ٹیگ کے محفوظات: سویرا

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 81
مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

وہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 33
پیشِ ساحل اِک ہجومِ موجِ دریا ہو گیا
وہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیا
کاٹنی ہی کیا شبِ ہستی سَرائے دہر میں
اِک ذرا سی آنکھ جھپکائی سویرا ہو گیا
کچھ مری خاموشیاں ان کی سمجھ میں آ گئیں
کچھ میری آنکھوں سے اظہارِ تمنا ہو گیا
نزع کے عالم میں قاصد لے کے جب آیا جواب
ڈوبنے والوں کو تنکے کا سہارا ہو گیا
آپنے سر پر موجِ طوفاں بڑھا کہ لیتی ہے قدم
میرا بیڑا قابلِ تعظیمِ دریا ہو گیا
دیکھ لینا یہ ستم اک دن مٹا دیں گے مجھے
تم یہ کہتے ہوے رہ جاؤ گے کیا ہو گیا
ساحلِ امید وعدہ اب تو چھوڑو اے قمر
غرقِ بحرِ آسماں ایک ایک تارا ہو گیا
قمر جلالوی

جیسے بچہ کسی میلے میں تماشا دیکھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 299
کوئی میرے دل حیراں کا سراپا دیکھے
جیسے بچہ کسی میلے میں تماشا دیکھے
باندھ کر جانے کہاں لے گئی قسمت کی کمند
وہ چلا تھا کہ ذرا وسعت صحرا دیکھے
یہ تو اک بھولا ہوا چہرہ ہے، جب یاد آجائے
شام دیکھے نہ یہ مہتاب سویرا دیکھے
میں اب ان چھوٹی سی خوشیوں کے سوا کیا چاہوں
پیاس بوندوں سے نہ بجھ پائے تو دریا دیکھے
عرفان صدیقی

اُس س کہہ دو کہ مرے ہجر کو رسوا نہ کرے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 532
دشت کو ابر نہ دے ، دھوپ پہ سایہ نہ کرے
اُس س کہہ دو کہ مرے ہجر کو رسوا نہ کرے
ایک امید کی کھڑکی سی کھلی رہتی ہے
اپنے کمرے کا کوئی، بلب بجھایا نہ کرے
میں مسافر ہوں کسی روز تو جانا ہے مجھے
کوئی سمجھائے اسے میری تمنا نہ کرے
روز ای میل کرے سرخ اِمج ہونٹوں کے
میں کسی اور ستارے پہ ہوں ، سوچا نہ کرے
حافظہ ایک امانت ہی سہی اس کی مگر
وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے
شب کبھی وصل کی دے وہ تو گھڑی بھر کی ہو
رات ہجراں کی جو آئے تو سویرا نہ کرے
بال بکھرائے ہوئے درد کے خالی گھر میں
یاد کی سرد ہوا شام کو رویا نہ کرے
چھو کے بھی دیکھنا چاہتی ہیں یہ پوریں اس کو
آ نہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے
چاند کے حسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصور
میں اسے کیسے کہوں رات کو نکلا نہ کرے
منصور آفاق

یہ اور بات فوج ہے گھیرا لیے ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 513
وہ چوک میں کھڑا ہے پھریرا لیے ہوئے
یہ اور بات فوج ہے گھیرا لیے ہوئے
آنکھیں کہ رتجگوں کے سفر پر نکل پڑیں
اک دلنواز خواب سا تیرا لیے ہوئے
اللہ کے سپرد ہے خانہ بدوش دوست
وہ اونٹ جا رہے ہیں "بسیرا ” لیے ہوئے
اندر کا حبس دیکھ کے سوچا ہے بار بار
مدت ہوئی ہے شہر کا پھیرا لیے ہوئے
چلتے رہے ہیں ظلم کی راتوں کے ساتھ ساتھ
آنکھوں میں مصلحت کا اندھیرا لیے ہوئے
رہنا نہیں ہے ٹھیک کناروں کے آس پاس
پھرتا ہے اپنا جال مچھیرا لیے ہوئے
گردن تک آ گئے ہیں ترے انتظار کے
لمبے سے ہاتھ، جسم چھریرا لیے ہوئے
لوگوں نے ڈھانپ ڈھانپ لیا درز درز کو
منصور پھر رہا تھا سویرا لیے ہوئے
منصور آفاق