ٹیگ کے محفوظات: سم

دیکھنا دل میں خوشی آئی، کوئی غم تو نہیں؟

درد کے پُھولوں کا آیا ابھی موسم تو نہیں
دیکھنا دل میں خوشی آئی، کوئی غم تو نہیں؟
ایڑیاں رگڑی ہیں اور داد طلب پھرتا ہوں
اشک ہی پھوٹے ہیں اس سے، کوئی زمزم تو نہیں!
یہ جو سب وعدۂ جنّت پہ مرے جاتے ہیں
زندگی کا یہی اک پہلُو جہنم تو نہیں
دن ہوا قتل، لہُو کتنا اُفق میں اترا
جو مری آنکھوں میں اترا ہے مگر، کم تو نہیں
یہ ملن تیرا تو اب جان مری لینے لگا
جس کو تریاق سمجھ بیٹھا تھا میں، سَم تو نہیں؟
دل کا یہ درد کہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
کونسا ہے یہ مہینہ؟ یہ مُحرّم تو نہیں
میرا بن باس تو لوگوں میں ہی رہنا ٹھہرا
میں کہ بس پیکرِ اخلاص ہوں، گوتم تو نہیں
یاور ماجد

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
مُڑنے والی تھی وُہ ساحل کی طرف یم کی طرح
اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح
اُس کی انگڑائی میں دعوت تھی بہ اندازِ دگر
ابروؤں میں آنے والے دلنشیں خم کی طرح
پیش قدمی میں عجب امرت تھا پھیلا چار سُو
اُس کا ہر ہٹتا قدم لگنے لگا سم کی طرح
کہہ رہا تھا مجھ سے جیسے اُس کا فردوسِ بدن
دیکھنا رہ سے بھٹک جانا نہ آدم کی طرح
نشّۂ دیدار اُس کا اب کے تھا کُچھ اور ہی
آنکھ میں اُتری لگی وُہ کیفِ پیہم کی طرح
یہ بدن ماجِد سحرآثار ہو جانے لگا
اس سے ملنے کا اثر تھا گل پہ شبنم کی طرح
ماجد صدیقی

کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
جیون رُت کی سختی بے موسم لگتی ہے
کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے
صبحِ سفر یادوں میں اُترتی ہے یوں جیسے
رفتہ رفتہ رات کی چادر نم لگتی ہے
سوچیں خلق کے حق میں اچّھا سوچنے والے
خلق اُنہی سے آخر کیوں برہم لگتی ہے
ان سے توقّع داد کی ہم کیا رکھیں جن کے
بات لبوں کے بیچ سے پھوٹی سم لگتی ہے
بات فقط اک لمبی دیر گزرنے کی ہے
جگہ جگہ پر کیا کیا کھوپڑی، خم لگتی ہے
بَیری رات کے آخر میں جو جا کے بہم ہو
آنکھ کنارے اٹکی وہ شبنم لگتی ہے
کچھ تو اندھیرا بھی خاصا گمبھیر ہوا ہے
کچھ ماجدؔ لَو دیپ کی بھی مدّھم لگتی ہے
ماجد صدیقی

خُشکیاں اپنے یہاں کی اور ہیں، نم اور ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
بانجھ ہے برکھا پون،آنکھوں کا موسم اور ہے
خُشکیاں اپنے یہاں کی اور ہیں، نم اور ہے
خون میں اُترے فقط، گمراہی افکار سے
دی نہ جائے اور جاں لیوا ہو جو، سَم اور ہے
ناتوانوں کے کوائف، جام میں کر لے کشید
ہم ہوئے جس عہد میں، اِس عہد کا جم اور ہے
چیت کی رُت میں، غزالوں کے بدن کی شاعری
اور ہے، اور خوف میں اُلجھا ہوا رم، اور ہے
میں بھی دے بیٹھا ہوں دل ماجدؔ، مگر یہ جان کر
ابروؤں کا اور ہے، دیوار کا خم اور ہے
ماجد صدیقی

