جس راہ پر بھی ہم چلے اُس سے یہی آئی صدا
نقصان ہے نقصان ہے نقصان ہے نقصان
جتنی بلندی دیکھنی تھی دیکھ لی آگے تو بس
ڈھلوان ہے ڈھلوان ہے ڈھلوان ہے ڈھلوان
تقدیر مجبوری نہیں یہ تو کسی بھی چیز کا
امکان ہے امکان ہے امکان ہے امکان
ذوقِ سخن اتنا بڑھا اپنا کہ اب تو ہر طرف
دیوان ہے دیوان ہے دیوان ہے دیوان
گو بادشاہت کا مخالف ہوں مگر ٹیپو مرا
سلطان ہے سلطان ہے سلطان ہے سلطان
باصِرؔ سے ہوتی ہے خطا یہ سوچ کے کر درگذر
نادان ہے نادان ہے نادان ہے نادان
باصر کاظمی