ٹیگ کے محفوظات: سمن

دیوانے شہرِ سرو و سَمن چھوڑ آئے ہیں

جنگل میں پھر رہے ہیں ، چمن چھوڑ آئے ہیں
دیوانے شہرِ سرو و سَمن چھوڑ آئے ہیں
اس کا علاج کر نہ سکے گی کبھی بہار
پھولوں میں چٹکیوں کی دُکھن چھوڑ آئے ہیں
چبھتی ہیں ان کی رُوح میں پھانسیں بہار کی
جو لوگ فصلِ گل میں چمن چھوڑ آئے ہیں
زنداں سے ساتھ لائے ہیں زنجیرِ خامشی
دیوانے رسمِ دار و رسن چھوڑ آئے ہیں
اے اجنبی دیار! محبت کی اک نگاہ!
ہم خانماں خراب وطن چھوڑ آئے ہیں
کچھ تم نے چُن لیے ہیں ہمارے طریقِ زیست
کچھ ہم خصوصیاتِ کُہن چھوڑ آئے ہیں
کاش ان کی جستجو کو اُٹھیں کاروانِ نو
کچھ نقشِ پا شہیدِ وطن چھوڑ آئے ہیں
خوابوں کی دیویوں نے بلایا ہے جب، شکیبؔ
ہم دو جہاں بچشمِ زَدَن چھوڑ آئے ہیں
شکیب جلالی

غُربَت نَصیب خوابِ وَطَن دیکھتے رَہے

ہَم اِفتراقِ رُوح و بَدَن دیکھتے رَہے
غُربَت نَصیب خوابِ وَطَن دیکھتے رَہے
کیسے ہُوئے شَریکِ بَہاراں نہ پُوچھیے
ہَم رَوزَنِ قَفَس سے چَمَن دیکھتے رَہے
کِس کو بھَلا تھی جُراتِ اعلانِ حَرفِ حَق
حَسرَت سے سَب کو دار و رَسَن دیکھتے رَہے
تَرکِ تَعَلُّقات کا مَنظَر عَجیب تھا
چیِنِ جبیِنِ وعدہ شکَن دیکھتے رَہے
کُہرامِ آگَہی تھا ہر اِک سُو خزاں بَدوش
جہلِ خِرَد کے سَرو و سَمَن دیکھتے رَہے
دادِ سُخَن میں اُن کے کِسی کو نہ ہوش تھا
اِک ہَم ہی تھے جو رُوئے سُخَن دیکھتے رَہے
ضامنؔ! شِگُفتِ عالَمِ تَنہائی کیا کَہیَں !
ہَر گام ایک نَقشِ کُہَن دیکھتے رَہے
ضامن جعفری

سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی تیرے دَور میں ساقی
یہ دَور میری شرابِ کہن کو ترسے گا
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ
زمانہ صحبتِ اربابِ فن کو ترسے گا
بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایہِ سرو و سمن کو ترسے گا
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اِک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا
ناصر کاظمی

گل کیا غبارِ بوئے سمن کو ترس گئے

مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے
گل کیا غبارِ بوئے سمن کو ترس گئے
ہاں اے سکوتِ تشنگیٔ درد کچھ تو بول
کانٹے زباں کے آبِ سخن کو ترس گئے
دل میں کوئی صدا ہے نہ آنکھوں میں کوئی رنگ
تن کے رفیق صحبتِ تن کو ترس گئے
اِس عہدِ نو میں قدرِ متاعِ وفا نہیں
اس رسم و راہِ عہدِ کہن کو ترس گئے
منزل کی ٹھنڈکوں نے لہو سرد کر دیا
جی سُست ہے کہ پاؤں چبھن کو ترس گئے
اندھیر ہے کہ جلوۂ جاناں کے باوجود
کوچے نظر کے ایک کرن کو ترس گئے
ناصر کاظمی

لو کر چلے ہیں، سارے پرندے، سخن تمام

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
خاموشیوں میں ڈوب گیا ہے، گگن تمام
لو کر چلے ہیں، سارے پرندے، سخن تمام
وہ خوف ہے، کہ شدّتِ طوفاں کے بعد بھی
دبکے ہوئے ہیں باغ میں، سرو و سمن تمام
وُہ فرطِ قحطِ نم ہے کہ ہر شاخ ہے سلاخ
پنجرے کو مات کرنے لگا ہے، چمن تمام
کس تُندیٔ پیام سے بادِ صبا نے بھی
فرعون ہی کے، سیکھ لئے ہیں چلن تمام
ماجد یہ کس قبیل کے مہتاب ہم ہوئے
لکّھے ہیں، اپنے نام ہی جیسے گہن تمام
ماجد صدیقی

