ٹیگ کے محفوظات: سوگوار

وہ اِک نگاہ جو بیگانہ وار گُزری ہے

حجابِ رنگِ نظارہ پہ بار گُزری ہے
وہ اِک نگاہ جو بیگانہ وار گُزری ہے
بزعمِ عِشق اُبھر کے جو لَب پہ آ نہ سکی
وہ چیخ حُسنِ سماعت پہ بار گُزری ہے
شگُفتہ رنگ اُجالوں کے کارواں تو نہیں
مِری نگاہ فقط سیم بار گُزری ہے
تمھارے غم کا مجھے درد بے سبب تو نہیں
مری حیات بہت سوگوار گزری ہے
وہ ایک رات کہ جَب رَوشنی علیل رہی
وہ ایک رات بصد اِنتشار گُزری ہے
مِری نگاہ بُہت حق پسند ہے شاید
کبھی کبھی مُجھے خود ناگوار گزری ہے
مزاج حُسن بہ تمثیلِ برق کیوں ہے، شکیبؔ
صداے درد تھی سیماب وار گُزری ہے
شکیب جلالی

اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں

یہ جھاڑیاں ، یہ خار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں
ہر عندلیب مرگِ تبسّم پہ نوحہ خواں
ہر پھول سوگوار، کہاں آگیا ہُوں میَں
کیا واقعی نہیں ہے یہ موسیقیوں کا شہر
کیوں چُپ ہیں نغمہ کار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
پُھولوں کی سرزمیں ہے نہ خوشبو کی رَہ گزر
اے حسرتِ بہار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
جا تو رہا تھا چشمہِ آبِ حیات پر
یہ دُھول، یہ غبار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
رَہ زَن مُجھی سے پوچھ رہے ہیں مرا پتا
اے حُسنِ اعتبار! کہاں آگیا ہُوں مَیں
شکیب جلالی

چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 110
جلو میں اپنی رُتوں کے ہاتھوں سمیٹ لایا غبار کیا کیا
چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا
زبان پر ذہن سے نہ اُترے جو آ چکے تو اُسے چھپائیں
کہیں تو کس سے کہ بات کرنے کا ہے ہمیں اختیار کیا کیا
اُٹھا جو پانی کی سطح پر تو دکھائی دیتا تھا بلبلہ بھی
گرفت میں آب جُو کو لانے کے واسطے بے قرار کیا کیا
ہمارا دل ہی یہ بات جانے کہ حق سرائی کے بعد اِس کی
ہر ایک جانب اُٹھا کئے ہیں حقارتوں کے حصار کیا کیا
ہوا ہو یا برق و ابر اِن کا سلوک خستہ تنوں سے پوچھو
فتور رکھتے ہیں کھوپڑی میں چمن کے یہ تاجدار کیا کیا
کہیں جو بچپن کے آنگنوں میں اُتار لی تھی لہو میں ماجدؔ!
دل و نظر میں مچل رہی ہے ابھی وُہ سپنوں کی نار کیا کیا
ماجد صدیقی

ترا انتظار بہت کیا ترا انتظار بھی اب نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 133
نہ ہوا نصیب قرار جاں ہوس قرار بھی اب نہیں
ترا انتظار بہت کیا ترا انتظار بھی اب نہیں
تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے غم دیئے یہاں
تری یادگار تھی اک خلش تری یادگار بھی اب نہیں
نہ گلے رہے نہ گماں ہے نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
وہ نشاط وعدہ ءِ وصل کیا ہمیں اعتبار بھی اب نہیں
رہے نام رشتہ رفتگاں نہ شکایتیں ہیں نہ شوخیاں
کوئی عذر خواہ تو اب کہاں کوئی عذردار بھی اب نہیں
کسے نذر دیں دل و جاں بہم کہ نہیں وہ کاکل خم بہ خم
کسے ہر نفس کا حساب دیں کہ شمیم یار بھی اب نہیں
وہ ہجوم دل زدگاں کہ تھا تجھے مژدہ ہو کہ بکھر گیا
ترے آستانے کی خیرہو، سر رہ غبار بھی اب نہیں
وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے انہیں کیا خبر ہے کہ شہر میں
کسی جاں نثار کا ذکر کیا کوئی سوگوار بھی اب نہیں
نہیں اب تو اہل جنوں میں بھی وہ جو شوق شہر میں عام تھا
وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو سرکوئے یار بھی اب نہیں
جون ایلیا

ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 431
بڑی اداس بڑی بے قرار تنہائی
ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی
مجھے اداسیاں بچپن سے اچھی لگتی ہیں
مجھے عزیز مری اشکبار تنہائی
فراق یہ کہ وہ آغوش سے نکل جائے
وصال یہ کرے بوس و کنار تنہائی
پلٹ پلٹ کے مرے پاس آئی وحشت سے
کسی کو دیکھتے ہی بار بار تنہائی
مرے مزاج سے اس کا مزاج ملتا ہے
میں سوگوار … تو ہے سوگوار تنہائی
کوئی قریب سے گزرے تو جاگ اٹھتی ہے
شبِ سیہ میں مری جاں نثار تنہائی
مجھے ہے خوف کہیں قتل ہی نہ ہو جائے
یہ میرے غم کی فسانہ نگار تنہائی
نواح جاں میں ہمیشہ قیام اس کا تھا
دیارِ غم میں رہی غمگسار تنہائی
ترے علاوہ کوئی اور ہم نفس ہی نہیں
ذرا ذرا مجھے گھر میں گزار تنہائی
یونہی یہ شہر میں کیا سائیں سائیں کرتی ہے
ذرا سے دھیمے سروں میں پکار تنہائی
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق
کسی کا پھر بھی مجھے انتظار، تنہائی
جو وجہ وصل ہوئی سنگسار تنہائی
تھی برگزیدہ ، تہجد گزار تنہائی
مری طرح کوئی تنہا اُدھر بھی رہتا ہے
بڑی جمیل، افق کے بھی پار تنہائی
کسی سوار کی آمد کا خوف ہے، کیا ہے
بڑی سکوت بھری، کوئے دار، تنہائی
دکھا رہی ہے تماشے خیال میں کیا کیا
یہ اضطراب و خلل کا شکار تنہائی
بفیضِ خلق یہی زندگی کی دیوی ہے
کہ آفتاب کا بھی انحصار تنہائی
اگرچہ زعم ہے منصور کو مگر کیسا
تمام تجھ پہ ہے پروردگار تنہائی
منصور آفاق