ٹیگ کے محفوظات: سحر

ایک ہی نظم عمر بھر لکھی

خود قلم بن کے، ٹوٹ کر لکھی
ایک ہی نظم عمر بھر لکھی
اس نے قسمت میں کب سحر لکھی
لکھ بھی دی گر، تو مختصر لکھی
لکھی تقدیر میری بے اعراب
اور نقطے بھی چھوڑ کر لکھی
میرے قرطاسِ عمر پر اُس نے
ہر کٹھن رَہ، سفر سفر لکھی
کیا وہ مانیں گے داستاں تیری؟
دوسرے رُخ سے میَں نے گر لکھی
دیکھنا تو کرن نے سورج کی
بہتے پانی پہ کیا خبر لکھی
مُصحفِ شب پہ ایک دن یاؔور
پڑھ ہی لوں گا کبھی سحر لکھی
یاور ماجد

دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے

ذرّوں میں آفتاب و قمر دیکھتے رہے
دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے
لوگ ان سے مانگتے رہے لُطف و کرم کی بھیک
ہم خامشیِ غم کا اثر دیکھتے رہے
ظلمت میں اعتمادِ نظر ضَوفشاں رہا
ہر رنگ میں جمالِ سَحر دیکھتے رہے
یہ زندگی ہے تازہ اُمنگوں کا اک الاؤ
ہر ہر نَفَس میں رقصِ شرر دیکھتے رہے
دنیا سے بے خبر کئی عالم گزر گئے
ہم محویت میں جانے کدھر دیکھتے رہے
چُھپتے رہے وہ طالبِ دیدار جان کر
ہم تھے کہ ان کا حُسنِ نظر دیکھتے رہے
آدابِ رَہ روی سے جو واقف نہیں ، شکیبؔ
ان کو بھی ہم شریکِ سفر دیکھتے رہے
شکیب جلالی

میں ہوں کہیں، غبار کہیں، ہم سفر کہیں

گم ہی نہ ہو گئی ہو مری رہ گزر کہیں
میں ہوں کہیں، غبار کہیں، ہم سفر کہیں
جذبِ نظر کا، کر تو رہے ہیں وہ امتحاں
رُک ہی نہ جائے گردشِ شام و سَحر کہیں
سمجھا ہر اک یہی کہ تخاطب مجھی سے ہے
مرکوز یوں ہوئی نگہِ معتبر کہیں
تھی کچھ تو مصلحت جو نگاہیں نہ مل سکیں
مجھ کو غلط سمجھ لے نہ وہ کم نظر کہیں
غم دے کے چھین لیں ، یہ نہیں اُن کے بس کی بات
مٹتا ہے دل سے داغِ غمِ مُعتبر کہیں !
ہم تو منا ہی لیں گے انھیں یہ یقین ہے
اور ایک بار روٹھ گئے ہم اگر کہیں
شکیب جلالی

دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ

کچھ دن اگر یہی رہا دیوار و در کا رنگ
دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ
بھولا نہیں ہوں مقتلِ امید کا سماں
تحلیل ہو رہا تھا شفق میں سحر کا رنگ
دنیا غریقِ شعبدہِ جام جم ہوئی
دیکھے گا کون خونِ دلِ کو زہ گر کا رنگ
الجھے ہوئے دھوئیں کی فضا میں ہے اک لکیر
کیا پوچھتے ہو شمع سرِ رہ گزر کا رنگ
دامانِ فصل گل پہ خزاں کی لگی ہے چھاپ
ذوقِ نظر پہ بار ہے برگ و ثمر کا رنگ
جمنے لگی شکیبؔ جو پلکوں پہ گردِ شب
آنکھوں میں پھیلنے لگا خوابِ سحر کا رنگ
شکیب جلالی

جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو

اس طرح دیکھتا ہوں اُدھر وہ جدھر نہ ہو
جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو
یہ شہرِ نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار
اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو
ایسے قدم قدم وہ سراپا غرور ہے
جیسے خرامِ ناز سے آگے سفر نہ ہو
میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے
ممکن ہے یہ سخن کبھی بارِ دگر نہ ہو
ہونے دو آج شاخِ تمنا کو بارور
ممکن ہے کل صبا کا یہاں سے گزر نہ ہو
میں بھی دکھاؤں شوق کی جولانیاں تجھے
یہ مشتِ خاک راہ میں حائل اگر نہ ہو
اک یہ فریب دیکھنا باقی ہے وقت کا
دل ڈوب جائے اور دوبارہ سحر نہ ہو
یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خوفِ رہ گزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو
عرفان ستار

تَمام عُمر سَفَر میں نَہیں رَہا جاتا

فَریبِ حُسنِ نَظَر میں نَہیں رَہا جاتا
تَمام عُمر سَفَر میں نَہیں رَہا جاتا
میں اِنتِظار کی گَھڑیوں سے کہنے والا ہُوں
سَدا دَریچہ و دَر میں نَہیں رَہا جاتا
مِری خَطا ہے، اُسے آئینہ دِیا لا کَر
اَب اُس سے شام کو گَھر میں نَہیں رَہا جاتا
یہ رازِ عِشق کی خُوبی ہے یا خرابی ہے؟
کہ اُس سے دیِدہِ تَر میں نَہیں رَہا جاتا
تَو کیا میں ظُلمَتِ شَب ہی سے دوستی کَرلُوں ؟
گر اِنتِظارِ سَحَر میں نَہیں رَہا جاتا!
کوئی بَتائے کہ کَب تَک میں پیش پیش رَہوں
نزاعِ زیر و زَبَر میں نَہیں رَہا جاتا
جنوں نے جَب سے حصارِ خِرَد کو توڑا ہے
قیودِ شام و سَحَر میں نَہیں رَہا جاتا
بَدَل گیا ہے کوئی یُوں مِرے دَر و دِیوار
کہ مجھ سے اپنے ہی گھر میں نہیں رہا جاتا
چَلو! دیارِ جنوں چل کر اب رہیں ضامنؔ
خِرَد کے سحر و اَثَر میں نہیں رَہا جاتا
ضامن جعفری

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

گئے دِنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارئہ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہِ جاں مرے تو دل میں اُتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دِنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر کاظمی

آج تو شام بھی سحر سی ہے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اُس کی صورت بھی اپنے گھر سی ہے
بے ثمر ہی رہی ہے شاخِ مراد
برف پگھلی تو آگ برسی ہے
دل میں اب کیا رہا ہے تیرے بعد
ایک سنسان رہگزر سی ہے
صبح تک ہم نہ سو سکے ناصر
رات بھر کتنی اوس برسی ہے
ناصر کاظمی

گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستان میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں رو رہا تھا مقدر کی سخت راہوں میں
اُڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے
میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے اُبھر اُبھر کے مجھے
ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انھیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اُتر کے مجھے
پھر آج آئی تھی اک موجۂ ہوائے طرب
سنا گئی ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
ناصر کاظمی

ٹھکانہ تھا جہاں اب وُہ شجر ،اچّھا نہیں لگتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
مری صورت ہے جو بے بال و پر ، اچّھا نہیں لگتا
ٹھکانہ تھا جہاں اب وُہ شجر ،اچّھا نہیں لگتا
ذرا سا بھی جو چہرے کو تکدّر آشنا کردے
اُنہیں ہم سا کوئی شوریدہ سر اچّھا نہیں لگتا
بہت کم گھر نفاذِ جبر پر چُپ تھے، سو اچّھے تھے
مگر یوں ہے کہ اب سارا نگر اچّھا نہیں لگتا
قدم بے سمت ہیں اور رہنما منصب سے بیگانہ
ہمیں درپیش ہے جو وُہ سفر اچّھا نہیں لگتا
مثالِ کودکاں بہلائے رکھنا بالغوں تک کو
ہنر اچُھا ہے لیکن یہ ہنر اچّھا نہیں لگتا
چہکنا شام کو چڑیوں کا ماتم ہے گئے دن کا
مگر ماتم یہ ہنگامِ سحر اچّھا نہیں لگتا
گلوں نے جن رُتوں سے ہیئتِ پیغام بدلی ہے
غضب یہ ہے ہَوا سا نامہ بر اچّھا نہیں لگتا
کہیں کیونکر نہ ماجِد زر سے ہی جب سُرخیٔ خوں ہے
نہیں لگتا ہمیں فقدانِ زر، اچّھا نہیں لگتا
ماجد صدیقی

جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
سجل حویلیوں کی ، بام و در کی بات اور ہے
جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے
محال ہو گیا ہے، دھُند سے جسے نکالنا
چمن میں آرزو کے اُس شجر کی، بات اور ہے
صدف سے چشمِ تر کے، دفعتاً ٹپک پڑا ہے جو
گراں بہا نہیں ، پہ اُس گہر کی بات اور ہے
ہُوئی ہے روشنی سی، جگنوؤں کے اجتماع سے
لگی نہیں جو ہاتھ، اُس سحر کی بات اور ہے
کوئی کوئی ہے شہر بھر میں، تجھ سا ماجدِ حزیں
ہُوا جو تجھ پہ ختم ، اُس ہنر کی بات اور ہے
ماجد صدیقی

ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار
ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار
کوئی منزل ہو ٹھہرتی ہے وہ کیوں مل کر سراب
ہر مسافر کو ہے کیوں تازہ سفر کا انتظار
رزق تک بھی روٹھنے کو جیسے ہم ایسوں سے ہے
جو بھی ہے کھلیان اُس کو ہے شرر کا انتظار
کاوشِ اظہارِ حق سے کب بہم ہو گا اِنہیں
اہلِفن کو جانے کیوں ہے سیم و زر کا انتظار
تشنہ لب خوشوں کی آنکھیں بوندیوں پر ہیں لگی
بحر کو بہرِ تموّج ہے قمر کا انتظار
اک سے اک بے جان سُورج اپنے پہلو میں لیے
ہر سحر سونپے ہمیں، اگلی سحر کا انتظار
کرب کے آنسو طرب کے آنسوؤں میں کب ڈھلیں
آنکھ کو ماجدؔ ہے کیوں پھر بھی گہر کا انتظار
ماجد صدیقی

اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
جو حق میں تمہارے بند رہیں وہ لب گنجینۂ زر کر دو
اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو
جو سادہ منش ہیں ان سب کو تم دین کے نام پہ دھوکا دو
جو کھولے ڈھول کا پول اُسے اسلام آباد بدر کر دو
جو رات وطن پر چھائی ہے تم سب کے بھاگ جگانے کو
کچھ جگنو چھوڑ کے وعدوں کے اُس میں اعلانِ سحر کر دو
جو کھیت ترستے ہیں نم کو اُن کھیتوں کے اِک کونے کو
خِفّت کے عرق سے تر کر کے وقفِ تشہیرِ ہُنر کر دو
جو ہاتھ اُٹھیں وہ کٹ جائیں جو آنکھ اٹھے وہ پھوٹ بہے
ہر چلتی سانس کچلنے کو پیمانۂ فتح و ظفر کر دو
ہاں پیڑ پہ بیٹھی چڑیوں پر، کاہے کو کرو تم وار بھلا
ہاں ان کا شور دبانے کو شاہو! تو بیِخ شجر کر دو
ماجد صدیقی

آنکھوں کی سیپیوں میں گہر ڈھونڈنے پڑے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
موتی پئے جمال ہنر ڈھونڈنے پڑے
آنکھوں کی سیپیوں میں گہر ڈھونڈنے پڑے
جنگل میں طائروں کی چہک، آہوؤں کا رم
کیا کیا نہ ہمرہانِ سفر ڈھونڈنے پڑے
آئے گا کل کے بعد جو دن، اُس کو پاٹنے
کیا کیا جتن نہ شام و سحر ڈھونڈنے پڑے
اپنے ہی جسم و جان کی پیہم کرید سے
ماجد ہمیں خزائنِ زر ڈھونڈنے پڑے
ماجد صدیقی

دریا میں جتنا زور تھا پل میں اُتر گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
زد پر جب اُس کی میں حدِ جاں سے گزر گیا
دریا میں جتنا زور تھا پل میں اُتر گیا
دیکھی جب اپنی ذات پہ آتی ذرا سی آنچ
وہ بدقماش اپنے کہے سے مُکر گیا
آخر کو کھینچ لایا وہ سورج سرِ افق
جو جیش جگنوؤں کا بسوئے سحر گیا
خود اُس کا اَوج اُس کے توازن کو لے اڑا
نکلا ذرا جو حد سے تو سمجھو شجر گیا
جس کو بقا کا راز بتانے گیا تھا میں
سائل سمجھ کے وہ مری دستک سے ڈر گیا
کربِ دروں سے، اشکِ فراواں کے فیض سے
چہرہ کچھ اب کے اور بھی ماجد نکھر گیا
ماجد صدیقی

