ٹیگ کے محفوظات: سمندر

پنجرے میں اک اسیر کا تھا سر لہو لہو

ٹوٹی تھی چونچ، اور تھا پیکر لہو لہو
پنجرے میں اک اسیر کا تھا سر لہو لہو
درپن ہی میرے آگے نہیں ٹوٹتے رہے
ہوتا رہا ہوں میں بھی برابر لہو لہو
پہلے خزاں کے وار نے گھائل کیا مجھے
پھر آئی مجھ کو دیکھنے صَرصَر لہو لہو
کیا احمریں سی شام تھی اپنے وداع کی
لگنے لگے تھے سارے ہی منظر لہو لہو
شب بھر جو تیرگی سے لڑا تھا پسِ فلک
آیا افق پہ لوٹ کے ہو کر لہو لہو
دیکھو کنارِ شام شفق کی یہ سرخیاں
ہونے لگا ہے جن سے سمندر لہو لہو
آ آ کے لوٹتی رہی اک یاد رات بھر
چپکی ہوئی ہیں دستکیں در پر لہو لہو
یاور ماجد

یہ جانیے کہ ہے وہی پتّھر کا آدمی

گھائل نہیں جو حُسنِ گُلِ تر کا آدمی
یہ جانیے کہ ہے وہی پتّھر کا آدمی
گہرائیوں میں جا کے بھی کیا بات ہے کہ اب
سُنتا ہے شور سطحِ سمندر کا، آدمی
کیسی چلی یہ تیغ کہ ثابت رہا بدن
تقسیم ہو گیا مگر اندر کا آدمی
ہر راہ سے نکلتے ہیں سو اور راستے
اب ڈھونڈتا پھرے گا پتا گھر کا آدمی
شب خوں کے ڈر سے تھا مجھے ہر پیڑ پر گماں
یہ بھی نہ ہو غنیم کے لشکر کا آدمی
تنہائیوں کی بھیڑ ہے گھیرے ہوئے مجھے
اب میں ہوں اپنے شہر میں باہر کا آدمی
دشتِ طلب بھی کیا کوئی شہرِ طلسم ہے
دیکھا جو مڑ کے، ہو گیا پتھر کا آدمی
آنکھیں وہ خود ہی پھوڑ لیں جن کی شعاع سے
لیتا تھا لطف شام کے منظر کا آدمی
پھر آن کر گرے نہ اسی فرشِ خاک پر
اُڑتا ہے کیا ہواؤں میں بے پَر کا آدمی
ٹانگوں میں بانس باندھ کے چلتے ہیں سب یہاں
کیوں کر ملے، شکیبؔ! برابر کا آدمی
شکیب جلالی

جو کچھ تھا دل میں ، آگیا باہر، کہے بغیر

خوشبو اڑی ہے بات کی، اکثر کہے بغیر
جو کچھ تھا دل میں ، آگیا باہر، کہے بغیر
مجھ کو کنویں میں ڈال گئے جو، فریب سے
میں رہ سکا نہ ان کو برادر کہے بغیر
پارَکھ تو میں بڑا ہوں، مگر کیا چلے گا کام
اِک ایک سنگ و خِشت کو گوہر کہے بغیر
دُھل بھی گئی جبیں سے اگر خون کی لکیر
یہ داستاں ، رہے گا نہ، پتھر کہے بغیر
ہر چند، مانگتا ہوں ، بس اک بُوند زہر کی
ملتی نہیں ، کسی کو سمندر کہے بغیر
اُبھری ہوا میں لہر تو پھیلے گی دور تک
بہتر یہی ہے بات ادا کر، کہے بغیر
یہ اور بات ہے کوئی دستک نہ سن سکے
آتی نہیں ہے موت بھی، اندر، کہے بغیر
کتنی بلندیاں ہیں ، شکیبؔ، انکسار میں
اونچا میں ہو گیا اسے کم تر کہے بغیر
شکیب جلالی

اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے

اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے
اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے
جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند
مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے
مُرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سرخ پھول
تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے
اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ
مرمر کا یہ لباس تو سندر لگا مجھے
کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں
مہتاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے
آنکھوں کو بند کر کے بڑی روشنی ملی
مدھم تھا جو بھی نقش، اجاگر لگا مجھے
یہ کیا کہ دل کے دیپ کی لَو ہی تراش لی
سورج اگر ہے ، کرنوں کی جھالر لگا مجھے
صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ
گلشن کو لوٹتے ہوئے پل بھر لگا مجھے
میں نے ا سے شریکِ سفر کر لیا شکیبؔ
اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے
شکیب جلالی

