ٹیگ کے محفوظات: سلونا

کہ مٹی کوڑے کا اب ہے بچھونا

دیوان پنجم غزل 1563
جدا اس سیم تن سے کیسا سونا
کہ مٹی کوڑے کا اب ہے بچھونا
بہت کی جستجو اس کی نہ پایا
ہمیں درپیش ہے اب جی کا کھونا
جگر کے زخم شاید ہیں نمک بند
مزہ کچھ آنسوئوں کا ہے سلونا
میر تقی میر

پھر کسی نے سونا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 596
خالی پھر بچھونا ہے
پھر کسی نے سونا ہے
سربلند لوگوں کا
بادشاہ بونا ہے
پوری کیسے ہو تعبیر
خواب آدھا’ پونا‘ ہے
دوسروں کے ماتم پر
اپنا اپنا رونا ہے
اجنبی ہے دنیا سی
کون مجھ سا ہونا ہے
انتظارِ جاری نے
کیا کسی کو کھونا ہے
آنسوئوں کی بارش سے
قیقہوں کو دھونا ہے
وقت ایک بچہ سا
آدمی کھلونا ہے
زخم زخم دامن کا
چاک کیا پرونا ہے
میں ہوں اور تنہائی
گھر کا ایک کونا ہے
چائے کی پیالی میں
آسماں ڈبونا ہے
کائنات سے باہر
کیا کسی نے ہونا ہے
عرش کا گریباں بھی
آگ میں بھگونا ہے
موت کو بھی آخر کار
قبر میں سمونا ہے
آبلوں کے دریا کو
دشت بھر چبھونا ہے
تیرے دل میں میرا غم
پھر مجھے کہونا، ہے
حسن دھوپ میں منصور
سانولا سلونا ہے
منصور آفاق