وا جس کے لیے رہ گیا دامان ، شرر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
دھوکا تھا ہر اِک برگ پہ ٹوٹے ہوئے پر کا
وا جس کے لیے رہ گیا دامان ، شرر کا
میں اشک ہوں، میں اوس کا قطرہ ہوں، شرر ہوں
انداز بہم ہے مجھے پانی کے سفر کا
کروٹ سی بدلتا ہے اندھیرا تو اُسے بھی
دے دیتے ہیں ہم سادہ منش، نام سحر کا
تہمت سی لئے پھرتے ہیں صدیوں سے سر اپنے
رُسوا ہے بہت نام یہاں اہلِ ہُنر کا
قائم نہ رہا خاک سے جب رشتۂ جاں تو
بس دھول پتہ پوچھنے آتے تھی شجر کا
جو شاہ کے کاندھوں کی وجاہت کا سبب ہے
دیکھو تو بھلا تاج ہے کس کاسۂ سر کا
اشکوں سے تَپاں ہے کبھی آہوں سے خنک ہے
اک عمر سے ماجد یہی موسم ہے، نگر کا
ماجد صدیقی

سرسوں کی رُت ہے اور ہے کشتِ نظر اداس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یابس دنوں کی یاد سے ہے سر بہ سر اداس
سرسوں کی رُت ہے اور ہے کشتِ نظر اداس
جیسے یہ اب ہیں کُند نہ تھیں اِن کی یوں سُریں
دیکھے نہیں تھے ایسے کبھی نغمہ گر اداس
ساقط ہُوا ہے جیسے اُبھرتے ہی آفتاب
اب کے کچھ اِس طرح سے ہوئے بام و در اداس
حیراں نہیں تھے یوں کبھی اشکوں کے آئینے
اُترا نہیں تھا اِن میں نگر کا نگر اداس
یوں تو اٹا نہ تھا کبھی گردِ سکوت سے
راہوں میں اِسطرح تو نہ تھا ہر شجر اداس
دونوں پہ موسموں کا اثر یوں کبھی نہ تھا
ششدر ہوں میں اِدھر تو اُدھر میرا گھر اداس
جیسے الاؤ پر سے کبوتر گزر کے آئے
لَوٹا ہے اب کے ہو کے بہت نامہ بر اداس
پہروں کے پہر،یُوں کبھی گڈ مڈ ہوئے نہ تھے
شب ہے اداس، شام اداس اور سحر اداس
پُورا ہُوا تو ساتھ ہی گھٹنے لگا یہ چاند
ماجد ہے اِس حیات کا سارا سفر اداس
ماجد صدیقی

شہرِ خوباں سے کوئی اچّھی خبر آتی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
خواب میں آئے بہ دستِ نامہ بر آتی نہیں
شہرِ خوباں سے کوئی اچّھی خبر آتی نہیں
چہچہاتی ہیں تمنّاؤں کی چڑیاں چار سُو
شب بھی کچھ گہری نہیں لیکن سحر آتی نہیں
راہِ فرش و عرش جب ہوتی ہے قدموں کے تلے
زندگی میں وہ گھڑی بارِ دگر آتی نہیں
دیکھ کر لپکے جو ہونٹوں پر تبسّم کے گلاب
کوئی تتلی اب سرِ شاخِ نظر آتی نہیں
ماجد صدیقی

یہی انداز ہے مّدت سے جو اپنے سفر کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
تعّین منزلوں کا اور نشاں کوئی نہ گھر کا ہے
یہی انداز ہے مّدت سے جو اپنے سفر کا ہے
اُدھر شب ہے کہ غاروں سی نہ آئے جو سمٹنے میں
اِدھر ہم سادہ دل، جن کو گماں پھر بھی سحر کا ہے
زمیں گروی ہوئی جس باغ کی، پروان چڑھنے کا
ہمیں کیونکر گماں سا جانے اُس کے ہر شجر کا ہے
ماجد صدیقی

آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر، لے کے آ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
مَیں اُس سے چاہتوں کا ثمر، لے کے آ گیا
آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر، لے کے آ گیا
دیکھو تو کیسے چاند کی اُنگلی، پکڑ کے مَیں
اُس شوخ سے ملن کی سحر، لے کے آ گیا
کس زعم میں نجانے، منانے گیا اُسے
تہمت سی ایک، اپنے ہی سر، لے کے آ گیا
قصّہ ہی جس سے کشتِ تمّنا کا، ہو تمام
خرمن کے واسطے وُہ شرر، لے کے آ گیا
اَب سوچتا ہوں اُس سے، طلب میں نے کیا کیا
ماجدؔ یہ مَیں کہ زخمِ نظر لے کے آ گیا
ماجد صدیقی

قدم قدم ہے مرا پل صراط پر جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
ہُوا ہے درپئے جاں اَب تو ہر سفر جیسے
قدم قدم ہے مرا پل صراط پر جیسے
سُجھا رہی ہیں یہی نامرادیاں اپنی
رہیں گے آنکھ میں کنکر یہ عمر بھر جیسے
سفر میں ہُوں پہ وُہ خدشات ہیں کہ لگتا ہے
جھُلس رہا ہو سرِ راہ ہر نگر جیسے
کہیں تو بات بھلا دل کی جا کے کس سے کہیں
بچھڑ کے رہ گئے سارے ہی ہم نظر جیسے
لپک رہا ہوں مسلسل مگر نہ ہاتھ آئے
کٹی پتنگ ہو اُمید کی سحر جیسے
دہن دہن سے زباں جھڑ گئی ہے یُوں ماجدؔ
خزاں کے دور میں بے برگ ہوں شجر جیسے
ماجد صدیقی

وقت نجانے اور ابھی کیا کیا منظر دکھلائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
سچ کہنے پر شہر بدر ہوتے، بُوذرؓ دکھلائے گا
وقت نجانے اور ابھی کیا کیا منظر دکھلائے گا
اِک اِک گوشۂ شہر سے تو ہم خاک جبیں پر مَل لائے
خواہش کا عفریت ہمیں اَب کون سا در دکھلائے گا
سُورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ دمکتے اِک جیسے
کون مُبارک دن ایسا، جو سارے نگر دکھلائے گا
راہبروں کی سنگ دلی سے بچ نہ سکا جو دبنے سے
کون سا ایسا عزم ہمیں مائل بہ سفر دکھلائے گا
ہم بھاڑے کے وُہ مزدور ہیں پیٹ کا یہ تنّور جنہیں
دریاؤں کی تہہ میں چھپُا اِک ایک گہر دکھلائے گا
دُور لگے وُہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
ہاں وُہ شہر کہ جس کا اِک اِک باسی اُونچا سُنتا ہو
ماجدؔ ایسے شہر میں تو کیا رنگِ ہُنر دکھلائے گا
ماجد صدیقی

