ٹیگ کے محفوظات: سومنات

حَلف اُٹھایا مگر سچ نہ کہی کوئی بات

پڑھتا ہوں بے شک نماز بھول گیا میں صلات
حَلف اُٹھایا مگر سچ نہ کہی کوئی بات
خواہشِ زر کی سدا مجھ پہ حکومت رہی
جسم حرَم ہے مرا ذہن مگر سومنات
کتنا ہی ناپاک ہو مال سمیٹا ہُوا
پاک سمجھتا ہوں میں دے کے ذرا سی زکات
باندھوں کہ کھولوں اِنہیں رہتی ہے یہ کشمکش
اِس لیے گویا مجھے تُو نے دئیے تھے یہ ہات
مجھ سے ہیں بہتر شجر اور چرند و پرند
پاس تِرے حُکم کا کرتے ہیں دِن ہو کہ رات
اپنا کرَم کر کہ کُچھ اِن میں نَم و دَم پڑے
سوکھ چلا ہے قلم خشک ہوئی ہے دوات
باصر کاظمی

لاتے ہیں ایک قبر کی چادر بھی سات ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 144
بازار سے ہر عید سے پہلے کی رات ہم
لاتے ہیں ایک قبر کی چادر بھی سات ہم
تاریخ نے دئیے ہیں ہمیں نام کیا سے کیا
کرنے گئے جو زیرِ نگیں سومنات ہم
تیور ہی اہلِعدل کے کچھ اس طرح کے تھے
پلٹے ہیں حلق ہی میں لیے اپنی بات ہم
لینے دیا جو تنُدیٔ موسم نے دم کبھی
نکلیں گے ڈھونڈنے کو کہیں پھول پات ہم
اپنے سفر کی سمت ہی الٹی ہے جب توکیوں
کرتے پھریں تلاش نہ راہِ نجات ہم
دربار میں نزاکت احساس کب روا
ماجدؔ کسے سُجھائیں نظر کے نکات ہم
ماجد صدیقی

سومنات

نئے سرے سے غضب کی سج کر

عجوزہ ءِ سومنات نکلی،

مگر ستم پیشہ غزنوی

اپنے حجلہ ءِ خاک میں ہے خنداں____

وہ سوچتا ہے:

بھری جوانی سہاگ لوٹا تھا میں نے اس کا،

مگر مرا ہاتھ

اس کی روحِ عظیم پر بڑھ نہیں سکا تھا

اور اب فرنگی یہ کہہ رہا ہے:

کہ آؤ آؤ اس ہڈیوں کے ڈھانچے کو

جس کے مالک تمھیں ہو

ہم مل کے نورِ کمخواب سے سجائیں!

وہ جانتا ہے،

وہ نورِ کمخواب چین و ما چین میں نہیں ہے

کہ جس کی کرنوں میں

ایسا آہنگ ہو کہ گویا

وہی ہو ستار عیب بھی

اورپردہ ءِ ساز بھی وہی ہو!

عجوزہ ءِ سومنات کے اس جلوس میں ہیں

عقیم صدیوں کا علم لادے ہوئے برہمن

جو اک نئے سامراج کے خواب دیکھتے ہیں

اور اپنی توندوں کے بل پہ چلے ہوئے مہاجن

حصولِ دولت کی آرزو میں بہ جبر عریاں،

جو سامری کے فسوں کی قاتل حشیش پی کر

ہیں رہگزاروں میں آج پا کوب ومست و غلطاں

دف و دہل کی صدائے دلدوز پر خروشاں!

کسی جزیرے کی کور وادی کے

وحشیوں سے بھی بڑھ کے وحشی،

کہ اُن کے ہونٹوں سے خوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں

اور اُن کے سینوں پہ کاسہ ءِ سر لٹک رہے ہیں

جو بن کے تاریخ کی زبانیں

سنا رہے ہیں فسانہ ءِ صد ہزار انساں!

اور اُن کے پیچھے لڑھکتے، لنگڑاتے آ رہے ہیں

کچھ اشتراکی،

کچھ اُن کے احساس شناس مُلّا

بجھا چکے ہیں جو اپنے سینے کی شمعِ ایقاں!

