ٹیگ کے محفوظات: سراپا

جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں

غمِ دل حیطہِ تحریر میں آتا ہی نہیں
جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں
اوس کی بوندوں میں بکھرا ہوا منظر جیسے
سب کا اس دور میں یہ حال ہے ، میرا ہی نہیں
برق کیوں ان کو جلانے پہ کمر بستہ ہے
مَیں تو چھاؤں میں کسی پیڑ کے بیٹھا ہی نہیں
اک کرن تھام کے میں دھوپ نگر تک پہنچا
کون سا عرش ہے جس کا کوئی زینہ ہی نہیں
کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں
بوجھ لمحوں کا ہر اک سر پہ اٹھائے گزرا
کوئی اس شہر میں سستانے کو ٹھہرا ہی نہیں
سایہ کیوں جل کے ہوا خاک تجھے کیا معلوم
تو کبھی آگ کے دریاؤں میں اترا ہی نہیں
موتی کیا کیا نہ پڑے ہیں تہِ دریا لیکن
برف لہروں کی کوئی توڑنے والا ہی نہیں
اس کے پردوں پہ منقش تری آواز بھی ہے
خانہِ دل میں فقط تیرا سراپا ہی نہیں
حائلِ راہ تھے کتنے ہی ہوا کے پر بت
تو وہ بادل کہ مرے شہر سے گزرا ہی نہیں
یاد کے دائرے کیوں پھیلتے جاتے ہیں شکیبؔ
اس نے تالاب میں کنکر ابھی پھینکا ہی نہیں
شکیب جلالی

زَخمِ دِل ایسے سُلَگتا نہیں دیکھا کوئی

اس طرح کا کبھی منظر نہیں دیکھا کوئی
زَخمِ دِل ایسے سُلَگتا نہیں دیکھا کوئی
نِذرِ گلچیں جو کرے شاخ سے خود توڑ کے گُل
باغباں ہم نے تَو ایسا نہیں دیکھا کوئی
آج ہم آپ کو آئینہ دِکھائیں گے ضرور
آپ نے حُسنِ سَراپا نہیں دیکھا کوئی
لگ نہ جائے کسی حاسِد کی نَظَر اِس لیے ہم
دِل میں کہہ لیتے ہیں تم سا نہیں دیکھا کوئی
کھیل اُلفَت کا بہت کھیلنے والے دیکھے
جان پر کھیلنے والا نہیں دیکھا کوئی
کیا شکایت وہ اندھیروں کی کرے گا ضامنؔ
عمر بھر جس نے اُجالا نہیں دیکھا کوئی
ضامن جعفری

کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 35
چہرہ اداس اداس تھا، میلا لباس تھا
کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا
عریاں، زمانہ گیر، شررگوں جبلتیں
کچھ تھا تو ایک برگ دِل ان کا لباس تھا
اس موڑ پر ابھی جسے دیکھا ہے، کون تھا؟
سنبھلی ہوئی نگاہ تھی، سادہ لباس تھا
یادوں کے دھندلے دیس! کھلی چاندنی میں رات
تیرا سکوت کس کی صدا کا لباس تھا؟
ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں پرکھا تو ان کی روح
بےپیرہن تھی، جسم سراپا لباس تھا
صدیوں کے گھاٹ پر، بھرے میلوں کی بھیڑ میں
اے دردِ شادماں، ترا کیا کیا لباس تھا
دیکھا تو دل کے سامنے، سایوں کے جشن میں
ہر عکسِ آرزو کا انوکھا لباس تھا
امجد، قبائے شہ تھی کہ چولا فقیر کا
ہر بھیس میں ضمیر کا پردا لباس تھا
مجید امجد

بعد از خدا تُو وہ کہ اکیلا کہیں جسے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 551
کوئی کہیں نہیں ترے جیسا کہیں جسے
بعد از خدا تُو وہ کہ اکیلا کہیں جسے
یہ دل ہے انتظار کا جلتا ہوا ا دیا
یہ چشم وہ مزارِ تمنا کہیں جسے
ہے مظہرِ جمال خدا پرتوِ صفات
وہ آئینہ کہ تیرا سراپا کہیں جسے
شیخِ حرم کو آج تک آیا نہیں خیال
طیبہ کی اک گلی ہے وہ عقبیٰ کہیں جسے
عرقاب روح و جسم اُس اسمِ خرام میں
منصورصبحِ عرش کا دریا کہیں جسے
منصور آفاق