ٹیگ کے محفوظات: سزاواروں

کچھ تمھیں پیار نہیں کرتے جفا ماروں کو

دیوان ششم غزل 1862
اگلے سب چاہتے تھے ہم سے وفاداروں کو
کچھ تمھیں پیار نہیں کرتے جفا ماروں کو
شہر تو عشق میں ہے اس کے شفاخانہ تمام
وہ نہیں آتا کبھو دیکھنے بیماروں کو
مستی میں خوب گذرتی ہے کہ غفلت ہے ہمیں
مشکل اس مصطبے میں کام ہے ہشیاروں کو
فکر سے اپنے گذرتا ہے زمیں کاوی میں دن
رات جاتی ہے ہمیں گنتے ہوئے تاروں کو
خوب کرتے ہیں جو خوباں نہیں رو دیتے ہیں
منھ لگاتا ہے کوئی خوں کے سزاواروں کو
حسن بازار جہاں میں ہے متاع دلکش
صاحب اس کا ٹھگے جاتا ہے خریداروں کو
وامق و کوہکن و قیس نہیں ہے کوئی
بھکھ گیا عشق کا اژدر مرے غمخواروں کو
زندگی کرتے ہیں مرنے کے لیے اہل جہاں
واقعہ میر ہے درپیش عجب یاروں کو
میر تقی میر

پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں

دیوان دوم غزل 883
آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں
پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں
باغ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن
آدمی ایک نہیں اس کے ہواداروں میں
ایک کے بھی وہ برے حال میں آیا نہ کبھو
لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں
دوستی کس سے ہوئی آنکھ کہاں جاکے لڑی
دشمنی آئی جسے دیکھتے ہی یاروں میں
ہائے رے ہاتھ جہاں چوٹ پڑی دو ہی کیا
الغرض ایک ہے وہ شوخ ستمگاروں میں
کشمکش جس کے لیے یہ ہے شمار دم یہ
ان نے ہم کو نہ گنا اپنے گرفتاروں میں
کیسی کیسی ہے عناصر میں بھی صورت بازی
شعبدے لاکھوں طرح کے ہیں انھیں چاروں میں
مشفقو ہاتھ مرے باندھو کہ اب کے ہر دم
جا الجھتے ہیں گریبان کے دو تاروں میں
حسب قسمت سبھوں نے کھائے تری تیغ کے زخم
ناکس اک نکلے ہمیں خوں کے سزاواروں میں
اضطراب و قلق و ضعف ہیں گر میر یہی
زندگی ہو چکی تو اپنی ان آزاروں میں
میر تقی میر

ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

دیوان اول غزل 190
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ
جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ
عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ
جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ
اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ
بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ
یارو مت اس کا فریب مہر کھائو
میر بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ
میر تقی میر