حیرتِ آئینہ آئینے سے باہر آئے

خواہشِ حسنِ طلب ہے کوئی منظر آئے
حیرتِ آئینہ آئینے سے باہر آئے
لاکھ منظر مرے اطراف میں ہَوں گرمِ سخن
بات تَو جب ہے مرے لب پہ مکرّر آئے
حیرتِ عشق سے محتاط رہے قامتِ حسن
ڈُوب جاتا ہے یہاں جو بھی سمندر آئے
غیر ممکن ہے ابھی ہو مرا اندازَہِ ظرف
درد پہلے تَو مرے دل کے برابر آئے
ایک قطرہ بھی تشخّص کا بھرم رکھتا ہے
چاہے دریا میں ہو یا بن کے سمندر آئے
قلعہ در قلعہ لڑی ذات کی اِک فوجِ اَنا
ہم بھی دیوار پہ دیوار گرا کر آئے
وقت کے گہرے سمندر میں پتہ بھی نہ چلا
دعوے کرتے ہُوئے کتنے ہی شناور آئے
آزمائش تھی مرے حسنِ نظر کی ضامنؔ
کس قیامت کے مری راہ میں منظر آئے
ضامن جعفری

مادۂ آتش سے پُر اپنے سمندر دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
دیکھنا ہر سمت سیلِ فتنہ و شر دیکھنا
مادۂ آتش سے پُر اپنے سمندر دیکھنا
پچھلی ساعت کربلاؤں سا ہُوا جو رُو نما
ہے ہمیں سکرین پر گھر میں وہ منظر دیکھنا
اِس سے پہلے تو کوئی بھی ٹڈّی دَل ایسا نہ تھا
اب کے جو پرّاں فضا میں ہیں وہ اخگر دیکھنا
فاختائیں فاختاؤں کو کریں تلقینِ امن
مضحکہ موزوں ہُوا یہ بھی ہمِیں پر دیکھنا
کیا کہیں آنکھوں پہ اپنی جانے کب سے قرض تھا
جسم میں اُترا کم اندیشی کا خنجر دیکھنا
کچھ نہیں جن میں معانی منمناہٹ کے سوا
درس کیا سے کیا ہمیں ماجد ہیں ازبر دیکھنا
ماجد صدیقی

ہم نے سینتے کیا کیا منظر آنکھوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
نقش ہُوا ہے پل پل کا شر آنکھوں میں
ہم نے سینتے کیا کیا منظر آنکھوں میں
پھوڑوں جیسا حال ہے جن کے اندر کا
کھُلتے ہیں کُچھ ایسے بھی در آنکھوں میں
کیا کیا خودسر جذبے دریاؤں جیسے
ڈوب گئے اُن شوخ سمندر آنکھوں میں
ایک وُہی تو نخلستان کا پودا تھا
آنچ ہی آنچ تھی جس سے ہٹ کر آنکھوں میں
آدم کے حق میں تخفیفِ منصب کا
ناٹک سا ہر دم ہے خودسر آنکھوں میں
فصلوں جیسے جسم کٹے آگے جن کے
کرب نہ تھا کیا کیا اُن ششدر آنکھوں میں
ماجدؔ بت بن جائیں اُس چنچل جیسے
پھول بھی گر اُتریں اِن آذر آنکھوں میں
ماجد صدیقی

حساب ظالم و مظلوم کا برابر ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
دہن میں نیولے کے دیکھئے گا اژدر ہے
حساب ظالم و مظلوم کا برابر ہے
ندی میں برگ پہ چیونٹی ہے اور اِدھر ہم ہیں
کہ جن کے سامنے آلام کا سمندر ہے
سفر میں صبر کی ناؤ ہمیں جو دی اُس نے
ہمارے واسطے سرخاب کا یہی پَر ہے
چلا نہیں گل و مہتاب کو پتہ اتنا
ہمارے گھر بھی کوئی بام ہے کوئی در ہے
ابد تلک کو جو زیبِ سناں ہوا ماجدؔ
نہیں حسینؑ کا شمر و یزید کا سر ہے
ماجد صدیقی