کند ہو چکے جو بھی وُہ مراد بر آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
راحتوں کی صورت بھی بس یہی نظر آئے
کند ہو چکے جو بھی وُہ مراد بر آئے
ہے یہی بساط اپنی نام پر خداؤں کے
معبدوں میں جا نکلے، جا کے آہ بھر آئے
یہ بھی دن دکھا ڈالے حُسن کی اداؤں نے
پھوُل تک سے وحشت ہو چاند تک سے ڈر آئے
ہم سے بھی کوئی پوچھے کُچھ دلوں کی ویرانی
گھوم پھر کے ہم بھی تو ہیں نگر نگر آئے
یوں تو آٹھ پہروں میں نت ہی دن چڑھے ماجدؔ
جس طرح کی ہم چاہیں جانے کب سحر آئے
ماجد صدیقی

ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
افق پر، مہر بننا تھا جسے اَب وُہ شرر، کب ہے
ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے
کبھی ایسا بھی تھا لیکن نہ تھے جب بخت برگشتہ
اِسے دریوزہ گر کہئے، یہ دل اَب تاجور کب ہے
اثر جس کا مرض کی ابتدا تک ہی مسلّم تھا
ملے بھی گر تو وُہ نسخہ بھلا اب کارگر کب ہے
چلے تو ہیں کہ انسانوں کو ہم، ہم مرتبت دیکھیں
مگر جو ختم ہو جائے بھلا یہ وہ سفر کب ہے
علی الاعلان حق میں بولتا ہو جو نحیفوں کے
اُسے مردود کہئیے شہر میں وُہ معتبر کب ہے
قفس کا در کہاں کھُلنے کا ہے لیکن اگر ماجدؔ
کھُلا بھی دیکھ لیں تو اعتبارِ بال و پر کب ہے
ماجد صدیقی

کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
وہ فردِ جرم کا غلبہ ہے دربہ در دیکھا
کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا
بدن میں خوف سے پائی سکت نہ جنبش کی
یہ انکسار بھی باوصفِ بال و پر دیکھا
بس اِتنا یاد ہے قصہ گرانیٔ شب کا
کوئی گلاب نہ کِھلتا دم سحر دیکھا
لہو کی آنچ لیے جو بھی تا بہ لب آیا
وہ حرف بعد میں لکھا بہ آبِ زر دیکھا
ہُوا ہو برق کی مانند سامنا جس سے
جدا نہ ذہن سے ہوتا ہوا وہ ڈر دیکھا
چمن کا حال وہ ماجدؔ! کہے گا کیا جس نے
ہر ایک شاخ کے پہلو میں ہو تبر دیکھا
ماجد صدیقی

کب نصیبوں میں اپنے سحر دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
گُل تمنّاؤں کے شاخ پر دیکھنا
کب نصیبوں میں اپنے سحر دیکھنا
دیکھنا نطق کلیوں سے چھَنتا ہوا
بے زباں باغ میں ہر شجر دیکھنا
شرط ٹھہری ہے گلشن میں اپنے لئے
کوئی منظر ہو با چشمِ تر دیکھنا
آب جذبوں کی آنکھوں میں سمٹی ہوئی
سیپیوں میں دمکتے گہر دیکھنا
دے گئی اُڑ کے تتلی سکوں کی ہمیں
کُو بہ کُو جھانکنا، در بہ در دیکھنا
دیکھ لینے پہ تجھ عید کے چاند کو
ہم پہ لازم ے بارِ دگر دیکھنا
لوگ ماجدؔ! ہیں معتوب ایسے سبھی
دیکھنا! تم بھی ہو باہنر، دیکھنا
ماجد صدیقی

میرے قدموں میں یہ ہنر کب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
کامراں شوق کا سفر کب ہے
میرے قدموں میں یہ ہنر کب ہے
ریگِ صحرا سے لفظ ہوں جس کے
خشک ہے وہ زبان، تر کب ہے
آئے بے وقت چاہنے پہ مرے
مہرباں اِس قدر سحر کب ہے
جِتناکرتی پھرے ہوا چرچا
اِتنا شاداب ہر شجر کب ہے
ہے خُود انساں خسارہ جُو، ورنہ
وقت بے رحم اِس قدر کب ہے
دھڑکنوں میں بسا ہے جو ماجدؔ
دل سے جاتا وُہ رُوٹھ کر کب ہے
ماجد صدیقی

بدن کو لگتا ہے زہر، سایہ ہر اک شجر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
کُھلا ہے در، دل پہ جب سے مارِسیہ کے ڈر کا
بدن کو لگتا ہے زہر، سایہ ہر اک شجر کا
ہمیں گوارا ہے عمر جیسے بھی کٹ رہی ہے
کسی سے کرنا ہے ذکر کیا کرب کے سفر کا
کھلی تھی جیسے بساط پہلے ہی ہم پہ اپنی
نہ پوچھ پائے پتہ جبھی یارکے نگر کا
حقیر دشمن دکھائی دیتا ہو جس کسی کو
سلوک کھلیان سے وہ پوچھے کبھی شرر کا
نمک کو جیسا مقام حاصل ہے کھیوڑے میں
ہمارے ہاں بھی ہے حال ایسا ہی کچھ ہنر کا
ہمیں ہی اقرار اب نگاہوں کے عجز کا ہے
ہمِیں نے دیکھا تھا خواب ماجدؔ کبھی سحرکا
ماجد صدیقی

تیر کھانے ہیں پھر جگر پہ ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
سر جھکانا ہے اُس کے در پہ ہمیں
تیر کھانے ہیں پھر جگر پہ ہمیں
بھیج کر اُس نے کب خبر لی ہے
زندگانی کے اِس سفر پہ ہمیں
تتلیوں سی لگے نہ ہاتھ لگے
اعتبار اب نہیں سحر پہ ہمیں
آنکھ اٹھنے نہ دے کسی جانب
زہر کا سا گماں ہے زر پہ ہمیں
ہم سے کہہ کر وہ اپنے آنے کی
ٹانک دیتا ہے بام و در پہ ہمیں
جانے کیونکر گماں صحیفوں کا
ہونے لگتا ہے چشمِ تر پہ ہمیں
جانے کس خوف کی لگے ماجدؔ
چھاپ سی اک نگر نگر پہ ہمیں
ماجد صدیقی

