ٹیگ کے محفوظات: سویا

پھِر ہر اِک لمحہِ گُم گَشتہ کو رویا جائے

ایک تصویر میں ہَر دَرد سمویا جائے
پھِر ہر اِک لمحہِ گُم گَشتہ کو رویا جائے
اُس نے یہ کہہ کے کِیا تَرکِ تَعَلُّق مجھ سے
یاد رَکھنے کو ضروری ہے کہ کھویا جائے
داغِ اُلفَت ہی تَو پہچان ہے تیری میری
کیسے ممکن ہے کہ اِس داغ کو دھویا جائے
آپ کے بعد ہے گر کوئی قَیامَت باقی؟
وہ بھی آجائے تَو پِھر چَین سے سویا جائے
تُو ہے وہ داغ جو بنیاد ہے سَب داغَوں کی
داغِ ہَستی تجھے کس طَور سے دھویا جائے
ضامنؔ! اُس چَشمِ گُہَر بار سے جو برسے ہیں
ایک اِک موتی کو پلکوں میں پرویا جائے
ضامن جعفری

یاد نے کنکر پھینکا ہو گا

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہو گا
یاد نے کنکر پھینکا ہو گا
آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اِس وقت اکیلا ہو گا
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اَوروں کو خط لکھتا ہو گا
بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہو گا
ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہو گا
شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اُترا ہو گا
آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہو گا
یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہو گا
موتی جیسی شکل بنا کر
آئنے کو تکتا ہو گا
شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہو گا
نیلی دُھندلی خاموشی میں
تاروں کی دُھن سنتا ہو گا
میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہو گا
شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہو گا
پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دُکھ تو سنایا ہو گا
میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہو گا
ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہو گا
ناصر کاظمی

جانے وہ آج بھی سویا کہ نہیں !

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 65
چاند اُس دیس میں نکلا کہ نہیں !
جانے وہ آج بھی سویا کہ نہیں !
اے مجھے جاگتا پاتی ہُوئی رات
وہ مری نیند سے بہلا کہ نہیں !
بھیڑ میں کھویا ہُوا بچہ تھا
اُس نے خود کو ابھی ڈھونڈا کہ نہیں !
مجھ کو تکمیل سمجھنے والا
اپنے معیار میں بدلا کہ نہیں !
گنگناتے ہوئے لمحوں میں اُسے
دھیان میرا کبھی آیا کہ نہیں !
بند کمرے میں کبھی میری طرح
شام کے وقت وہ رویا کہ نہیں !
میری خوداری برتنے والے!
تیر اپندار بھی ٹوٹا کہ نہیں !
الوداع ثبت ہُوئی تھی جس پر
اب بھی روشن ہے وہ ماتھا کہ نہیں !
پروین شاکر

وہ ذرا بھی نہیں بدلا، لوگو

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 44
بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا، لوگو
خُوش نہ تھا مُجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اُس کے چہرے پہ لکھا تھا،لوگو
اُس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں
رات بھر وہ بھی نہ سویا،لوگو
اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی
تھا کِسی وقت میں اپنا ،لوگو
دوست تو خیر کوئی کس کا ہے
اُس نے دشمن بھی نہ سمجھا،لوگو
رات وہ درد مرے دل میں اُٹھا
صبح تک چین نہ آیا ،لوگو
پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہُوئی
اَبر پھر ٹوٹ کے برسا،لوگو
پروین شاکر

ہجر کی شب اورایسا چاند؟

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 36
پُورا دکھ اور آدھا چاند!
ہجر کی شب اورایسا چاند؟
دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہُوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہو گا
اِتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اُٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے مُنہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
اِتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہو گا چاند
آنسو روکے نُور نہائے
دل دریا،تن صحرا چاند
اِتنے روشن چہرے پر بھی
سُورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
تونے کِس کو سوچا چاند
برگد کی ایک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند
بادل کے ریشم جُھولے میں
بھورسمے تک سویا چاند
رات کے شانوں پرسر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند
سُوکھے پتوں کے جُھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننّھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہو گا
اُس کی صُورت ہجر کا چاند
صحر اصحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق کا سچا چاند
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہو گا میرا چاند
پروین شاکر