جیسے ہربات میں ہو تیرے بدن کی خوشبو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
لفظ در لفظ ہے یُوں اب کے سخن کی خوشبو
جیسے ہربات میں ہو تیرے بدن کی خوشبو
اذن کی آنچ سے بے ساختہ دہکے ہوئے گال
جسم امڈی ہوئی جس طرح چمن کی خوشبو
نقش ہے یاد پہ ٹھہرے ہوئے ہالے کی طرح
وصل کے چاند کی اک ایک کرن کی خوشبو
گلشنِ تن سے ترے لوٹ کے بھی ساتھ رہی
کُنج در کُنج تھی کیا سرو و سمن کی خوشبو
تجھ سے دوری تھی کچھ اس طرح کی فاقہ مستی
جیسے مُدّت سے نہ آئے کبھی اَن کی خوشبو
ذکرِ جاناں سے ہے وُہ فکر کا عالم ماجدؔ!
جیسے آغاز میں باراں کے ہو بن کی خوشبو
ماجد صدیقی

آزردہ ہو نہ بلبل جاتے ہیں ہم چمن سے

دیوان سوم غزل 1306
نکلے ہے جی کا رستہ آواز کی رکن سے
آزردہ ہو نہ بلبل جاتے ہیں ہم چمن سے
جی غش کرے ہے اب تو رفتار دیکھ اس کی
دیکھیں نبھے ہے اپنی کس طور اس چلن سے
گر اس کی اور کوئی گرمی سے دیکھتا ہے
اک آگ لگ اٹھے ہے اپنے تو تن بدن سے
رنگیں خرامی کیا کیا لیتی ہے کھینچ دل کو
کیا نقش پا کو اس کے نسبت گل و سمن سے
دن رات گاہ و بے گہ جب دیکھو ہیں سفر میں
ہم کس گھڑی وداعی یارب ہوئے وطن سے
دل سوختہ ہوں مجھ کو تکلیف حرف مت کر
اک آگ کی لپٹ سی نکلے ہے ہر سخن سے
دل کا اسیر ہونا جی میر جانتا ہے
کیا پیچ پاچ دیکھے اس زلف پرشکن سے
میر تقی میر

لطفِ سخن، کچھ اس سے زیادہ

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 18
قندِ دہن، کچھ اس سے زیادہ
لطفِ سخن، کچھ اس سے زیادہ
فصلِ خزاں میں لطفِ بہاراں
برگِ سمن کچھ اس سے زیادہ
حالِ چمن پر تلخ نوائی
مرغِ چمن، کچھ اس سے زیادہ
دل شکنی بھی، دلداری بھی
یادِ وطن، کچھ اس سے زیادہ
شمعِ بدن فانوسِ قبا میں
خوبیِ تن، کچھ اس سے زیادہ
عشق میں کیا ہے غم کے علاوہ
خواجۂ من، کچھ اس سے زیادہ
نذرِ حافظ ۔۔۔ ناصحم گفت بجز غم چہ ہنر دارد عشق ۔۔۔ بر وائے خواجۂ عاقلِ ہنرِ بہتر ازیں
بیروت
فیض احمد فیض

سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 4
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے
جو چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام ہے اب کوئی نہ منزل، فرازِ دار و رسن سے پہلے
نہیں رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری
گرفت کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے پہلے
کرے کوئی تیغ کا نظارہ، اب اُن کو یہ بھی نہیں گوارا
بضد ہے قاتل کہ جانِ بسمل فگار ہو جسم و تن سے پہلے
غرورِ سرو و سمن سے کہہ دو کہ پھر وہی تاجدار ہوں گے
جو خار و خس والیء چمن تھے عروجِ سرو و سمن سے پہلے
ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے، ادھر تقاضائے دردِ دل ہے
زباں سنبھالیں کہ دل سنبھالیں ، اسیر ذکر وطن سے پہلے
حیدرآباد جیل ١٧، ٢٢ مئی ٥٤ء
فیض احمد فیض

ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 14
جب اک چراغِ راہگزر کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
شاخِ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہیں
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمانِ چمن پڑے
تنہا گلی، ترے مرے قدموں کی چاپ، رات
ہرسو وہ خامشی کہ نہ تابِ سخن پڑے
یہ کس حسیں دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی
ہر موجۂ خیال پہ صدہا شکن پڑے
جب دل کی سل پہ بج اٹھے نیندوں کا آبشار
نادیدہ پائلوں کی جھنک جھن جھنن پڑے
یہ چاندنی، یہ بھولی ہوئی چاہتوں کا دیس
گزروں تو رخ پہ رشحۂ عطرِ سمن پڑے
یہ کون ہے لبوں میں رسیلی رُتیں گھلیں
پلکوں کی اوٹ نیند میں گلگوں گگن پڑے
اک پل بھی کوئے دل میں نہ ٹھہرا وہ رہ نورد
اب جس کے نقشِ پا ہیں چمن در چمن پڑے
اِک جست اس طرف بھی غزالِ زمانہ رقص
رہ تیری دیکھتے ہیں خطا و ختن پڑے
جب انجمن تموّجِ صد گفتگو میں ہو
میری طرف بھی اک نگہِ کم سخن پڑے
صحرائے زندگی میں جدھر بھی قدم اٹھیں
رستے میں ایک آرزوؤں کا چمن پڑے
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
اے شاطرِ ازل ترے ہاتھوں کو چوم لوں
قرعے میں میرے نام جو دیوانہ پن پڑے
اے صبحِ دیرخیز انہیں آواز دے جو ہیں
اک شامِ زودخواب کے سکھ میں مگن پڑے
اک تم کہ مرگِ دل کے مسائل میں جی گئے
اک ہم کہ ہیں بہ کشمکشِ جان و تن پڑے
امجد طریقِ مے میں ہے یہ احتیاط شرط
اک داغ بھی کہیں نہ سرِ پیرہن پڑے
مجید امجد

کتنا اچھا اپنا من‘ اپنا بدن لگنے لگا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 44
اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا
کتنا اچھا اپنا من‘ اپنا بدن لگنے لگا
جنگلوں سے کون سا جھونکا لگا لایا اسے
دل کہ جگنو تھا چراغِ انجمن لگنے لگا
اس کے لکھے لفظ پھولوں کی طرح کھلتے رہے
روز ان آنکھوں میں بازارِ سمن لگنے لگا
اوّل اوّل اس سے کچھ حرف و نوا کرتے تھے ہم
رفتہ رفتہ رائیگاں کارِ سخن لگنے لگا
جب قریب آیا تو ہم خود سے جدا ہونے لگے
وہ حجابِ درمیانِ جان و تن لگنے لگا
ہم کہاں کے یوسفِ ثانی تھے لیکن اس کا ہاتھ
ایک شب ہم کو بلائے پیرہن لگنے لگا
تیرے وحشی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے
رم کیا اتنا کہ آہوئے ختن لگنے لگا
ہم بڑے اہلِ خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا
کر گیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدرِ منیر
ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا
عرفان صدیقی

کچھ سوچتے نہیں ہیں کفن بیچتے ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 510
یہ بے ضمیر قوم و وطن بیچتے ہوئے
کچھ سوچتے نہیں ہیں کفن بیچتے ہوئے
کچھ دیکھتے کہاں ہیں یہ سوداگرانِ خاک
دریا، پرند، برگ و سمن بیچتے ہوئے
گنتے ہیں غیر ملکی کرنسی کے صرف نوٹ
حکام بیٹیوں کے بدن بیچتے ہوئے
خوش ہیں امیر شہر محلات میں بہت
ابلیس کو دیارِ عدن بیچتے ہوئے
اس عہدِ زر پرست کی آواز بن گئے
اپنے قلم کو اہلِ سخن بیچتے ہوئے
ہیں اہتمامِ رقصِ طوائف میں منہمک
منصور باغبان چمن بیچتے ہوئے
منصور آفاق

کہے یہ بات غریب الوطن ، وطن والو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 227
مسافرت ہی ہے رنج و محن ، وطن والو
کہے یہ بات غریب الوطن ، وطن والو
سویر ے پھرتے ہیں باغِ جناح میں کیا کیا
بڑی حسین ہے صبحِ چمن وطن والو
جہاں کی ساری بہاروں سے خوبصورت ہیں
ہمارے اپنے یہ برگ و سمن وطن والو
زمانے بھرسے ملائم ہیں نرم و نازک ہیں
زبانیں اپنی یہ اپنے سخن وطن والو
یہ شاعری ہے تمہاری ، تمہاری خاطر ہے
یہ گفتگو یہ جگرکی جلن وطن والو
تم اس سے تازہ زمانہ خرید سکتے ہو
اٹھالو میرے قلم کایہ دھن وطن والو
تمہیں مٹانے کی کوشش میں کیا جہاں والے
تم آپ خودسے ہوشمشیرزن وطن والو
وطن میں ایک نئے دور کیلئے منصور
ضروری ہو گیا دیوانہ پن وطن والو
منصور آفاق