مگر سرِ راہ تک رہے ہیں

کبھی تو دہشت زدہ نگاہوں سے

اور کبھی یاسِ جاں گزا سے

غریب و افسردہ دل مسلماں،

جو سوچتے ہیں،

کہ اے خدا

آج اپنے آبا کی سر زمیں میں

ہم اجنبی ہیں،

ہدف ہیں نفرت کے ناوکِ تیز و جانستاں کے!

منو کے آئیں کا ظلم سہتے ہوئے ہریجن

کہ جن کا سایہ بھی برہمن کے لیے

ہے دزدِ شبِ زمستاں

وہ سوچتے ہیں:

کہیں یہ ممکن ہے:

بیچ ڈالے گا

ہم کو بردہ فروشِ افرنگ

اب اسی برہمن کے ہاتھوں

کہ جس کی صدیوں پرانے سیسے سے

آج بھی کور و کر ہیں سب ہم!

جو اَب بھی چاہے

تو روک لے ہم سے نورِ عرفاں!‘‘

ستم رسیدہ نحیف و دہقاں

بھی اس تماشے کو تک رہا ہے،

اُسے خبر بھی نہیں کہ آقا بدل رہے ہیں

وہ اس تماشے کو

طفلِ کمسن کی حیرتِ تابناک سے محض دیکھتا ہے!

جلوس وحشی کی آز سے

سب کو اپنی جانب بلا رہا ہے

کہ ربّہ ءِ سومنات کی بارگاہ میں آکے سرجھکاؤ!

مگر وہ حسِ ازل

جو حیواں کو بھی میسر ہے

سب تماشائیوں سے کہتی ہے:

اس سے آگے اجل ہے

بس مرگِ لم یزل ہے!

اسی لیے وہ کنارِ جادہ پر ایستادہ ہیں، دیکھتے ہیں!

ن م راشد

نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا

دیوان دوم غزل 664
ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا
بکھری ہے زلف اس رخ عالم فروز پر
ورنہ بنائو ہووے نہ دن اور رات کا
در پردہ وہ ہی معنی مقوم نہ ہوں اگر
صورت نہ پکڑے کام فلک کے ثبات کا
ہیں مستحیل خاک سے اجزاے نوخطاں
کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا
مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ
عیسیٰ و خضر کو ہے مزہ کب وفات کا
اشجار ہوویں خامہ و آب سیہ بحار
لکھنا نہ تو بھی ہوسکے اس کی صفات کا
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
ہے دید چشم دل کے کھلے عین ذات کا
ہر صفحے میں ہے محو کلام اپنا دس جگہ
مصحف کو کھول دیکھ ٹک انداز بات کا
ہم مذنبوں میں صرف کرم سے ہے گفتگو
مذکور ذکر یاں نہیں صوم و صلوٰت کا
کیا میر تجھ کو نامہ سیاہی کا فکر ہے
ختم رسل سا شخص ہے ضامن نجات کا
میر تقی میر

اک نئی کائنات سے گزرا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 28
جب بھی میں کشفِ ذات سے گزرا
اک نئی کائنات سے گزرا
ہاتھ میں لالٹین لے کر میں
جبر کی کالی رات سے گزرا
آتی جاتی ہوئی کہانی میں
کیا کہوں کتنے ہاتھ سے گزرا
موت کی دلکشی زیادہ ہے
میں مقامِ ثبات سے گزرا
جستہ جستہ دلِ تباہ مرا
جسم کی نفسیات سے گزرا
لمحہ بھر ہی وہاں رہا لیکن
میں بڑے واقعات سے گزرا
لفظ میرا ترے تعاقب میں
حوضِ آبِ حیات سے گزرا
ایک تُو ہی نہیں ہے غم کا سبب
دل کئی حادثات سے گزرا
یہ بھی اِنکار کی تجلی ہے
ذہن لات و منات سے گزرا
دستِ اقبال تھام کر منصور
کعبہ و سومنات سے گزرا
منصور آفاق