موت کیسی؟ یہ مرا ڈر نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
میں ابھی موت سے بچ کر نکلا
موت کیسی؟ یہ مرا ڈر نکلا
اشک تھے سو تو چھُپائے مَیں نے
پھول کالر پہ سجا کر نکلا
مَیں تو ہوں مُہر بلب بھی لیکن
کام کچھ یہ بھی ہے دُوبھر نکلا
یہ الگ بات کہ پیچھا نہ کیا
گھر سے تو اُس کے برابر نکلا
خاک سے جس کا اُٹھایا تھا خمیر
ہم رکابِ مہ و اختر نکلا
مَیں کہ عُریاں نہ ہُوا تھا پہلے
بن کے اُس شوخ کا ہمسر نکلا
غم کی دہلیز نہ چھوڑی میں نے
میں نہ گھر سے کبھی باہر نکلا
جو اُڑاتا مجھے ہم دوشِ صبا
مجھ میں ایسا نہ کوئی پر نکلا
اُس نے بے سود ہی پتھر پھینکے
حوصلہ میرا سمندر نکلا
درد اظہار کو پہنچا ماجدؔ
دل سے جیسے کوئی نشتر نکلا
ماجد صدیقی

وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 114
اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے
سانحے وہ تھے کہ پتھرا گئیں آنکھیں میری
زخم یہ ہیں تو مرے دل کو بھی پتھّر کر دے
صرف آنسو ہی اگر دستِ کرم دیتا ہے
میری اُجڑی ہوئی آنکھوں کو سمندر کر دے
مجھ کو ساقی سے گلہ ہو نہ تُنک بخشی کا
زہر بھی دے تو مرے جام کو بھر بھر کر دے
شوق اندیشوں سے پاگل ہوا جاتا ہے فراز
کاش یہ خانہ خرابی مجھے بے در کر دے
احمد فراز

پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 109
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے
اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں
اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہو گئے
اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کا ہم
اب کے گئے تو کوئے ستم گرکے ہو گئے
روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فراز تم
دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے
احمد فراز

قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 12
میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا
تھا جنہیں ز عم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا
میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا
احمد فراز

جب سے ہم اُن کو میسر ہو گئے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 96
دسترس سے اپنی،باہر ہو گئے
جب سے ہم اُن کو میسر ہو گئے
ہم جو کہلائے طُلوعِ ماہتاب
ڈوبتے سُورج کا منظر ہو گئے
شہرِ خوباں کا یہی دستورہے
مُڑ کے دیکھا اور پتھر ہو گئے
بے وطن کہلائے اپنے دیس میں
اپنے گھر میں رہ کے بے گھر ہو گئے
سُکھ تری میراث تھے،تجھ کو ملے
دُکھ ہمارے تھے،مقدر ہو گئے
وہ سر اب اُترا رگ وپے میں کہ ہم
خود فریبی میں سمندر ہو گئے
تیری خود غرضی سے خود کو سوچ کر
آج ہم تیرے برابر ہو گئے
پروین شاکر

آئی ہے عجب گھڑی وفا پر

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 4
مٹّی کی گواہی خوں سے بڑھ کر
آئی ہے عجب گھڑی وفا پر
کس خاک کی کوکھ سے جنم لیں
آئے ہیں جو اپنے بیج کھوکر
کانٹا بھی یہاں کا برگِ تر ہے
باہر کی کلی ببول ، تھوہر
قلموں سے لگے ہُوئے شجر ہم
پل بھر میں ہوں کِس طرح ثمر ور
کچھ پیڑ زمین چاہتے ہیں
بیلیں تو نہیں اُگیں ہوا پر
اس نسل کا ذہن کٹ رہا ہے
اگلوں نے کٹائے تھے فقط سر
پتّھر بھی بہت حسیں ہیں لیکن
مٹّی سے ہی بن سکیں گے کچھ گھر
ہر عشق گواہ ڈھونڈتا ہے
جیسے کہ نہیں یقیں خود پر
بس اُن کے لیے نہیں جزیرہ
پَیر آئے جو کھولتے سمندر
پروین شاکر

اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 151
نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
"کمالِ گرمئ سعئ تلاشِ دید” نہ پوچھ
بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ
تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!
کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بسترکھینچ
تری طرف ہے بہ حسرت نظارۂ نرگس
بہ کورئ دل و چشمِ رقیب ساغر کھینچ
بہ نیم غمزہ ادا کر حقِ ودیعتِ ناز
نیامِ پردۂ زخمِ جگر سے خنجر کھینچ
مرے قدح میں ہے صہبائے آتشِ پنہاں
بروئے سفرہ کبابِ دلِ سمندر کھینچ
مرزا اسد اللہ خان غالب

طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدئہ تر کا

دیوان دوم غزل 753
ٹپکتی پلکوں سے رومال جس گھڑی سرکا
طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدئہ تر کا
کبھو تو دیر میں ہوں میں کبھو ہوں کعبے میں
کہاں کہاں لیے پھرتا ہے شوق اس در کا
غم فراق سے پھر سوکھ کر ہوا کانٹا
بچھا جو پھول اٹھا کوئی اس کے بستر کا
اسیر جرگے میں ہوجائوں میں تو ہوجائوں
وگرنہ قصد ہو کس کو شکار لاغر کا
ہمیں کہ جلنے سے خوگر ہیں آگ میں ہے عیش
محیط میں تو تلف ہوتا ہے سمندر کا
قریب خط کا نکلنا ہوا سو خط موقوف
غبار دور ہو کس طور میرے دلبر کا
بتا کے کعبے کا رستہ اسے بھلائوں راہ
نشاں جو پوچھے کوئی مجھ سے یار کے گھر کا
کسو سے مل چلے ٹک وہ تو ہے بہت ورنہ
سلوک کاہے کو شیوہ ہے اس ستمگر کا
شکستہ بالی و لب بستگی پر اب کی نہ جا
چمن میں شور مرا اب تلک بھی ہے پر کا
تلاش دل نہیں کام آتی اس زنخ میں گئے
کہ چاہ میں تو ہے مرنا برا شناور کا
پھرے ہے خاک ملے منھ پہ یا نمد پہنے
یہ آئینہ ہے نظر کردہ کس قلندر کا
نہ ترک عشق جو کرتا تو میر کیا کرتا
جفا کشی نہیں ہے کام ناز پرور کا
میر تقی میر

تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے!

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 64
لگے کہ آنکھ تراشی گئی ہے پتھر سے
تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے!
وُہ اور دَور تھا، لاؤں کہاں سے وہ راتیں
کہ چھت پہ سوئے ہوئے مجھ پہ چاندنی برسے
وُہ اپنے خواب سفینے کا ناخدا ٹھہرا
گیا تو تھا ابھی لوٹا نہیں سمندر سے
خدا یہاں بھی ہے، یہ خلقتیں سوال کریں
تو کیوں نہ وعظ عطا ہو گلی کے منبر سے
یہ عین وقت ہے شمع معاش جلنے کا
اُڑے ہیں دن کے پتنگے نکل کے گھر گھر سے
بلا کا دشمنِ آتش ہے آب پروردہ
کرن کی کرچیاں گرتی ہیں دستِ گوہر سے
پھر اس کے بعد سنانے کی آرزو نہ رہے
سُنون وہ شعر کسی دن کسی سخنور سے
آفتاب اقبال شمیم

نیند آنکھوں سے اُڑی کھول کے شہپر اپنے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 282
رات اک شہر نے تازہ کئے منظر اپنے
نیند آنکھوں سے اُڑی کھول کے شہپر اپنے
تم سرِ دشت و چمن مجھ کو کہاں ڈھونڈتے ہو
میں تو ہر رت میں بدل دیتا ہوں پیکر اپنے
یہی ویرانہ بچا تھا تو خدا نے آخر
رکھ دیے دل میں مرے سات سمندر اپنے
روز وہ شخص صدا دے کے پلٹ جاتا ہے
میں بھی رہتا ہوں بہت جسم سے باہر اپنے
کس قدر پاسِ مروت ہے وفاداروں کو
میرے سینے میں چھپا رکھے ہیں خنجر اپنے
کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک
مسندِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے
عرفان صدیقی