ہم اِک اُسی کی جستجو لئے نگر نگر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
وُہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اُتر گئے
ہم اِک اُسی کی جستجو لئے نگر نگر گئے
خیال قُرب اُسی کا سر پہ ابر سا جھُکا رہا
میانِ دشتِ روزگار ہم جدھر جدھر گئے
تھیں اُس کے مُڑ کے دیکھنے میں بھی عجب مسافتیں
حدوں سے شب کی ہم نکل کے جانبِ سحر گئے
دُھلے فلک پہ جس طرح شب سیہ کی چشمکیں
پسِ وصال ہم بھی کچھ اِسی طرح نکھر گئے
اُسی کی دید سے ہمیں تھے حوصلے اُڑان کے
گیا جو وہ تو جانئے کہ اپنے بال و پر گئے
وُہ جن کے چوکھٹوں میں عکس تھے مرے حبیب کے
وُہ ساعتیں کہاں گئیں وہ روز و شب کدھر گئے
ماجد صدیقی

اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ہو جائے گا کچھ اور ہرا زخم، نظر کا
اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا
مجھ کو بھی تمازت کی جو پہچان ہوئی ہے
احساں ہے تری راہ کے اک ایک شجر کا
لمحے مجھے صدیاں ہیں، برس ثانیے تجھ کو
کہتے ہیں یہی فرق ہے اندازِ نظر کا
سنتا ہوں تہہِ خاک سے غنچوں کی چٹک بھی
آتا ہے نظر عکس جو قطرے میں گہر کا
شامل ہوئی کس شب کی سیاہی مرے خوں میں
آتا ہی نہیں لب پہ کبھی نام سحر کا
ماجد کہیں اس شہر میں ٹھکرائے نہ جاؤ
تحفہ لئے پھرتے ہو کہاں دیدۂ تر کا
ماجد صدیقی

آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
کھُلتے ہوئے لگتے ہیں دریچے جو نظر کے
آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے
صُورت کوئی صّیاد نے چھوڑی ہی نہ باقی
میں سوچ رہا تھا ابھی امکان مفر کے
ہاں بھیک بھی پاؤگے تو ٹھوکر بھی کہیں سے
مصرف ہیں ابھی اور کئی کاسۂ سر کے
پھل ضربِ سرِ پا سے گرے صُورتِ باراں
اُترا تو مرے حصے میں پتّے تھے شجر کے
پہنچیں گے تہِ دام جو نکلے ہیں گُرِسنہ
منزل کا پتہ دیتے ہیں انداز سفر کے
کنکر وہ گرائے ہیں ابابیلِ جنوں نے
عاجز ہوئے انبوہ سبھی اہلِ خبر کے
کچھ دیکھ تو لینا تھا یہ کس شہر میں ماجدؔ
خالق ہُوئے تم شعر و سخن ایسے ہُنر کے
ماجد صدیقی

گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
فضائے تار میں تنہا نفس سفر کرتے
گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے
ہے اختلافِ نظر وجہِ خاموشی، ورنہ
ہم اُس کے پیار کا چرچا نگر نگر کرتے
یہ بات قرب کے منصب پہ منحصر تھی ترے
بچا کے رکھتے کہ دامن کو ہم بھی تر کرتے
درِ قفس پہ رُتیں دستکیں تو دیتی رہیں
ہُوا نہ ہم سے کہ ہم فکرِ بال و پر کرتے
جو تو نہیں تھا تو جل جل کے خود ہی بجھتے رہے
ہم اور نذر کسے شعلۂ نظر کرتے
تری نظر کا اشارہ نہ مل سکا، ورنہ
وہ اوج کون سا تھا ہم جسے نہ سر کرتے
ابھی تلک تو نہ مخدوم ہم ہوئے ماجدؔ
اگرچہ عُمر ہوئی خدمتِ ہنر کرتے
ماجد صدیقی

چُپ چاپ تھے جانے کیوں شجر بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
سہمے تھے چمن کے نغمہ گر بھی
چُپ چاپ تھے جانے کیوں شجر بھی
محرومِ ہوائے گل رہے ہم
ہر چند کھُلے تھے اپنے در بھی
انجام سے جیسے باخبر تھے
ٹھِٹکے رہے گُل بہ شاخِ تر بھی
ہے جاں پہ نظر سو وہ بھی لے لے
اے درد کی رو! کہیں ٹھہر بھی
کچھ کچھ ہمیں مانتے ہیں اب کے
اِس مُلکِ سخن کے تاجور بھی
اک صبر ذرا، وہ دیکھ ماجدؔ
کھُلتا ہے دریچۂ سحر بھی
ماجد صدیقی

ہوتا نہیں چاند کا گزر تک

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یہ حال ہے اب اُفق سے گھر تک
ہوتا نہیں چاند کا گزر تک
یہ آگ کہاں دبی پڑی تھی
پہنچی ہے جو اَب دل و جگر تک
دیکھا تو یہ دل جہاں نما تھا
محدود تھے فاصلے نظر تک
ہوں راہیِ منزلِ بقا اور
آغاز نہیں ہُوا سفر تک
تھے رات کے زخم یا ستارے
بُجھ بُجھ کے جلے ہیں جو سحر تک
ہے ایک ہی رنگ، دردِ جاں کا
ماجدؔ نمِ چشم سے شرر تک
ماجد صدیقی

دل کو بے چین کر گئے نغمے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
لب پہ آئے، بکھر گئے نغمے
دل کو بے چین کر گئے نغمے
جنبشِ لب سے وا ہوئے غنچے
صورتِ گل نکھر گئے نغمے
دُور تک تیرا ساتھ قائم تھا
دُور تک ہم سفر گئے نغمے
دھڑکنوں کی زباں سے نکلے تھے
پتّھروں تک بکھر گئے نغمے
اُڑ گئے جیسے اوس کے ہمراہ
تھے جو ماجدؔ سحر سحر نغمے
ماجد صدیقی

پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
کوئی بستی نہ دیوار و در سامنے
پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے
اپنی جانب لپکتے قدم دیکھ کر
مُسکراتے ہیں گل شاخ پر سامنے
یاد میں تھیں صبا کی سی اٹکھیلیاں
جانے کیا کچھ رہا رات بھر سامنے
زندگی ہے کہ آلام کی گرد سے
ہانپتی ہے کوئی راہگزر سامنے
رات تھی جیسے جنگل کا تنہا سفر
چونک اُٹھے جو دیکھی سحر سامنے
آئنے ہیں مقابل جِدھر دیکھیے
اپنی صورت ہے با چشمِ ترا سامنے
ہم ہیں ماجدؔ سُلگتے دئیے رات کے
بُجھ گئے بھی تو ہو گی سحر سامنے
ماجد صدیقی

یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
جو مجتمع ہو رہا ہوں پل پل مجھے بتا میں بکھر نہ جاؤں
یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں
یہ ایک لمحہ کہ جان لُوں تو اِسی میں ایٹم سی قوّتیں ہیں
مجھے ہے جینا اگر تو پہنائیوں میں اِس کی اُتر نہ جاؤں
سیاہ راتیں چٹان بھی ہیں تو میرے قدموں کی خاک ہوں گی
یہ کس طرح ہو کہ جستجو میں تری، سحر تا سحر نہ جاؤں
غمِ زمانہ تری حقیقت سے چشم پوشی بڑی خطا ہے
مگر مجھے وہم ہے کہ ہستی سے ہی تری میں مکر نہ جاؤں
چمن کے گُلہائے ناز پرور! نہ مجھ مسافر کا حال پوچھو
یہ بارشِ گرد ہو نہ درپے تو میں بھی تم سا نکھر نہ جاؤں
دلوں میں یاروں کے وسوسے ہیں تو میں بھی کیوں دل کو دشت کر لوں
گمان تک بھی کروں جو ایسا تو جاں سے ماجدؔ گزر نہ جاؤں
ماجد صدیقی

مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
تھا نہ جانے کون سے بے رحم ڈر کا سامنا
مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا
کرچیاں اُتری ہیں آنکھوں میں اندھیری رات کی
اور اُدھر مژدہ کہ لو کیجو سحر کا سامنا
ننھی ننھی خواہشوں کا مدفنِ بے نُور سا
زندگی ہے اب تو جیسے اپنے گھر کا سامنا
تجربہ زنداں میں رہنے کا بھی مجھ کو دے گیا
بعد جانے کے ترے دیوار و در کا سامنا
پیرہن کیا جسم کا حصہ سمجھئے اَب اسے
تا بہ منزل ہے اِسی گردِ سفر کا سامنا
دیکھنے زیبا ہیں کب ایسے کھنڈر بعدِ خزاں
کون اب کرنے چلے شاخ و شجر کا سامنا
کچھ کہو یہ کس جنم کی ہے سزا ماجدؔ تمہیں
روز و شب کیوں ہے یہ تخلیق ہُنر کا سامنا
ماجد صدیقی

رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
پہنچے بہ کوئے دل کہ نظر سے گزر گئے
رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے
حاصل تجھے ہے تیرے قدر و رُخ سے یہ مقام
اور ہم بزورِ نطق دلوں میں اُتر گئے
آیا جہاں کہیں بھی میّسر ترا خیال
نِکلے دیارِ شب سے بہ کوئے سحر گئے
جن کے چمن کو تُو نے بہارِ خیال دی
ماجدؔ ترے وہ دوست کہاں تھے کدھر گئے
ماجد صدیقی

بہت بڑا ہے سفر، تھوڑی دور ساتھ چلو

احمد فراز ۔ غزل نمبر 48
کٹھن ہے راہ گزر، تھوڑی دور ساتھ چلو
بہت بڑا ہے سفر، تھوڑی دور ساتھ چلو
تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
میں جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو
نشے میں چور ہوں میں بھی، تمہیں بھی ہوش نہیں
بڑا مزا ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے
کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ چلو
ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے
ابھی ہے دور سحر، تھوڑی دور ساتھ چلو
طوافِ منزلِ جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
احمد فراز

زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون

احمد فراز ۔ غزل نمبر 43
اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون
دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ہو جائیں گے
جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون
زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون
وہ ہوس ہو یا وفا ہو بات محرومی کی ہے
لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون
ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا
رات تھی کس کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون
ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز
شہر نا پرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون
احمد فراز

جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 24
اس طرح دیکھتا ہوں اُدھر وہ جدھر نہ ہو
جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو
یہ شہرِ نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار
اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو
ایسے قدم قدم وہ سراپا غرور ہے
جیسے خرامِ ناز سے آگے سفر نہ ہو
میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے
ممکن ہے یہ سخن کبھی بارِ دگر نہ ہو
ہونے دو آج شاخِ تمنا کو بارور
ممکن ہے کل صبا کا یہاں سے گزر نہ ہو
میں بھی دکھائوں شوق کی جولانیاں تجھے
یہ مشتِ خاک راہ میں حائل اگر نہ ہو
اک یہ فریب دیکھنا باقی ہے وقت کا
دل ڈوب جائے اور دوبارہ سحر نہ ہو
یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خوفِ رہ گزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو
عرفان ستار

سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 144
ان کے جاتے ہی وحشت کا اثر دیکھا کیے
سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے
دل کو وہ کیا دیکھتے سوزِ جگر دیکھا کیے
لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کیے
ان کی محفل میں انھیں سب رات بھر دیکھا کیے
ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کیے
تم سرہانے سے گھڑی بھر کے لیئے منہ پھیر لو
دم نہ نکلے گا مری صورت اگر دیکھا کیے
میں کچھ اس حالت سے ان کے سامنے پہنچا کہ وہ
گو مری صورت سے نفرت تھی مگر دیکھا کیے
فائدہ کیا ایسی شرکت سے عدو کی بزم میں
تم ادھر دیکھا کیے اور ہم ادھر دیکھا کیے
شام سے یہ تھی ترے بیمار کی حالت کہ لوگ
رات بھر اٹھ اٹھ کے آثار سحر دیکھا کیے
بس ہی کیا تھا بے زباں کہتے ہی کیا صیاد سے
یاس کی نظروں سے مڑ کر اپنا گھر دیکھا کیے
موت آ کر سامنے سے لے گئی بیمار کو
دیکھئے چارہ گروں کو چارہ گر دیکھا کیے
رات بھر تڑپا کیا ہے دردِ فرقت سے قمر
پوچھ تاروں سے تارے رات بھر دیکھا کیے
قمر جلالوی

اسِیروں کے کسی قابل اگر صیاد پر ہوتے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 116
قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے
اسِیروں کے کسی قابل اگر صیاد پر ہوتے
مجھے صورت دیکھا کر چاہے پھر دشمن کے گھر ہوتے
دم آنکھو میں نہ رک جاتا اگر پیشِ نظر ہوتے
چلو بیٹھو شبِ فرقت کو دعا دو ضبط کو ورنہ
مرے نالوں کو سنتے اور تم دشمن کے گر ہوتے
علاجِ دردِ شامِ غم مسیحا ہو چکا جاؤ
مریضِ ہجر کی میت اٹھا دینا سحر ہوتے
مداوا جب دلِ صد چاک کا ہوتا شبِ فرقت
رفو کے واسطے تارے گریبانِ سحر ہوتے
قمر اللہ جانے کون تھا کیا تھا شبِ وعدہ
مثالِ درد جو پہلو سے اٹھا تھا سحر ہوتے
قمر جلالوی

