانِ دگر ہے کیا جانے
ہم اس زمین پہ کس طرح شب گذارتے ہیں
ہمارا عشق ہی کیا ہے‘ گذارنے والے
یہاں تو نذر میں نام و نسب گذارتے ہیں
خراج مانگ رہی ہے وہ شاہ بانوئے شہر
سو ہم بھی ہدیۂ دستِ طلب گذارتے ہیں
سنا تو ہو گا کہ جنگل میں مور ناچتا ہے
ہم اس خرابے میں فصلِ طرب گذارتے ہیں
عرفان صدیقی

فکر و نظر تک چھین لئے ہیں رحمتِکل کے قہرو غضب نے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 561
جانے کیسے جرم کئے ہیں اِس امتِ تجدید طلب نے
فکر و نظر تک چھین لئے ہیں رحمتِکل کے قہرو غضب نے
اپنے غم کے ساتھ جہاں کے دکھ بھی پیش کئے ہیں میں نے
بے شک دل تحریر کئے ہیں اپنی اپنی نعت میں سب نے
پاس پڑا ہے ایٹم بم اور خوفزدہ ہیں ہم دشمن سے
چھوڑا نہیں افسوس کہیں کا مال و زر نے عیش و طرب نے
شوقِ شہادت رکھنے والے تیرے مجاہد قاتل ٹھہرے
صبح کے سچے متوالوں کو دہشت گرد کہا ہے شب نے
ویراں موٹر وے یورپ کے ، بس اسٹاپ بھی خالی خالی
تہذبیوں کی جنگ ہے جاری ، بند کیا ہے تیل عرب نے
منصور آفاق

پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 399
اور جینے کا سبب کوئی نہیں
پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں
صرف اک جاں سے گزرنا ہے مجھے
مجھ سا بھی سہل طلب کوئی نہیں
خواہشِ رزق درندوں کی طرح
جیسے اس شہر کا رب کوئی نہیں
وقت کیفیتِ برزخ میں ہے
کوئی سورج، کوئی شب، کوئی نہیں
ایک تعزیتی خاموشی ہے
شہر میں مہر بلب کوئی نہیں
وصل کی رات بھی تنہا میں تھا
میرے جیسا بھی عجب کوئی نہیں
کیوں گزرتا ہوں وہاں سے منصور
اس گلی میں مرا جب کوئی نہیں
منصور آفاق

مگر دو ہاتھ پیچھے دیویوں کا رقص تھا پب میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 304
گھلی تھی ایک ویراں چرچ کی گھمبیر تا رب میں
مگر دو ہاتھ پیچھے دیویوں کا رقص تھا پب میں
خدا جانے کہانی کار کتنا دلربا ہو گا
عجب رومان پرور لمس کی دھڑکن ہے مذہب میں
مجھے اکثر وہ ہجراں کی سیاہی میں دکھائی دی
سلگتے گھاؤ کی صورت ہے کوئی سینہء شب میں
خدا کے قید خانے سے کوئی باہر نہیں نکلا
اگرچہ ہے بلا کی قوتِ پرواز ہم سب میں
ازل کی شام سے آنکھیں کسی کی خوبصورت ہیں
رکا ہے وقت صدیوں سے کسی کے عارض و لب میں
منصور آفاق

اپنے ہونے کا سبب معلوم کر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 173
آدمی کے جدو اب معلوم کر
اپنے ہونے کا سبب معلوم کر
پوچھ شجرہ زندگی سے جا کہیں
جاکے مٹی کا نسب معلوم کر
فیصلے یک طرفہ کرنے چھوڑ دے
مجھ سے بھی میری طلب معلوم کر
اپنی پہچانیں کہاں کھوئی گئیں
گم ہوئے کیوں چشم و لب معلوم کر
اور کتنے قوس جلنا ہے ہمیں
اے چراغ دشتِ شب معلوم کر
موت کے منصور شہرِ خوف میں
زندگی کا کوئی ڈھب معلوم کر
منصور آفاق

یہ شاعری ہے صحبتِ شب سے ماخوذ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 161
ہجراں کے سیہ داغِ طلب سے ماخوذ
یہ شاعری ہے صحبتِ شب سے ماخوذ
ہم چُنتے رہے فرش و فلک کے الہام
ہم دونوں جہانوں کے ادب سے ماخوذ
ہے رات تری زلف دوتا سے نکلی
ہے صبح ترے عارض و لب سے ماخوذ
دھڑکن کی طرح چیخ رہی ہیں کب سے
نظمیں ہیں دلِ مہر بلب سے ماخوذ
ہم رات کے پرودہ نہیں ہیں منصور
ہم خواب ہیں صبحوں کے نسب سے ماخوذ
منصور آفاق

آپ گئے ہیں جب سے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 206
روٹھ گیا دل سب سے
آپ گئے ہیں جب سے
پہروں سونے والے
جاگ رہے ہیں کب سے
تاریکی، سناٹا
توبہ ایسی شب سے
کون وفا کا پیکر!
ہم واقف ہیں سب سے
غم ہی غم دیکھا ہے
آنکھ کھلی ہے جب سے
ہم مجرم ہیں لیکن
بات تو کیجے ڈھب سے
کیا لینا، کیا دینا
ہنس کر ملئے سب سے
بات کرو کچھ باقیؔ
چپ بیٹھے ہو کب سے
باقی صدیقی

اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 160
بے کلی بے سبب نہیں ہوتی
اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی
ہم کہاں تک گلہ کریں غم سے
آپ سے بھول کب نہیں ہوتی
کھل کے باتیں کرو کہ اب ہم سے
گفتگو زیر لب نہیں ہوتی
دل کی حالت عجیب ہوتی ہے
کوئی امید جب نہیں ہوتی
ہر نئے حادثے پہ حیرانی
پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی
ہم کہاں تک گلے کریں باقیؔ
وہ نظر دور کب نہیں ہوتی
کوئی باقیؔ سنے سنے نہ سنے
داستاں ختم اب نہیں ہوتی
باقی صدیقی

ایسے جینے کا سبب کیا ہو گا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 52
ہر گھڑی فکر کہ اب کیا ہو گا
ایسے جینے کا سبب کیا ہو گا
دل جھکا جاتا ہے سرسے پہلے
اس سے بڑھ کر بھی ادب کیا ہو گا
وہ نہ آئیں گے سنا ہے لیکن
یوں ہوا بھی تو عجب کیا ہو گا
صبح میں دیر ہوئی جاتی ہے
کیا کہیں آج کی شب کیا ہو گا
دے گیا مات زمانہ باقیؔ
منفعل ہونے سے اب کیا ہو گا
باقی صدیقی