کہ مٹی کوڑے کا اب ہے بچھونا اکتوبر 6, 2015میر تقی میر،اساتذہ،غزلکھونا،بچھونا،سلوناadmin دیوان پنجم غزل 1563 جدا اس سیم تن سے کیسا سونا کہ مٹی کوڑے کا اب ہے بچھونا بہت کی جستجو اس کی نہ پایا ہمیں درپیش ہے اب جی کا کھونا جگر کے زخم شاید ہیں نمک بند مزہ کچھ آنسوئوں کا ہے سلونا میر تقی میر Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
پھر کسی نے سونا ہے دسمبر 1, 2007منصور آفاق،شعراء،غزلہونا،چبھونا،ڈبونا،کہونا،کونا،کھلونا،کھونا،پونا،پرونا،بونا،بھگونا،دھونا،رونا،سلونا،سمونا،سوچاadmin منصور آفاق ۔ غزل نمبر 596 خالی پھر بچھونا ہے پھر کسی نے سونا ہے سربلند لوگوں کا بادشاہ بونا ہے پوری کیسے ہو تعبیر خواب آدھا’ پونا‘ ہے دوسروں کے ماتم پر اپنا اپنا رونا ہے اجنبی ہے دنیا سی کون مجھ سا ہونا ہے انتظارِ جاری نے کیا کسی کو کھونا ہے آنسوئوں کی بارش سے قیقہوں کو دھونا ہے وقت ایک بچہ سا آدمی کھلونا ہے زخم زخم دامن کا چاک کیا پرونا ہے میں ہوں اور تنہائی گھر کا ایک کونا ہے چائے کی پیالی میں آسماں ڈبونا ہے کائنات سے باہر کیا کسی نے ہونا ہے عرش کا گریباں بھی آگ میں بھگونا ہے موت کو بھی آخر کار قبر میں سمونا ہے آبلوں کے دریا کو دشت بھر چبھونا ہے تیرے دل میں میرا غم پھر مجھے کہونا، ہے حسن دھوپ میں منصور سانولا سلونا ہے منصور آفاق Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