جو بھی آیا تھا خیال اُ ن کو وہ آیا کیوں تھا؟
دفعتاً دیکھ کے نظروں کو جُھکایا کیوں تھا؟
اب اگر ٹوٹ گیا ہے تو شکایت کیسی؟
دل تو شیشہ ہی تھا، پتھر سے لگایا کیوں تھا؟
آئینہ دیکھ کر آئینے سے لڑنے والے
تو بھلا سامنے آئینے کے آیا کیوں تھا؟
آپ کی دَین ہیں پلکوں پہ یہ رقصاں موتی
اب ہے احساسِ ندامت تو رُلایا کیوں تھا؟
خواہشِ پُرسشِ احوال نہ تھی گر ضامنؔ
تم نے ایک ایک کو دکھ اپنا سنایا کیوں تھا؟
ضامن جعفری