حق کا ولی، نبیؐ کا برادر، علیؑ علیؑ

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 220
شانِ خدا، ردانِ پیمبرؐ، علیؑ علیؑ
حق کا ولی، نبیؐ کا برادر، علیؑ علیؑ
زیب بدن شہانۂ تسخیرِ کائنات
سر پر لوائے حمد کا افسر علیؑ علیؑ
مٹی کی مملکت میں علم اسم بوترابؑ
افلاک پر ندائے مکرر، علیؑ علیؑ
سازِ مکانِ انفس و آفاق اُس کا نام
نازِ جہانِ اصغر و اکبر، علیؑ علیؑ
بے مایگاں کا مونس و غم خوار کون ہے
بے چارگاں کا کون ہے یاور، علیؑ علیؑ
مردانِ حرُ کا قافلہ سالار کون ہے
خاصانِ رب کا کون ہے رہبر، علیؑ علیؑ
مدّت سے ہے نواحِ غریباں میں خیمہ زن
وحشت کی فوج، خوف کا لشکر، علیؑ علیؑ
اِک بادباں شکستہ جہاز اور چہار سمت
کالی گھٹا، سیاہ سمندر، علیؑ علیؑ
اِک تشنہ کام ناقۂ جاں اور ہر طرف
باد سموم، دشت ستم گر، علیؑ علیؑ
اِک پافگار رہ گزری اور راہ میں
انبوہِ گرگ، مجمعِ اژدر، علیؑ علیؑ
اک سینہ چاک خاک بہ سر اور کوُ بہ کوُ
سوغاتِ سنگ، ہدیۂ خنجر، علیؑ علیؑ
میں بے نوا ترے درِ دولت پہ داد خواہ
اے میرے مرتضیٰؑ ، میرے حیدرؑ ، علیؑ علیؑ
میں بے اماں مجھے ترے دستِ کرم کی آس
تو دل نواز، تو ہی دلاور، علیؑ علیؑ
نانِ شعیر و جوہرِ شمشیر تیرے پاس
توُ ہی دلیر، توُ ہی تونگر، علیؑ علیؑ
توُ تاجدار تاب و تبِ روزگار کا
مجھ کو بھی اِک قبالۂ منظر، علیؑ علیؑ
توُ شہریار آب و نمِ شاخسار کا
میرے لیے بھی کوئی گلِ تر، علیؑ علیؑ
روشن ترے چراغ یمین و یسار میں
دونوں حوالے میرے منوّر، علیؑ علیؑ
یہ خانہ زادگاں ہیں تجھی سے شرف نصیب
ان کو بھی اِک خریئ گوہر، علیؑ علیؑ
اب میرے دشت میرے خرابے کی سمت موڑ
رہوار کی عنانِ معبر، علیؑ علیؑ
نصرت، کہ ہو چکے ہیں سزاوار ذوالفقار
میری زمیں کے مرحب و عنتر علیؑ علیؑ
پابستگاں پہ بام و درِ شش جہات کھول
اے بابِ علم، فاتحِ خیبر، علیؑ علیؑ
انعام کر مجھے بھی کہ صدیوں کی پیاس ہے
دریا، بنامِ ساقئ کوثر، علیؑ علیؑ
مولاؑ ، صراطِ روزِ جزا سے گزار ہی جائے
کہتا ہوا یہ تیرا ثناگر، علیؑ علیؑ
عرفان صدیقی

گم شدہ تیرو، کسی سر کی طرف لوٹ چلو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 111
اَپنے بھولے ہوئے منظر کی طرف لوٹ چلو
گم شدہ تیرو، کسی سر کی طرف لوٹ چلو
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے، اَب گھر کی طرف لوٹ چلو
اُس سے بچھڑے تو تمہیں کوئی نہ پہچانے گا
تم تو پرچھائیں ہو، پیکر کی طرف لوٹ چلو
ریت کی ہمسفری صرف کناروں تک ہے
اجنبی موجو، سمندر کی طرف لوٹ چلو
کتنے بے مہر ہیں اِس شہر کے قاتل عرفانؔ
پھر اُسی کوچۂ دِلبر کی طرف لوٹ چلو
عرفان صدیقی

کرتا ہے سرفراز خدا سر کو دیکھ کر

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 93
روشن ہوا یہ شام کے منظر کو دیکھ کر
کرتا ہے سرفراز خدا سر کو دیکھ کر
نہر گلو سے پیاسوں نے پہرے اُٹھا لیے
صحرا میں تشنہ کامئ خنجر کو دیکھ کر
جاں دادگان صبر کو فردوس کے سوا
کیا دیکھنا تھا سبط پیمبر کو دیکھ کر
سر کی ہوائے دشت نے گلبانگ لااِلٰہ
اوج سناں پہ مصحف اطہر کو دیکھ کر
آخر کھلا کہ بازوئے، نصرت قلم ہوئے
دوش ہوا پہ رایت لشکر کو دیکھ کر
ہے حرف حرف نقش وفا بولتا ہوا
آئینے چپ ہیں بیت ثناگر کو دیکھ کر
دل میں مرے یہ جوشِ ولا ہے خدا کی دین
حیرت نہ کر صدف میں سمندر کو دیکھ کر
عرفان صدیقی

