ٹیگ کے محفوظات: سروکار

ہم اہلِ حرف لگاتار خواب دیکھتے ہیں

یہ بات اور کہ بے کار خواب دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرف لگاتار خواب دیکھتے ہیں
ہمارے خواب کبھی ٹوٹ ہی نہیں سکتے
کہ ہم تو پہلے سے مسمار خواب دیکھتے ہیں
ہم اور شب یونہی اک خواب پر نثار رکریں
سو حسبِ خواہش و معیار خواب دیکھتے ہیں
تمہارے خیمے تمہاری ہی ذمؔہ داری ہیں
نگاہ دار و عمل دار خواب دیکھتے ہیں
گمان تک نہ ہو جس پر سِوا حقیقت کے
ہم ایسے کامل و تیار خواب دیکھتے ہیں
امید و رنج کے رشتے کی سب ہمیں ہے سمجھ
سو جان بوجھ کے دشوار خواب دیکھتے ہیں
درندگی کا تماشا تو روز ہوتا ہے
یہ رنج چھوڑ، چل آ یار، خواب دیکھتے ہیں
یہ خود اذیؔتی شامل سرشت میں ہے سو ہم
بہ صد اذیؔت و آزار خواب دیکھتے ہیں
ہم ایسے لوگ ہمیشہ ہی ٹوٹتے ہیں میاں
ہم ایسے لوگ گراں بار خواب دیکھتے ہیں
پھر اِس کے بعد ابد تک عدم ہے، صرف عدم
ابھی وجود کے دوچار خواب دیکھتے ہیں
تھکا ہُوا ہے بدن، رات ہے، سو بستر سے
ہٹاؤ یاد کا انبار، خواب دیکھتے ہیں
ہمیں تباہ کیا صرف اِس نصیحت نے
کہ آگہی کے طلب گار خواب دیکھتے ہیں
تمہیں ہے کس لیے پرخاش ہم فقیروں سے
جو بے نیاز و سروکار خواب دیکھتے ہیں
ہے اپنی نیند بہت قیمتی کہ ہم عرفان
بہت ہی نادر و شہکار خواب دیکھتے ہیں
عرفان ستار

گل سرخ اک زرد رخسار تھا

دیوان دوم غزل 756
چمن بھی ترا عاشق زار تھا
گل سرخ اک زرد رخسار تھا
گئی نیند شیون سے بلبل کی رات
کہیں دل ہمارا گرفتار تھا
قد یار کے آگے سرو چمن
کھڑا دور جیسے گنہگار تھا
یہی جنس دل کی گراں قدر تھی
ولے جب تلک تو خریدار تھا
بہت روئے ہم شبنم و گل کو دیکھ
کہ چسپاں ہمیں بھی کہیں پیار تھا
مجھے اے دل چاک کیا شانہ سا
کسو زلف سے کچھ سروکار تھا
گیا میر یاں سے کروگے جو یاد
کہو گے کہ مسکیں عجب یار تھا
میر تقی میر

مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے

دیوان اول غزل 507
یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے
زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر جائے
پر دام محبت میں گرفتار نہ ہووے
اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد
یہ بائو کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے
صد نالۂ جانکاہ ہیں وابستہ چمن سے
کوئی بال شکستہ پس دیوار نہ ہووے
پژمردہ بہت ہے گل گلزار ہمارا
شرمندئہ یک گوشۂ دستار نہ ہووے
مانگے ہے دعا خلق تجھے دیکھ کے ظالم
یارب کسو کو اس سے سروکار نہ ہووے
کس شکل سے احوال کہوں اب میں الٰہی
صورت سے مری جس میں وہ بیزار نہ ہووے
ہوں دوست جو کہتا ہوں سن اے جان کے دشمن
بہتر تو تجھے ترک ہے تا خوار نہ ہووے
خوباں برے ہوتے ہیں اگرچہ ہیں نکورو
بے جرم کہیں ان کا گنہگار نہ ہووے
باندھے نہ پھرے خون پر اپنی تو کمر کو
یہ جان سبک تن پہ ترے بار نہ ہووے
چلتا ہے رہ عشق ہی اس پر بھی چلے تو
پر ایک قدم چل کہیں زنہار نہ ہووے
صحراے محبت ہے قدم دیکھ کے رکھ میر
یہ سیر سر کوچہ و بازار نہ ہووے
میر تقی میر

کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا

دیوان اول غزل 45
کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دل زار تھا
کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا
دم صبح بزم خوش جہاں شب غم سے کم نہ تھی مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دود تھا جو پتنگ تھا سو غبار تھا
دل خستہ لوہو جو ہو گیا تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
کبھو سوز سینہ سے داغ تھا کبھو درد و غم سے فگار تھا
دل مضطرب سے گذر گئی شب وصل اپنی ہی فکر میں
نہ دماغ تھا نہ فراغ تھا نہ شکیب تھا نہ قرار تھا
جو نگاہ کی بھی پلک اٹھا تو ہمارے دل سے لہو بہا
کہ وہیں وہ ناوک بے خطا کسو کے کلیجے کے پار تھا
یہ تمھاری ان دنوں دوستاں مژہ جس کے غم میں ہے خوں چکاں
وہی آفت دل عاشقاں کسو وقت ہم سے بھی یار تھا
نہیں تازہ دل کی شکستگی یہی درد تھا یہی خستگی
اسے جب سے ذوق شکار تھا اسے زخم سے سروکار تھا
کبھو جائے گی جو ادھر صبا تو یہ کہیو اس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا ترے باغ تازہ میں خار تھا
میر تقی میر