کون کہے یہ رنج نظر کا کب جا کر کم ہونا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
جب تک گرد گُلوں پر ہے اِن آنکھوں کو نم ہونا ہے
کون کہے یہ رنج نظر کا کب جا کر کم ہونا ہے
رفتہ رفتہ اندر سے دیمک سا اُنہیں جو چاٹ سکے
ایمانوں میں زہر ریا کا اور ابھی ضم ہونا ہے
جانے کب تک ٹوہ لگانے اِک اِک جابر موسم کی
دل کو ساغر میں ڈھلنا ہے اور ہمیں جم ہونا ہے
ایک خُدا سے ہٹ کر بھی کچھ قادر راہ میں پڑتے ہیں
جن کی اُونچی دہلیزوں پر اِس سر کو خم ہونا ہے
آگے کی یہ بات کہاں بتلائے لُغت اُمیدوں کی
کان میں پڑنے والے کن کن لفظوں کو سم ہونا ہے
اور طرح سے بدلے دیکھے اَبکے گھاٹ مچانوں میں
تیروں پر تحریر جہاں ہر آہو کا رَم ہونا ہے
دل کو جو بھی آس لگی وُہ خوابِ جِناں بن جائے گی
دریاؤں کو جیسے ماجدؔ بحر میں مدغم ہونا ہے
ماجد صدیقی

زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
مہرِ رخشاں رات میں ضم ہو گیا
زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا
لکھ رہا تھا جانے کیا کاغذ پہ میں
آنکھ بھر آنے سے جو نم ہو گیا
دل نجانے ہم سخن کس سے ہوا
حرف کا امرت بھی ہے سم ہو گیا
ڈوبتے ہی اِک ذرا اُس ماہ کے
دیکھیے کیا دل کا عالم ہو گیا
کم نہیں یہ مُعجزہ اِس دَور کا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ جم ہو گیا
بچ کے ماجدؔ جس سے نکلے تھے کبھی
سر اُسی دہلیز پر خم ہو گیا
ماجد صدیقی

پوچھئے گا نہ بات یہ ہم سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
کیوں خفا ہیں ہم ابنِ آدم سے
پوچھئے گا نہ بات یہ ہم سے
ہم اور اُس سے صفائیاں مانگیں
باز آئے ہم ایسے اودھم سے
اب تو ہے جاں کا بھی زیاں اِس میں
نشّہِ درد کم نہیں سم سے
جب سے اُبھرے نشیب سے ہم بھی
لوگ رہتے ہیں ہم سے برہم سے
کوئی خواہش بھی لَو نہ دے ماجدؔ
ہو گئے سب چراغ مدّھم سے
ماجد صدیقی

شہد میں گھول کے سم دیتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
دل کو تسکیں جو صنم دیتے ہیں
شہد میں گھول کے سم دیتے ہیں
دل کو پتھّر نہ سمجھنا مری جاں
لے تجھے ساغرِ جم دیتے ہیں
ظرف کی داد یہی ہو جیسے
دینے والے ہمیں غم دیتے ہیں
دست کش ہو کے بھی دیکھیں تو سہی
یوں بھی کیا اہلِ کرم دیتے ہیں
چھینتے ہیں وہ نوالے ہم سے
اور بقا کو ہمیں بم دیتے ہیں
خود خزاں رنگ ہیں لیکن ماجدؔ
ہم بہاروں کو جنم دیتے ہیں
ماجد صدیقی

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 75
ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 30
جب رقیبوں کا ستم یاد آیا
کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا
کب ہمیں حاجتِ پرہیز پڑی
غم نہ کھایا تھا کہ سم یاد آیا
نہ لکھا خط کہ خطِ پیشانی
مجھ کو ہنگامِ رقم یاد آیا
شعلۂ زخم سے اے صید فگن
داغِ آہوئے حرم یاد آیا
ٹھیرے کیا دل کہ تری شوخی سے
اضطرابِ پئے ہم یاد آیا
خوبیِ بخت کہ پیمانِ عدو
اس کو ہنگامِ قسم یاد آیا
کھل گئی غیر سے الفت اس کی
جام مے سے مجھے جم یاد آیا
وہ مرا دل ہے کہ خود بینوں کو
دیکھ کر آئینہ کم یاد آیا
کس لئے لطف کی باتیں ہیں پھر
کیا کوئی اور ستم یاد آیا
ایسے خود رفتہ ہو اے شیفتہ کیوں
کہیں اس شوخ کا رم یاد آیا
مصطفٰی خان شیفتہ

چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا

دیوان دوم غزل 677
خط سے وہ زور صفاے حسن اب کم ہو گیا
چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا
سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہونے میں رہی
حق بجانب تھا ہمارے سخت ماتم ہو گیا
ایک سا عالم نہیں رہتا ہے اس عالم کے بیچ
اب جہاں کوئی نہیں یاں ایک عالم ہو گیا
آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا
زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہو گیا
اس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
آب حیواں یمن طالع سے مرے سم ہو گیا
وقت تب تک تھا تو سجدہ مسجدوں میں کفر تھا
فائدہ اب جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا
عشق ان شہری غزالوں کا جنوں کو اب کھنچا
وحشت دل بڑھ گئی آرام جاں رم ہو گیا
جی کھنچے جاتے ہیں فرط شوق سے آنکھوں کی اور
جن نے دیکھا ایک دم اس کو سو بے دم ہو گیا
ہم نے جو کچھ اس سے دیکھا سو خلاف چشم داشت
اپنا عزرائیل وہ جان مجسم ہو گیا
کیا کہوں کیا طرحیں بدلیں چاہ نے آخر کو میر
تھا گرہ جو درد چھاتی میں سو اب غم ہو گیا
میر تقی میر

ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں

دیوان اول غزل 365
تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں
ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں
نہ کچھ کاغذ میں ہے تہ نے قلم کو درد نالوں کا
لکھوں کیا عشق کے حالات نامحرم ہیں یہ دونوں
لہو آنکھوں سے بہتے وقت رکھ لیتا ہوں ہاتھوں کو
جراحت ہیں اگر وے دونوں تو مرہم ہیں یہ دونوں
کسو چشمے پہ دریا کے دیا اوپر نظر رکھیے
ہمارے دیدئہ نم دیدہ کیا کچھ کم ہیں یہ دونوں
لب جاں بخش اس کے مار ہی رکھتے ہیں عاشق کو
اگرچہ آب حیواں ہیں ولیکن سم ہیں یہ دونوں
نہیں ابرو ہی مائل جھک رہی ہے تیغ بھی ایدھر
ہمارے کشت و خوں میں متفق باہم ہیں یہ دونوں
کھلے سینے کے داغوں پر ٹھہر رہتے ہیں کچھ آنسو
چمن میں مہر ورزی کے گل و شبنم ہیں یہ دونوں
کبھو دل رکنے لگتا ہے جگر گاہے تڑپتا ہے
غم ہجراں میں چھاتی کے ہماری جم ہیں یہ دونوں
خدا جانے کہ دنیا میں ملیں اس سے کہ عقبیٰ میں
مکاں تو میر صاحب شہرئہ عالم ہیں یہ دونوں
میر تقی میر

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

دیوان اول غزل 102
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرئہ خوں تھا مژہ پر جم رہا
سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ
اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا
جامۂ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا
زلفیں کھولیں تو تو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کام دل برہم رہا
اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آب حیواں سم رہا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
صبح پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا
میر تقی میر

پھر ان دنوں میں دیدئہ خونبار نم ہوا

دیوان اول غزل 62
سمجھے تھے میر ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
پھر ان دنوں میں دیدئہ خونبار نم ہوا
آئے برنگ ابر عرق ناک تم ادھر
حیران ہوں کہ آج کدھر کو کرم ہوا
تجھ بن شراب پی کے موئے سب ترے خراب
ساقی بغیر تیرے انھیں جام سم ہوا
کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں
بیت الحرام تھا سو وہ بیت الصنم ہوا
خانہ خراب کس کا کیا تیری چشم نے
تھا کون یوں جسے تو نصیب ایک دم ہوا
تلوار کس کے خون میں سر ڈوب ہے تری
یہ کس اجل رسیدہ کے گھر پر ستم ہوا
آئی نظر جو گور سلیماں کی ایک روز
کوچے پر اس مزار کے تھا یہ رقم ہوا
کاے سرکشاں جہان میں کھینچا تھا میں بھی سر
پایان کار مور کی خاک قدم ہوا
افسوس کی بھی چشم تھی ان سے خلاف عقل
بار علاقہ سے تو عبث پشت خم ہوا
اہل جہاں ہیں سارے ترے جیتے جی تلک
پوچھیں گے بھی نہ بات جہاں تو عدم ہوا
کیا کیا عزیز دوست ملے میر خاک میں
نادان یاں کسو کا کسو کو بھی غم ہوا
میر تقی میر