کوئی بتائے کہ وہ کیسے اشتباہ میں ہے
جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے
مقابلہ ہے مرا دوپہر کی حدت سے
بس ایک شام کا منظر مری سپاہ میں ہے
تری تمام ریا کاریوں سے واقف ہوں
یقین کر کہ بڑا لطف اس نباہ میں ہے
مرے سلوک میں شامل نہیں ہے بے خبری
ہر ایک شخص کا منصب مری نگاہ میں ہے
وہ سادہ دل ہے اُسے کیا خبر زمانے کی
خبر جو ہو بھی تو کیا حرج انتباہ میں ہے
ضمیر سے تو ابھی تک ہے خاکداں روشن
یہی چراغ مرے خیمۂ سیاہ میں ہے
میں معترف ہوں روایت کی پاسداری کا
کجی تو حسبِ ضرورت مری کلاہ میں ہے
سپردگی مری فطرت کے ہے خلاف مگر
یہ انکسار ترے غم کی بارگاہ میں ہے
ترے لیے بھی کوئی فیصلہ میں کر لوں گا
ابھی تو شوق تمنا کی سیرگاہ میں ہے
عرفان ستار