ٹیگ کے محفوظات: شبنم

ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں

جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں
ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں
گریہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں
رات بھر نم رہا ہے آنکھوں میں
اُس گلِ تر کی یاد میں تا صبح
رقصِ شبنم رہا ہے آنکھوں میں
صبحِ رخصت ابھی نہیں بھولی
وہ سماں رم رہا ہے آنکھوں میں
دل میں اک عمر جس نے شور کیا
وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی دیکھی تھی اُس کی ایک جھلک
رنگ سا جم رہا ہے آنکھوں میں
ناصر کاظمی

اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
مُڑنے والی تھی وُہ ساحل کی طرف یم کی طرح
اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح
اُس کی انگڑائی میں دعوت تھی بہ اندازِ دگر
ابروؤں میں آنے والے دلنشیں خم کی طرح
پیش قدمی میں عجب امرت تھا پھیلا چار سُو
اُس کا ہر ہٹتا قدم لگنے لگا سم کی طرح
کہہ رہا تھا مجھ سے جیسے اُس کا فردوسِ بدن
دیکھنا رہ سے بھٹک جانا نہ آدم کی طرح
نشّۂ دیدار اُس کا اب کے تھا کُچھ اور ہی
آنکھ میں اُتری لگی وُہ کیفِ پیہم کی طرح
یہ بدن ماجِد سحرآثار ہو جانے لگا
اس سے ملنے کا اثر تھا گل پہ شبنم کی طرح
ماجد صدیقی

کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
جیون رُت کی سختی بے موسم لگتی ہے
کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے
صبحِ سفر یادوں میں اُترتی ہے یوں جیسے
رفتہ رفتہ رات کی چادر نم لگتی ہے
سوچیں خلق کے حق میں اچّھا سوچنے والے
خلق اُنہی سے آخر کیوں برہم لگتی ہے
ان سے توقّع داد کی ہم کیا رکھیں جن کے
بات لبوں کے بیچ سے پھوٹی سم لگتی ہے
بات فقط اک لمبی دیر گزرنے کی ہے
جگہ جگہ پر کیا کیا کھوپڑی، خم لگتی ہے
بَیری رات کے آخر میں جو جا کے بہم ہو
آنکھ کنارے اٹکی وہ شبنم لگتی ہے
کچھ تو اندھیرا بھی خاصا گمبھیر ہوا ہے
کچھ ماجدؔ لَو دیپ کی بھی مدّھم لگتی ہے
ماجد صدیقی

قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 39
سکوں بھی خواب ہُوا، نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر
بنا رہی ہے تری یاد مُجھ کو سلکِ کُہر
پرو گئی مری پلکوں میں آج شبنم پھر
وہ نرم لہجے میں کُچھ کہہ رہا ہے پھر مُجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سُروں میں مدھم پھر
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سُنوں
اُلجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
نہ اُس کی بات میں سمجھوں نہ وہ مری نظریں
معاملاتِ زباں ہو چلے ہیں مبہم پھر
یہ آنے والا نیا دُکھ بھی اُس کے سر ہی گیا
چٹخ گیا مری انگشتری کا نیلم پھر
وہ ایک لمحہ کہ جب سارے رنگ ایک ہوئے
کِسی بہار نے دیکھا نہ ایسا سنگم پھر
بہت عزیز ہیں آنکھیں مری اُسے، لیکن
وہ جاتے جاتےانہیں کر گیا ہے پُر نم پھر
پروین شاکر

کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے

دیوان دوم غزل 1012
گل گئے بوٹے گئے گلشن ہوئے برہم گئے
کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے
ہنستے رہتے تھے جو اس گلزار میں شام و سحر
دیدئہ تر ساتھ لے وے لوگ جوں شبنم گئے
گر ہوا اس باغ کی ہے یہ تو اے بلبل نہ پھول
کوئی دن میں دیکھیو واں وے گئے یاں ہم گئے
کیا کم اس خورشیدرو کی جستجو یاروں نے کی
لوہو روتے جوں شفق پورب گئے پچھم گئے
جی گیا یاں بے دماغی سے انھوں کی اور واں
نے جبیں سے چیں گئی نے ابروئوں سے خم گئے
شاید اب ٹکڑوں نے دل کے قصد آنکھوں کا کیا
کچھ سبب تو ہے جو آنسو آتے آتے تھم گئے
گرچہ ہستی سے عدم تک اک مسافت تھی بعید
پر اٹھے جو ہم یہاں سے واں تلک اک دم گئے
کیا معاش اس غم کدے میں ہم نے دس دن کی بہم
اٹھ کے جس کے ہاں گئے دل کا لیے ماتم گئے
سبزہ و گل خوش نشینی اس چمن کی جن کو تھی
سو بھی تو دیکھا گریباں چاک و مژگاں نم گئے
مردم دنیا بھی ہوتے ہیں سمجھ کس مرتبہ
آن بیٹھے نائوں کو تو یاں نگیں سے جم گئے
ربط صاحب خانہ سے مطلق بہم پہنچا نہ میر
مدتوں سے ہم حرم میں تھے پہ نامحرم گئے
میر تقی میر

پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے

دیوان اول غزل 503
خوب ہے اے ابر اک شب آئو باہم رویئے
پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے
وقت خوش دیکھا نہ اک دم سے زیادہ دہر میں
خندئہ صبح چمن پر مثل شبنم رویئے
شادی و غم میں جہاں کی ایک سے دس کا ہے فرق
عید کے دن ہنسیے تو دس دن محرم رویئے
دیکھا ماتم خانۂ عالم کو ہم مانند ابر
ہرجگہ پر جی میں یوں آیا دمادم رویئے
ہو جدا فردوس سے یعنی گلی سے یار کی
مدتوں تک کیجیے غم مثل آدم رویئے
اب سے یوں کریے مقرر اٹھیے جب کہسار سے
وادی مجنوں پہ بھی اے ابر اک دم رویئے
عشق میں تقریب گریہ گو نہیں درکار میر
ایک مدت صبر ہی کا رکھیے ماتم رویئے
میر تقی میر

ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں

دیوان اول غزل 365
تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں
ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں
نہ کچھ کاغذ میں ہے تہ نے قلم کو درد نالوں کا
لکھوں کیا عشق کے حالات نامحرم ہیں یہ دونوں
لہو آنکھوں سے بہتے وقت رکھ لیتا ہوں ہاتھوں کو
جراحت ہیں اگر وے دونوں تو مرہم ہیں یہ دونوں
کسو چشمے پہ دریا کے دیا اوپر نظر رکھیے
ہمارے دیدئہ نم دیدہ کیا کچھ کم ہیں یہ دونوں
لب جاں بخش اس کے مار ہی رکھتے ہیں عاشق کو
اگرچہ آب حیواں ہیں ولیکن سم ہیں یہ دونوں
نہیں ابرو ہی مائل جھک رہی ہے تیغ بھی ایدھر
ہمارے کشت و خوں میں متفق باہم ہیں یہ دونوں
کھلے سینے کے داغوں پر ٹھہر رہتے ہیں کچھ آنسو
چمن میں مہر ورزی کے گل و شبنم ہیں یہ دونوں
کبھو دل رکنے لگتا ہے جگر گاہے تڑپتا ہے
غم ہجراں میں چھاتی کے ہماری جم ہیں یہ دونوں
خدا جانے کہ دنیا میں ملیں اس سے کہ عقبیٰ میں
مکاں تو میر صاحب شہرئہ عالم ہیں یہ دونوں
میر تقی میر

مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں

دیوان اول غزل 346
آجائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں
یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں
حاصل ہے کیا سواے ترائی کے دہر میں
اٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں
مائل بہ غیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے
تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں
ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں
اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں
عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں
ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں
اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں
میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمھیں
تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں
دل مت لگا رخ عرق آلود یار سے
آئینے کو اٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں
شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میر
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں
میر تقی میر

پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب

دیوان اول غزل 176
رویا کیے ہیں غم سے ترے ہم تمام شب
پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب
رکنے سے دل کے آج بچا ہوں تو اب جیا
چھاتی ہی میں رہا ہے مرا دم تمام شب
یہ اتصال اشک جگر سوز کا کہاں
روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب
شکوہ عبث ہے میر کہ کڑھتے ہیں سارے دن
یا دل کا حال رہتا ہے درہم تمام شب
گذرا کسے جہاں میں خوشی سے تمام روز
کس کی گئی زمانے میں بے غم تمام شب
میر تقی میر

ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 16
یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آکے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَرمِٹیں ہم ، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری ، یُوں پِھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے ، وہی فصلِ گُل کا ماتم
لاہورجیل
فیض احمد فیض

فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 272
کیا ہرن ہے کہ کبھی رم نہیں کرتا ہم سے
فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے
پیکر سادہ ہے اور دل سے وہ کرتا ہے سلوک
جو کبھی حسنِ دو عالم نہیں کرتا ہم سے
خود ہی شاداب ہے وہ لالۂ صحرا ایسا
خواہشِ قطرۂ شبنم نہیں کرتا ہم سے
کیا خبر کون سی تقصیر پہ ناراض نہ ہو
وہ شکایت بھی تو پیہم نہیں کرتا ہم سے
صبر اے عشق‘ وہ خواہاں ہے شکیبائی کا
طلبِ دیدۂ پر نم نہیں کرتا ہم سے
عرفان صدیقی

افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 608
قاتل بھی شریکِ صفِ ماتم ہے عجب ہے
افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے
بہتے ہیں کئی طرح کے افسوس نظر سے
یہ آنکھ بھی دریاؤں کا سنگم ہے عجب ہے
پھولوں کے مراسم ہیں کہیں آتشیں لب سے
شعلوں کی مصاحب کہیں شبنم ہے عجب ہے
کل تک وہی شداد تھا نمرود تھا لیکن
اب وہی مسیحاوہی گوتم ہے عجب ہے
منظر ہے وہی لوگ مگر اور کوئی ہیں
دیکھو وہی دریا وہی شیشم ہے عجب ہے
وہ جس نے نکالا تھا بہشت آباد سے ہم کو
خوابوں میں وہی دانہ ء گندم ہے عجب ہے
ہم ڈھونڈتے نکلے تھے جسے عرشِ بریں پر
گلیوں میں وہی حسنِ مجسم ہے عجب ہے
منصور مجھے چھوڑا ہے اک شخص نے لیکن
ہر آنکھ میں انکار کا موسم ہے عجب ہے
منصور آفاق

اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 495
بانسری بانس کے جنگل سے سنوں غم کی یونہی
اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی
کوئی امکان بظاہر تو بچھڑنے کا نہیں
یاد آئی ہے مجھے ہجر کے موسم کی یونہی
دشت کی دھوپ کوئی چیز نہیں میرے غزال
گفتگو تجھ سے ہوئی سایہ ء شیشم کی یونہی
میں نے جانا نہیں برفاب تہوں میں اس کی
بات سنتا ہوں میں بہتے ہوئے جہلم کی یونہی
برف گرتی ہے تو آتی ہے نظر خوابوں میں
اک پری زاد مجھے وادی ء نیلم کی یونہی
صبر کرتا رہا قربان حسین ابن علی
ظلم کہتا رہا حرمت ہے محرم کی یونہی
مجھ کو معلوم نہیں کون کہاں روتا ہے
بات کی سبزہ پہ بکھری ہوئی شبنم کی یونہی
اک موبائل سے بنا لینے دو تصویر مجھے
پہنے رکھو ذرا پوشاک یہ ریشم کی یونہی
ذکر ہوتا رہے لیلائے وطن کا منصور
آگ جلتی رہے بس نوحۂ ماتم کی یونہی
منصور آفاق

تھامنا اے ضبط الفت ہم گئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 192
رک گئی برسات، ساغر تھم گئے
تھامنا اے ضبط الفت ہم گئے
کیا سمجھ سکتے وہ اسرار چمن
جو چمن میں صورت شبنم گئے
ایک عالم سرنگوں پایا گیا
جس طرف ہم لے کے تیرا غم گئے
غم کے ہیں یا ضبط غم کے ترجماں
اشک جو پلکوں پہ آ کر تھم گئے
اس کے آگے کیا ہوا باقیؔ نہ پوچھ
بارگاہ حسن تک تو ہم گئے
باقی صدیقی

وہ نگاہیں اٹھیں مگر کم کم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 17
دل پہ کچھ کھل سکا نہ راز غم
وہ نگاہیں اٹھیں مگر کم کم
اس طرح ہو گئے جدا جیسے
راہ میں یوں ہی مل گئے تھے ہم
آرزو راستے میں چھوڑ گئی
ہم ہیں اور زندگی کے پیچ و خم
پستیاں بھی گریز کرنے لگیں
کس بلندی سے گر رہے ہیں ہم
لب گل بھی نہ تر ہوئے باقیؔ
رات برسی کچھ اس طرح شبنم
باقی صدیقی