درد کے پُھولوں کا آیا ابھی موسم تو نہیں
دیکھنا دل میں خوشی آئی، کوئی غم تو نہیں؟
ایڑیاں رگڑی ہیں اور داد طلب پھرتا ہوں
اشک ہی پھوٹے ہیں اس سے، کوئی زمزم تو نہیں!
یہ جو سب وعدۂ جنّت پہ مرے جاتے ہیں
زندگی کا یہی اک پہلُو جہنم تو نہیں
دن ہوا قتل، لہُو کتنا اُفق میں اترا
جو مری آنکھوں میں اترا ہے مگر، کم تو نہیں
یہ ملن تیرا تو اب جان مری لینے لگا
جس کو تریاق سمجھ بیٹھا تھا میں، سَم تو نہیں؟
دل کا یہ درد کہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
کونسا ہے یہ مہینہ؟ یہ مُحرّم تو نہیں
میرا بن باس تو لوگوں میں ہی رہنا ٹھہرا
میں کہ بس پیکرِ اخلاص ہوں، گوتم تو نہیں
یاور ماجد