ٹیگ کے محفوظات: سدا

پتھر بدن، صبا کی ادا کاٹتی رہی

مجھ کو مرے چمن کی فضا کاٹتی رہی
پتھر بدن، صبا کی ادا کاٹتی رہی
عُمرِ اُداس صدیوں سے کیا کاٹتی رہی
پیہم سفر، سفر سے سوا کاٹتی رہی
میری بصارتیں تو مرے دل میں تھیں نہاں
اشکوں کی دھار! تُو بھی یہ کیا کاٹتی رہی؟
اظہار کے جنوں نے نہ جینے کبھی دیا
اک پھانس تھی الگ، جو گلا کاٹتی رہی
آتے ہوئے زمانوں سے جب گفتگو ہوئی
میری ہر ایک بات ہوا کاٹتی رہی
آنسو نے میرے کتنے گگن رنگ سے بھرے
اک بوند ہر کرن کا گلا کاٹتی رہی
صدیوں سے میَں نہ کاٹ سکا عمرِ ناتمام
اِک پل کی عمر مُجھ کو سدا کاٹتی رہی
تکمیل کی طلب نے ادھورا کیا مجھے
لکھا ہر ایک شعر مرا کاٹتی رہی
یاور ماجد

مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی

یونہی اپنے آپ میں مبتلا، مری ساری عمر گزر گئی
مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی غم زدوں کے تھے قافلے، کئی دلبری کے تھے سلسلے
میں کسی کی سمت نہیں گیا، مری ساری عمر گزر گئی
کبھی سلتے سلتے اُدھڑ گیا، کبھی بنتے بنتے بگڑ گیا
کوئی مجھ کو شکل نہ دے سکا، مری ساری عمر گزر گئی
جو بڑی اٹھان کا شخص تھا، عجب آن بان کا شخص تھا
وہی شخص مجھ میں بکھر چکا، مری ساری عمر گزر گئی
کسی ماہ وش کی نگاہ میں، کسی خانقاہ کی راہ میں
یونہی در بہ در، یونہی جا بہ جا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختیار نہیں میں تھا، میں تلاشِ نانِ جویں میں تھا
کوئی لمحہ اپنا نہیں جیا، مری ساری عمر گزر گئی
مری حرفِ غم کی سپاہ تھی، کبھی آہ تھی، کبھی واہ تھی
یہی شور مجھ میں رہا بپا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی ناشنیدہ خیال تھے، مرے پاس کتنے سوال تھے
مگر اس سے قبل کہ پوچھتا، مری ساری عمر گزر گئی
میں تلاشِ شہرِ دگر میں ہوں، میں ازل سے ایک سفر میں ہوں
میں کسی بھی گھر میں نہیں رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اصل عینِ شہود تھا، کہ میں خود ورائے وجود تھا
نہ خودی ملی، نہ خدا ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اور ہی کوئی طور تھا، مرا ایک اپنا ہی دور تھا
مرا دور مجھ کو نہیں ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرے اپنے جوگ بجوگ تھے، نہ یہ شہر تھا، نہ یہ لوگ تھے
سو میں خود میں چھپ کے پڑا رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مری کج نوشت عبارتیں، مری کم وفور عبادتیں
کوئی کام ٹھیک نہ کرسکا، مری ساری عمر گزر گئی
میں اسیرِ بادہءِ عشق تھا، میں فقیرِ جادہءِ عشق تھا
میں گزر چکا، میں گزر گیا، مری ساری عمر گزر گئی
ہر اک انجمن میں پڑھے گئے، مرے شعر خوب سنے گئے
مرا غم کسی نے نہیں سنا، مری ساری عمر گزر گئی
میں ہوں آپ اپنا شریکِ غم، مجھے اعتراف بہ چشمِ نم
مرا حق نہ مجھ سے ہوا ادا، مری ساری عمر گزر گئی
مری اُن صفات کا کیا بنا، مرے ممکنات کا کیا بنا
میں کہاں گیا، مرا کیا بنا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختتام قریب ہے، تُو نئی غزل کا نقیب ہے
سو تری ہوئی یہ سخن سرا، مری ساری عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں
یہی خوف دل میں رہا سدا، مری ساری عمر گزر گئی
عرفان ستار

آج کیا جانیے کیا یاد آیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 25
جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
آج کیا جانیے کیا یاد آیا
پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
پھر ترا عہد وفا یاد آیا
جس طرح دھند میں‌لپٹے ہوئے پھول
ایک اک نقش ترا یاد آیا
ایسی مجبوری کے عالم میں‌ کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا
اے رفیقو سر منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں‌ یاد کہ کیا یاد آیا
جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی بھول گیا یاد آیا
یہ محبت بھی ہے کیا روگ فراز
جس کو بھولے وہ سدا یاد آیا
احمد فراز

مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 53
یونہی اپنے آپ میں مبتلا، مری ساری عمر گزر گئی
مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی غم زدوں کے تھے قافلے، کئی دلبری کے تھے سلسلے
میں کسی کی سمت نہیں گیا، مری ساری عمر گزر گئی
کبھی سلتے سلتے اُدھڑ گیا، کبھی بنتے بنتے بگڑ گیا
کوئی مجھ کو شکل نہ دے سکا، مری ساری عمر گزر گئی
جو بڑی اٹھان کا شخص تھا، عجب آن بان کا شخص تھا
وہی شخص مجھ میں بکھر چکا، مری ساری عمر گزر گئی
کسی ماہ وش کی نگاہ میں، کسی خانقاہ کی راہ میں
یونہی در بہ در، یونہی جا بہ جا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختیار نہیں میں تھا، میں تلاشِ نانِ جویں میں تھا
کوئی لمحہ اپنا نہیں جیا، مری ساری عمر گزر گئی
مری حرفِ غم کی سپاہ تھی، کبھی آہ تھی، کبھی واہ تھی
یہی شور مجھ میں رہا بپا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی ناشنیدہ خیال تھے، مرے پاس کتنے سوال تھے
مگر اس سے قبل کہ پوچھتا، مری ساری عمر گزر گئی
میں تلاشِ شہرِ دگر میں ہوں، میں ازل سے ایک سفر میں ہوں
میں کسی بھی گھر میں نہیں رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اصل عینِ شہود تھا، کہ میں خود ورائے وجود تھا
نہ خودی ملی، نہ خدا ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اور ہی کوئی طور تھا، مرا ایک اپنا ہی دور تھا
مرا دور مجھ کو نہیں ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرے اپنے جوگ بجوگ تھے، نہ یہ شہر تھا، نہ یہ لوگ تھے
سو میں خود میں چھپ کے پڑا رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مری کج نوشت عبارتیں، مری کم وفور عبادتیں
کوئی کام ٹھیک نہ کرسکا، مری ساری عمر گزر گئی
میں اسیرِ بادہءِ عشق تھا، میں فقیرِ جادہءِ عشق تھا
میں گزر چکا، میں گزر گیا، مری ساری عمر گزر گئی
ہر اک انجمن میں پڑھے گئے، مرے شعر خوب سنے گئے
مرا غم کسی نے نہیں سنا، مری ساری عمر گزر گئی
میں ہوں آپ اپنا شریکِ غم، مجھے اعتراف بہ چشمِ نم
مرا حق نہ مجھ سے ہوا ادا، مری ساری عمر گزر گئی
مری اُن صفات کا کیا بنا، مرے ممکنات کا کیا بنا
میں کہاں گیا، مرا کیا بنا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختتام قریب ہے، تُو نئی غزل کا نقیب ہے
سو تری ہوئی یہ سخن سرا، مری ساری عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں
یہی خوف دل میں رہا سدا، مری ساری عمر گزر گئی
عرفان ستار

آشنایانہ نہ کی کوئی ادا اپنے ساتھ

دیوان چہارم غزل 1481
یار صد حیف کہ بیگانہ رہا اپنے ساتھ
آشنایانہ نہ کی کوئی ادا اپنے ساتھ
اتحاد اتنا ہے اس سے کہ ہمیشہ ہے وصال
اپنے مطلوب کو ہے ربط سدا اپنے ساتھ
عہد یہ تھا کہ نہ بے وصل بدن سے جاوے
سو جدا ہوتا ہے کی جی نے دغا اپنے ساتھ
رنج نے رنج بہت کھینچے پہنچ کر ہم تک
اک بلا میں ہے گرفتار بلا اپنے ساتھ
دس گنا دکھنے لگا زخم رکھے مرہم کے
درد کا کام رہی کرتی دوا اپنے ساتھ
وارد شہر ہیں یا دشت میں ہم شوق طلب
ہر زماں پھرتا ہے اے میر لگا اپنے ساتھ
میر تقی میر

دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا

دیوان اول غزل 88
ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا
دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا
برقع اٹھے پہ اس کے ہو گا جہان روشن
خورشید کا نکلنا کیونکر چھپا رہے گا
اک وہم سی رہی ہے اپنی نمود تن میں
آتے ہو اب تو آئو پھر ہم میں کیا رہے گا
مذکور یار ہم سے مت ہم نشیں کیا کر
دل جو بجا نہیں ہے پھر اس میں جا رہے گا
اس گل بغیر جیسے ابر بہار عاشق
نالاں جدا رہے گا روتا جدا رہے گا
دانستہ ہے تغافل غم کہنا اس سے حاصل
تم درد دل کہو گے وہ سر جھکا رہے گا
اب جھمکی اس کی تم نے دیکھی کبھو جو یارو
برسوں تلک اسی میں پھر دل سدا رہے گا
کس کس کو میر ان نے کہہ کر دیا ہے بوسہ
وہ ایک ہے مفتن یوں ہی چُما رہے گا
میر تقی میر

خیال کی باغبانیاں کر اُگا یہ نظمیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 102
بدل بھی سکتی ہیں اس چمن کی فضا یہ نظمیں
خیال کی باغبانیاں کر اُگا یہ نظمیں
یہ رات مانگے جنوں سے نذرانہ روشنی کا
جلا جلا کر سروں سے اونچی اُڑا یہ نظمیں
مجھے بہت ہے یہ میری گمنامیوں کی خلوت
مگر کسی دن قبول کر لے خدا یہ نظمیں
سخی صلے میں کسی سے کچھ مانگتا نہیں ہے
یہ لوگ بہرے ہیں ان کو اکثر سنا یہ نظمیں
تمام اوصاف ان میں جیسے ہوں دلبروں کے
حسین و خودبیں ، وفا سے نا آشنا یہ نظمیں
میں غیب و حاضر کا نامہ بر ہوں ، یہ میرا منصب
یہاں وہاں بانٹتا رہوں گا سدا یہ نظمیں
آفتاب اقبال شمیم

ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 40
قافلے گزریں وہاں کیونکہ سلامت واعظ
ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص
قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامر پیں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
گھر میں برکت ہے مگر فیض ہے جاری شب و روز
کچھ سہی شیخ، مگر ہے بخدا ایک ہی شخص
اعتراضوں کا زمانہ کے ہے حالیؔ پہ نچوڑ
شاعر اب ساری خدائی میں ہے یا ایک ہی شخص
الطاف حسین حالی