وہ شخص بھی اِنسان تھا، پتھر تو نہیں تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 52
ہر چند میں قسمت کا سکندر تو نہیں تھا
وہ شخص بھی اِنسان تھا، پتھر تو نہیں تھا
یہ خون میں اِک لہر سی کیا دَوڑ رہی ہے
سایہ جسے سمجھے تھے وہ پیکر تو نہیں تھا
آنکھوں میں ہیں گزری ہوئی راتوں کے خزانے
پہلو میں وہ سرمایۂ بستر تو نہیں تھا
اِتنا بھی نہ کر طنز، تنگ ظرفئ دِل پر
قطرہ تھا، بہرحال سمندر تو نہیں تھا
غزلوں میں تو یوں کہنے کا دَستور ہے وَرنہ
سچ مچ مرا محبوب ستم گر تو نہیں تھا
یہ زَخم دِکھاتے ہوئے کیا پھرتے ہو عرفانؔ
اِک لفظ تھا پیارے، کوئی نشتر تو نہیں تھا
عرفان صدیقی

تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 29
نقشِ ظفر تھا لوحِ ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
صحرا کو شاد کام کیا اُس کی موج نے
تھا سرنوشت میں جو سمندر لکھا ہوا
تابندہ ہے دلوں میں لہوُ روشنائی سے
دُنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمیں
پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا
رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں
کس نے بدل دیا ہے مقدّر لکھا ہوا
پانی پہ کس کے دستِ بریدہ کی مہر ہے
کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا
ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید
جیسے ورق پہ حرفِ منوّر لکھا ہوا
نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق
کیا اَوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا
روشن ہے ایک چہرہ بیاضِ خیال پر
لو دے رہا ہے شعرِ ثناگر لکھا ہوا
سرمہ ہے جب سے خاک درِ بوترابؑ کی
آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا
فہرستِ چاکراں میں سلاطیں کے ساتھ ساتھ
میرا بھی نام ہے سرِ دفتر لکھا ہوا
اور اس کے آگے خانۂ احوال ذات میں
ہے مدح خوانِ آلِ پیمبرؐ لکھا ہوا
سب نام دستِ ظلم تری دسترس میں ہیں
لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا
میں اور سیلِ گریہ خداساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
MERGED نقشِ ظفر تھا لوح ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
صحرا کو شاد کام کیا اس کی موج نے
تھا سرنوشت میں جو سمندر لکھا ہوا
تابندہ ہے دلوں میں لہو روشنائی سے
دُنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمین
پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا
رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں
کس نے بدل دیا ہے مقدر لکھا ہوا
ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید
جیسے ورق پہ حرفِ منور لکھا ہوا
نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق
کیا اوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا
روشن ہے ایک چہرہ بیاضِ خیال پر
لو دے رہا ہے بیتِ ثناگر لکھا ہوا
سرمہ ہے جب سے خاک درِ بوتراب کی
آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا
اور اس کے آگے خانۂ احوالِ ذات میں
ہے مدح خوانِ آلِ پیمبر لکھا ہوا
سب نام دستِ ظلم‘ تری دسترس میں ہیں
لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا
میں اور سیلِ گریہ‘ خدا ساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
عرفان صدیقی

پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 569
اک سین دیکھتے ہیں زمیں پر پڑے پڑے
پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے
کیسا ہے کائنات کی تہذیبِ کُن کا آرٹ
شکلیں بدلتے رہتے ہیں پتھر پڑے پڑے
اے زلفِ سایہ دار تری دوپہر کی خیر
جلتا رہا ہوں چھاؤں میں دن بھر پڑے پڑے
ویراں کدے میں جھانکتے کیا ہو نگاہ کے
صحرا سا ہو گیا ہے سمندر پڑے پڑے
سوچا تھا منتظر ہے مرا کون شہر میں
دیکھا تو شام ہو گئی گھر پر، پڑے پڑے
شکنوں کے انتظار میں اے کھڑکیوں کی یار
بوسیدہ ہو گیا مرا بستر پڑے پڑے
منصور کوئی ذات کا تابوت کھول دے
میں مر رہا ہوں اپنے ہی اندر پڑے پڑے
منصور آفاق

آیا ہے نکل کر یہ سمندر سے ستارہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 419
اجلا ہے بہت شام کے منظر سے ستارہ
آیا ہے نکل کر یہ سمندر سے ستارہ
یک لخت نگاہوں میں کئی رنگ ہیں آئے
گزرا ہے ابھی میرے برابر سے ستارہ
قسمت کہیں یخ بستہ رویوں میں جمی ہے
نکلا ہی نہیں اپنا دسمبر سے ستارہ
ہر شام نکلتا تھا کسی شاخِ حسیں سے
رکھتا تھا تعلق وہ صنوبر سے ستارہ
تم اندھی جوانی کی کرامات نہ پوچھو
وہ توڑدیا کرتی تھی پتھر سے ستارہ
میں کس طرح لے جاؤں اسے اپنی گلی میں
منصور شناسا ہے جہاں بھر سے ستارہ
منصور آفاق

