حُسن کو جراتِ اِظہارِ تمنّا ہی نہیں
اور اِدھر عشق کہ یہ بات سَمَجھتا ہی نہیں
اُس سے کہنا کہ ذَرا غَور سے دیکھے مُجھ کو
مُجھ کو وہ دُکھ تَو نہیں جِس کا مداوا ہی نہیں
تُم بھی اِظہارِ محبّت کو ہَوَس جانوگے
میں نے حَیرَت ہے اِس انداز سے سوچا ہی نہیں
گُفتُگو کرنے کو اَب اُس سے زباں کون سی ہو
میرا لہجہ مِرے اَلفاظ سَمَجھتا ہی نہیں
مُنتَظِر سَب تھے کہ احسان کریں گے مُجھ پَر
اہلِ ساحِل کو مَگَر میں نے پُکارا ہی نہیں
ناگواری کا ذرا سا بھی جو خَدشہ ہوتا
حالِ دِل آپ سے واللہ میں کہتا ہی نہیں
آنکھ رَکھتا ہُوں ، نَظَر رَکھتا ہُوں ، لیکن ضامنؔ
حاصِلِ حُسنِ نَظَر کوئی تماشا ہی نہیں
ضامن جعفری