ٹیگ کے محفوظات: سواری

آنکھیں ہی چلی گئیں ہماری

پڑھنی تھی کتابِ زیست ساری
آنکھیں ہی چلی گئیں ہماری
تھی آج تو بات ہی کچھ اور
تصویر اُتارتے تمہاری
ہیں چار طرف کے راستے بند
گزرے گی یہاں سے اک سواری
خوش ہو گئے دو گھڑی کچھ یار
سُبکی تو بہت ہوئی ہماری
ثابت کرو اپنے دعوے باصرِؔ
شیخی تو جناب نے بگھاری
باصر کاظمی

پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 231
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
مری حالت سُدھاری جا رہی ہے
جو اِن روزوں مراغم ہے وہ یہ ہے
کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے
ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے
میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہے
وہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہے
دل اُس کے رُوبرو ہے اور گُم صُم
کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے
وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزت ہماری جا رہی ہے
ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے
وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رُخصت
میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے
دریغا ! تیری نزدیکی میاں جان
تری دوری پہ واری جا رہی ہے
بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ
تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے
تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے
خرابے میں عجب تھا شور برپا
دلوں سے انتظاری جا رہی ہے
جون ایلیا

یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 227
عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے
سخن میرا اداسی ہے سرِ شام
جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے
بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے
وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا
مری آواز بھاری ہو گئی ہے
دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی
بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے
یقیں معزور ہے اب اور گماں بھی
بڑی بے روزگاری ہو گئی ہے
وہ اک بادِ شمالی رنگ جو تھی
شمیم اس کی سواری ہو گئی ہے
مرے پاس آکے خنجر بھونک دے تُو
بہت نیزہ کزاری ہو گئی ہے
جون ایلیا

وصل ہے اور فراق طاری ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 207
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمھاری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتطاری ہے
ایک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امید واری ہے
جون ایلیا

ہر اک اُس سرکار کا چاکر، اُس در کا درباری ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 300
جو بھی سورج، چاند، ستارہ، خوشبو، بادِ بہاری ہے
ہر اک اُس سرکار کا چاکر، اُس در کا درباری ہے
لوگو، تم اس منظر شب کو کاہکشاں بتلاتے ہو
یہ تو اُنؐ کی خاک گزر ہے، اُنؐ کی گردِ سواری ہے
سر پر بوجھ گناہوں کا اور دل میں آس شفاعت کی
آگے رحمت اُنؐ کی ویسے مجرم تو اقراری ہے
اُنؐ کے کرم کے صدقے سب کے بند گراں کھل جاتے ہیں
داد طلب کہیں چڑیاں ہیں، کہیں آہوئے تاتاری ہے
عالم عالم دھوم مچی ہے اُنؐ کے لطف و عنایت کی
بستی بستی، صحرا صحرا فیض کا دریا جاری ہے
بزم وفا صدیقؓ و عمرؓ، عثمانؓ و علیؓ سے روشن ہے
چار ستارے، چاروں پیارے، چار کی آئینہ داری ہے
اُنؐ کی ذات پاک سے ٹھہرا اُن کا سارا گھرانہ پاک
جس کے لیے تطہیر کی چادر اُنؐ کے رب نے اُتاری ہے
عرفان صدیقی

دریا سے پوچھو، رات یہ ہم نے کیسے گزاری دریا کنارے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 265
کشتی تو اپنی خود ہی جلا دی، بستی ہماری دریا کنارے
دریا سے پوچھو، رات یہ ہم نے کیسے گزاری دریا کنارے
برفیلی رُت نے جب بھی تمہاری مٹّی کا دانہ پانی چرایا
دیکھو پرندو‘ رب نے تمہاری روزی اتاری دریا کنارے
تم بھی مسافر کتنے دلاور‘ ہم بھی مسافر کیسے شناور
آندھی کے پیچھے جنگل سے ناتا‘ دریا سے یاری دریا کنارے
ریتی کے پیلے دامن پہ ہم بھی رنگِ حنا سے بکھرے پڑے ہیں
موجِ بہاراں‘ آئے گی کب تک تیری سواری دریا کنارے
تمثیل سمجھو یا استعارہ اتنا سا لوگو، قصہ ہمارا
آنکھوں میں اپنی پھولوں سے چہرے، چہروں کی کیاری دریا کنارے
عرفان صدیقی

ہاتھ بندھے ہوں سینے پر دل بیعت سے انکاری ہو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 121
ایک طریقہ یہ بھی ہے جب جینا اک ناچاری ہو
ہاتھ بندھے ہوں سینے پر دل بیعت سے انکاری ہو
جشن ظفر ایک اور سفر کی ساعت کا دیباچہ ہے
خیمۂ شب میں رقص بھی ہو اور کوچ کی بھی تیاری ہو
اس سے کم پر رم خور دوں کا کون تعاقب کرتا ہے
یا بانوئے کوئے اودھ ہو یا آہوئے تتاری ہو
دائم ہے سلطانی ہم شہزادوں خاک نہادوں کی
برق و شرر کی مسند ہو یا تختِ بادِ بہاری ہو
ہم تو رات کا مطلب سمجھیں خواب، ستارے، چاند، چراغ
آگے کا احوال وہ جانے جس نے رات گزاری ہو
MERGED ایک طریقہ یہ بھی ہے جب جینا اک ناچاری ہو
ہاتھ بندھے ہوں سینے پر، دل بیعت سے انکاری ہو
جشنِ ظفر ایک اور سفر کی ساعت کا دیباچہ ہے
خیمۂ شب میں رقص بھی ہو اور کوچ کی بھی تیاری ہو
ہم تو رات کا مطلب سمجھیں، خواب، ستارے، چاند، چراغ
آگے کا احوال وہ جانے جس نے رات گزاری ہو
چشمِ طلب کو منظرِ شب میں اکثر ایسا لگتا ہے
خاکِ گزر کے پیچھے جیسے پیکِ سحر کی سواری ہو
عرفان صدیقی

اب تعلق میں بردباری چھوڑ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 256
وحشتیں اوڑھ، انتظاری چھوڑ
اب تعلق میں بردباری چھوڑ
دیکھنا چاند کیا سلاخوں سے
کج نظر سارتر سے یاری چھوڑ
دستِ ابلیس سے ثواب نہ پی
یہ تہجد کی بادہ خواری چھوڑ
زندہ قبروں پہ پھول رکھنے آ
مرنے والوں کی غم گساری چھوڑ
مردہ کتے کا دیکھ لے انجام
مشورہ مان، شہریاری چھوڑ
کچھ تو اعمال میں مشقت رکھ
یہ کرم کی حرام کاری چھوڑ
صبح کی طرح چل! برہنہ ہو
یہ اندھیرے کی پردہ داری چھوڑ
توڑ دے ہجر کے کواڑوں کو
اب دریچوں سے چاند ماری چھوڑ
بھونک اب جتنا بھونک سکتا ہے
ظلم سے التجا گزاری چھوڑ
آج اس سے تُو معذرت کر لے
یہ روایت کی پاس داری چھوڑ
رکھ بدن میں سکوت مٹی کا
یہ سمندر سی بے قراری چھوڑ
چھوڑ آسانیاں مصائب میں
دشت میں اونٹ کی سواری چھوڑ
یہ سفیدی پھری ہوئی قبریں
چھوڑ عیسیٰ کے یہ حواری چھوڑ
شہرِ غالب سے بھاگ جا منصور
میر جیسی غزل نگاری چھوڑ
منصور آفاق