آنکھیں کسی جلتے ہوئے منظر کی طرح ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 365
پلکیں کسی برہن کے کھلے سر کی طرح ہیں
آنکھیں کسی جلتے ہوئے منظر کی طرح ہیں
گرتے ہیں ہمی میں کئی بپھرے ہوئے دریا
ہم وقت ہیں ، لمحوں کے سمندر کی طرح ہیں
بس ٹوٹتے پتوں کی صدائیں ہیں ہوا میں
موسم بھی مرادوں کے مقدر کی طرح ہیں
رکھتے ہیں اک اک چونچ میں کنکر کئی دکھ کے
اب حرف ابابیلوں کے لشکر کی طرح ہیں
بکتے ہوئے سو بار ہمیں سوچنا ہو گا
اب ہم بھی کسی آخری زیور کی طرح ہیں
یہ خواب جنہیں اوڑھ کے سونا تھا نگر کو
فٹ پاتھ پہ بچھتے ہوئے بستر کی طرح ہیں
ناراض نہ ہو اپنے بہک جانے پہ جاناں
ہم لوگ بھی انسان ہیں ، اکثر کی طرح ہیں
اب اپنا بھروسہ نہیں ، ہم ساحلِ جاں پر
طوفان میں ٹوٹے ہوئے لنگر کی طرح ہیں
تم صرفِ نظر کیسے، کہاں ہم سے کرو گے
وہ لوگ ہیں ہم جو تمہیں ازبر کی طرح ہیں
منصور ہمیں بھولنا ممکن ہی نہیں ہے
ہم زخم میں اترے ہوئے خنجر کی طرح ہیں
منصور آفاق

یہ برگزیدہ لوگ بھی پتھر پرست ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 361
قرباں جواہرات پہ ہیں ، زر پرست ہیں
یہ برگزیدہ لوگ بھی پتھر پرست ہیں
کچھ ہیں اسیرِ عشوہِحسنِ سفید فام
باقی جو اہلِ زرہیں وہ ڈالر پرست ہیں
تجھ سے معاملہ نہیں اپنا، ہوائے شام
پانی ہیں ہم ، ازل سے سمندر پرست ہیں
ہم دوپہر میں مانتے سورج کو ہیں خدا
صحرا کی سرد رات میں اختر پرست ہیں
الٹا ئیں جن کا نام تو لکھیں وہاب ہم
تنظیمِ اسم ذات کے وہ سرپرست ہیں
منصور جبر و قدر کی ممکن نہیں ہے بحث
ہم بولتے نہیں ہیں ، مقدر پرست ہیں
منصور آفاق

میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں سمندر ہو کر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 175
وہ جو پھرتے ہیں کناروں پہ قلندر ہو کر
میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں سمندر ہو کر
انہی گلیوں میں ، ملا دیس نکالا جن سے
میں بھی پھرتا ہوں مقدر کا سکندر ہو کر
میں نے دیکھی ہے فقط ایک خدا کی تمجید
کبھی مسجد ، کبھی معبد ، کبھی مندر ہو کر
میں بہر طور تماشا ہوں تماشا گر کا
ڈگڈگی والا کبھی تو کبھی بندر ہو کر
مجھ کو معلوم دنیا کی حقیقت منصور
باہر آیا ہوں کئی بار میں اندر ہو کر
منصور آفاق

زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 150
برف کی شال میں لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح
کس طرح دیکھنا ممکن تھا کسی اور طرف
میں نے دیکھا تھا اُسے آخری منظر کی طرح
ہاتھ رکھ ، لمس بھری تیز نظر کے آگے
چیرتی جاتی ہے سینہ مرا خنجر کی طرح
بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں
شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجر کی طرح
کچی مٹی کی مہک اوڑھ کے اِتراتی تھی
میں پہنتا تھا اسے گرم سمندر کی طرح
پلو گرتا ہوا ساڑھی کا اٹھا کر منصور
چلتی ہے چھلکی ہوئی دودھ کی گاگر کی طرح
منصور آفاق

بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 116
موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا
بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا
اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ
گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا
بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں
ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا
شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ
دیکھا تو میں نے آنکھ کو پتھر بنا لیا
ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ
اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا
پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں
میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا
شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی
مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا
کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر
اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا
پھر عرصۂ دراز گزارا اسی کے بیچ
اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا
بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر
اپنا دماغ گنبدِ بے در بنا لیا
باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے
لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا
گم کربِ ذات میں کیا یوں کربِ کائنات
آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا
منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں
دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا
منصور آفاق

گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 111
ہاتھ سے ہنگامِ محشر رکھ دیا
گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا
اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے
بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا
پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں
آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا
اور پھر تازہ ہوا کے واسطے
ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا
ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر
پاؤں میں اس کے مقدر رکھ دیا
دیکھ کر افسوس تارے کی چمک
اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا
ایک ہی آواز پہنی کان میں
ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا
نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر
خواب کو بستر سے باہر رکھ دیا
دیدئہ تر میں سمندر دیکھ کر
اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا
اور پھر جاہ و حشم رکھتے ہوئے
میں نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا
میری مٹی کا دیا تھا سو اسے
میں نے سورج کے برابر رکھ دیا
خانہء دل کو اٹھا کر وقت نے
بے سرو ساماں ، سڑک پر رکھ دیا
جو پہن کرآتی ہے زخموں کے پھول
نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا
کچھ کہا منصور اس نے اور پھر
میز پر لا کر دسمبر رکھ دیا
منصور آفاق

وہ علم و آگہی کا جو منظر تھا کیا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 65
سید نصیر شاہ کا جو گھر تھا کیا ہوا
وہ علم و آگہی کا جو منظر تھا کیا ہوا
کہتا تھا جو خدا سے کہ اک جیساکر ہمیں
مشہور شہر میں وہ جو کافر تھا کیا ہوا
وہ جس بلند طرے سے ڈرتے تھے کجکلاہ
وہ جو غریب چلتا اکٹر کر تھا کیا ہوا
ہوتے مشاعرے تھے جو اکثر وہ کیا ہوئے
وہ شاعروں کا ایک جو لشکر تھا کیا ہوا
وہ شام کیا ہوئی جو سٹیشن کے پاس تھی
وہ شخص جو مجھے کبھی ازبر تھا کیا ہوا
وہ ہار مونیم جو بجاتا تھا ساری رات
وہ ایک گانے والا یہاں پر تھا کیا ہوا
برگد ہزاروں سال سے سایہ فگن جہاں
وہ چشمہ جو پہاڑ کے اوپر تھا کیا ہوا
جلتے جہاں تھے دیپ وہ میلے کہاں گئے
آتا یہاں جو پھولوں کا چیتر تھا کیا ہوا
مکھن جو کھایا کرتے تھے وہ مرغ کیا ہوئے
ہر صبح وہ جو بولتا تیتر تھا کیا ہوا
عاجز کے وہ لہکتے ہوئے گیت کیا ہوئے
تنویر کچھ بتا وہ جو مظہر تھا کیا ہوا
چشمہ بیراج کیا ہوا منصور کچھ کہو
جو دیکھنے میں ایک سمندر تھا کیا ہوا
منصور آفاق

اک پہلوان رِنگ سے باہر پڑا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 63
وہ ہے شکست مان کے پتھر پڑا ہوا
اک پہلوان رِنگ سے باہر پڑا ہوا
آگاہ بھلا ہو کیسے کہ کیا ہے فلک کے پار
وہ جو ہے کائنات کے اندرپڑا ہوا
ڈالی تھی ایک میں نے اچٹتی ہوئی نظر
میرے قریب تھا کوئی منظر پڑا ہوا
آرام کر رہا تھا ابھی تو یہ ریت پر
دریا کہاں گیا ہے برابر پڑا ہوا
یہ بادِ تند و تیز کی آغوشِ گرم میں
خراٹے لے رہا ہے سمندر پڑا ہوا
وہ بھی گلی میں پھرتی ہے بے چین دیر سے
میں بھی ہوں گھر میں بلب جلا کر پڑا ہوا
منصور آسمان سے لے کر پہاڑ تک
کیا کیا اٹھانا پڑتا ہے سر پر پڑا ہوا
منصور آفاق

ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 61
اِس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف
اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا
آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی
اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا
اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب
تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا
ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو
دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا
گربہ صفت گلی میں کسی گھونسلے کے بیچ
میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا
ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول
لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا
پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے
کمرے میں ہے میڈونا کا بستر بنا ہوا
یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف
اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا
ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع
تھا انگ انگ کورٹ کا محشر بنا ہوا
منصور آفاق