بس اک شعاعِ نُور سے سایہ سمٹ گیا
وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دُور ہٹ گیا
پھر درمیانِ عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی
پھر مجمعِ حواس گروہوں میں بٹ گیا
کیا اب بھی تیری خاطرِ نازک پہ بار ہُوں
پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا
وہ لمحہِ شعور جسے جاں کَنی کہیں
چہرے سے زندگی کے، نقابیں اُلٹ گیا
اب کون جائے، کُوئے ملامت سے لوٹ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
آخر، شکیبؔ! خُوے سِتم اس نے چھوڑ دی
ذوقِ سفر کو دیکھ کے صحرا سمٹ گیا
شکیب جلالی