اتنے کہاں ہوئے ہیں مرے بال و پر ابھی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 106
قیدِ قفس سے چھٹ کے پہنچ جاؤں گھر ابھی
اتنے کہاں ہوئے ہیں مرے بال و پر ابھی
بیمارِ ہجر آئی کہاں سے سحر ابھی
تارہ کوئی نہیں ہے ادھر سے ادھر ابھی
صیاد صرف پاسِ وفا ہے جو ہوں خموش
ورنہ خدا کے فضل سے ہیں بال و پر ابھی
کیا آ رہے ہو واقعی تم میرے ساتھ ساتھ
یہ کام کر رہا ہے فریبِ نظر ابھی
کیوں روتے روتے ہو گئے چپ شامِ غم قمر
تارے بتا رہے ہیں نہیں ہے سحر ابھی
قمر جلالوی

وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 100
آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی
وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی
پوری کیا موسیٰؑ تمنا طور پر ہو جائے گی
تم اگر اوپر گئے نیچی نظر ہو جائے گی
کیا ان آہوں سے شبِ غم مختصر ہو جائے گی
یہ سحر ہونے کی باتیں ہیں سحر ہو جائے گی ؟
آ تو جائیں گے وہ میری آہِ پر تاثیر سے
محفلِ دشمن میں رسوائی مگر ہو جائے گی
کس سے پوچھیں کے وہ میرے رات کے مرنے کا حال
تو بھی اب خاموش اے شمعِ سحر ہو جائے گی
یہ بہت اچھا ہوا آئیں گے وہ پہلے پہر
چاندنی بھی ختم جب تک اے قمر ہو جائے گی
قمر جلالوی

وہ دو سانس کا دم اور یہ شب چار پہر کی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 96
بیمار کو کیا خاک ہوا امید سحر کی
وہ دو سانس کا دم اور یہ شب چار پہر کی
مہماں ہے کبھی میری کبھی غیر کے گھر کی
تو اے شبِ فرقت ادھر کی نہ ادھر کی
اللہ رے الفت بتِ کافر ترے در کی
منت مجھے درباں کی نہ کرنی تھی مگر کی
بیمار شبِ ہجر کی ہو خیر الٰہی
اتری ہوئی صورت نظر آتی ہے سحر کی
اس وعدہ فراموش کے آنسو نکل گئے
بیمار نے جو چہرے پر حسرت سے نظر کی
اے شمع مرے حال پہ تو روئے گی کب تک
مجھ پر تو مصیبت ہے ابھی چار پہل کی
یہ وقت وہ ہے غیر بھی اٹھ کر نہیں جاتے
آنکھوں میں مرا دم ہے تمہیں سوجھی ہے گھر کی
دم توڑنے والا ہے مریضِ خمِ گیسو
سوجھی ہے مسافر کو سرِ شام سفر کی
جاؤ بھی شبِ وعدہ رکھا خوب پریشاں
رہنے دو قسم کھا گئے جھوٹی مرے سر کی
ہر اک سے کہتے ہو کہ وہ مرتا مجھ پر
چاہے کبھی صورت بھی نہ دیکھی ہو قمر کی
قمر جلالوی

عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 85
ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ
عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ
چٹک کر دی صدا غنچہ نے شاخِ گل کی جنبش پر
یہ گلشن ہے ذرا بادِ سحر آہستہ آہستہ
قفس میں دیکھ کر بازو اسیر آپس میں کہتے ہیں
بہارِ گل تک آ جائیں گے پر آہستہ آہستہ
کوئی چھپ جائے گا بیمارِ شامِ ہجر کا مرنا
پہنچ جائے گی ان تک بھی خبر آہستہ آہستہ
غمِ تبدیلی گلشن کہاں تک پھر یہ گلشن ہے
قفس بھی ہو تو بن جاتا ہے گھر آہستہ آہستہ
ہمارے باغباں نے کہہ دیا گلچیں کے شکوے پر
نئے اشجار بھی دیں گے ثمر آہستہ آہستہ
الٰہی کو نسا وقت آگیا بیمارِ فرقت پر
کہ اٹھ کر چل دیے سب چارہ گر آہستہ آہستہ
نہ جانے کیوں نہ آیا ورنہ اب تک کب کا آ جاتا
اگر چلتا نامہ بر وہاں سے آہستہ آہستہ
خفا بھی ہیں ارادہ بھی ہے شاید بات کرنے کا
وہ چل نکلیں ہیں مجھ کو دیکھ کر آہستہ آہستہ
جوانی آگئی دل چھیدنے کی بڑھ گئیں مشقیں
چلانا آگیا تیرِ نظر آہستہ آہستہ
جسے اب دیکھ کر اک جان پڑتی ہے محبت میں
یہی بن جائے گی قاتل نظر آہستہ آہستہ
ابھی تک یاد ہے کل کی شبِ غم اور تنہائی
پھر اس پر چاند کا ڈھلنا قمر آہستہ آہستہ
قمر جلالوی

تم کہیں بھول نہ جاؤ مرے گھر کی صورت

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 38
دیکھو پھر دیکھ لو دیوار کی دَر کی صورت
تم کہیں بھول نہ جاؤ مرے گھر کی صورت
خیر ہو آپ کے بیمارِ شبِ فرقت کی
آج اتری نظر آتی ہے سحر کی صورت
اے کلی اپنی طرف دیکھ کہ خاموش ہے کیوں
کل کو ہو جائے گی تو بھی گلِ تر کی صورت
جام خالی ہوئے محفل میں ہمارے آگے
ہم بھرے بیٹھے رہے دیدۂ تر کی صورت
پوچھتا ہوں ترے حالات بتاتے ہی نہیں
غیر کہتے نہیں مجھ سے ترےِدر کی صورت
اس نے قدموں میں بھی رکھا سرِمحفل نہ ہمیں
جس کہ ہم ساتھ رہے گردِ سفر کی صورت
رات کی رات مجھے بزم میں رہنے دیجئے
آپ دیکھیں گے سحر کو نہ قمر کی صورت
قمر جلالوی

کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 12
کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا
کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا
مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوزِ جگر اپنا
ہمیشہ مینہ پرستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا
پسینہ، اشکِ حسرت، بے قراری، آخری ہچکی
اکھٹا کر رہا ہوں آج سامانِ سفر اپنا
یہ شب کا خواب یا رب فصلِ گل میں سچ نہ ہو جائے
قفس کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا ہے گھر اپنا
دمِ آخر علاجِ سوزِ غم کہنے کی باتیں ہیں
مرا رستہ نہ روکیں راستہ لیں چارہ گر اپنا
نشاناتِ جبیں جوشِ عقیدت خود بتائیں گے
نہ پوچھو مجھ سے سجدے جا کے دیکھو سنگِ در اپنا
جوابِ خط کا ان کے سامنے کب ہوش رہتا ہے
بتاتے ہیں پتہ میری بجائے نامہ بر اپنا
مجھ اے قبر دنیا چین سے رہنے نہیں دیتی
چلا آیا ہوں اتنی بات پر گھر چھوڑ کر اپنا
شکن آلود بستر، ہر شکن پر خون کے دھبے
یہ حالِ شامِ غم لکھا ہے ہم نے تا سحر اپنا
یہی تیر نظر ہیں مرے دل میں حسینوں کے
جو پہچانو تو لو پہچان لو تیرِ نظر اپنا
قمر ان کو نہ آنا تھا نہ آئے صبح ہو نے تک
شبِ وعدہ سجاتے ہی رہے گھر رات بھر اپنا
قمر جلالوی

طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 72
مانا سحر کو یار اسے جلوہ گر کریں
طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں
تزئین میری گور کی لازم ہے خوب سی
تقریبِ سیر ہی سے وہ شاید گزر کریں
اب ایک اشک ہے دُرِ نایاب، وہ کہاں
تارِ نظر جو گریہ سے سلکِ گہر کریں
وہ دوست ہیں انہیں جو اثر ہو گیا تو کیا
نالے ہیں وہ جو غیر کے دل میں اثر کریں
آئے تو ان کو رنج، نہ آئے تو مجھ کو رنج
مرنے کی میرے کاش نہ ان کو خبر کریں
ہے جی میں سونگھیں نکہتِ گل جا کے باغ میں
بس کب تک التجائے نسیمِ سحر کریں
اب کے ارادہ ملکِ عدم کا ہے شیفتہ
گھبرا گئے کہ ایک جگہ کیا بسر کریں
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
جب یوں نگاہبانیِ مرغِ سحر کریں
محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں
کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں
واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں
اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں
مصطفٰی خان شیفتہ

رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 58
کیا غیر تھا کہ شب کو نہ تھا جلوہ گر چراغ
رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ
کیا لطفِ آہ، صبحِ شبِ ہجرِ مہروش
کیا فائدہ جو کیجئے روشن سحر چراغ
پروانہ گر نہ جائے تو بے جا ہے لافِ عشق
روشن ہے میرے نالوں سے افلاک پر چراغ
حربا کرے طریقۂ پروانہ اختیار
اُس تابِ رخ سے کیجئے روشن اگر چراغ
پروانہ ہو گیا ہے رقیبِ کتاں کہ ہے
اُس مہر وش کے جلوے کے آگے قمر چراغ
گستاخیوں کی تاب کسے اس کی بزم میں
بے باکیِ نسیم سے ہرگز نہ ڈر چراغ
ہے شمعِ انجمن وہ مہِ آتشیں عذار
گھی کے جلیں گے آج تو دشمن کے گھر چراغ
کرتا ہوں فکرِ شعر جو میں شب کو شیفتہ
رہتا ہے خواب گہ میں مری رات بھر چراغ
مصطفٰی خان شیفتہ

غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 54
ہے دل کو یوں ترے دمِ اعجاز اثر سے فیض
غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض
عشاق سے نگاہ نہ رکھو دریغ تم
پاتے ہیں لوگ خدمتِ اہلِ نظر سے فیض
ہے عالمِ کبیر میں بھی یوں ہی جس طرح
دل سے جگر کو فیض ہے، دل کو جگر سے فیض
آزردہ جفائے "دے” و "تیر” کو نہیں
یک ذرہ آب و آتشِ لعل و گہر سے فیض
اپنی نہاد میں نہیں احساں فرامشی
پایا ہے ہم نے صاعقے کا ابرِ تر سے فیض
زر کسب کر کہ عشرتِ خسرو نصیب ہو
فرہاد کو سنا ہے، ہوا جو ہنر سے فیض؟
لگتے ہیں اس کے سینہ و بر سے مدام ہم
ہوتا ہے ہم کو روز مہِ سیم بر سے فیض
اربابِ خانقاہ ہیں محتاجِ اغنیا
کافی ہے ہم کو پیرِ مغاں! تیرے در سے فیض
بلبل ہمارے گھر وہ خود آتے ہیں رحم سے
افزوں ہے بے پری میں یہاں بال و پر سے فیض
خرم نہادِ مے کش و زاہد شگفتہ دل
ہے شیفتہ ہر ایک کو وقتِ سحر سے فیض
مصطفٰی خان شیفتہ

کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 36
کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں
چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اک نظر آنکھیں
ہے دوا انکی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں
کوئی آسان ہے تیرا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں
جلوۂ یار کی نہ تاب ہوئی
ٹوٹ آئیں ہیں کس قدر آنکھیں
دل کو تو گھوَنٹ گھوَنٹ کر رکھا
مانتی ہی نہیں مگر آنکھیں
نہ گئی تاک جھانک کی عادت
لئے پھرتی ہیں در بہ در آنکھیں
ناوک و نیشتر تری پلکیں
سحرِ پرداز و فتنہ گر آنکھیں
یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں
خاک پر کیوں ہو نقشِ پا تیرا
ہم بچھائیں زمین پر آنکھیں
نوحہ گر کون ہے مقدر میں
رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں
یہی رونا ہے گر شبِ غم کا
پھوٹ جائیں گی تا سحر آنکھیں
حالَ دل دیکھنا نہیں آتا
دل کی بنوائیں چارہ گر آنکھیں
داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
انکو دیدو نکال کر آنکھیں
داغ دہلوی

سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 143
منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی
سودائے رنگ وہ تھا کہ اترا خود اپنا رنگ
پھر یہ کہ ساری جنسِ ہنر اس میں گم ہوئی
وہ میرا اک گمان کہ منزل تھا جس کا نام
ساری متاعِ شوقِ سفر اس میں گم ہوئی
دیوار کے سوا نہ رہا کچھ دلوں کے بیچ
ہر صورتِ کشایشِ در اس میں گم ہوئی
لائے تھے رات اس کی خبر قاصدانِ دل
دل میں وہ شور اٹھا کہ خبر اس میں گم ہوئی
اک فیصلے کا سانس تھا اک عمر کا سفر
لیکن تمام راہگزر اس میں گم ہوئی
بس جون کیا کہوں کہ مری ذاتِ نفع جو
جس کام میں یہاں تھا ضرور اس میں گم ہوئی
جون ایلیا

رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 225
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے
پروانہ خانہ غم ہو تو پھر کس لئے اسدؔ
ہر رات شمع شام سے لے تا سحر جلے
مرزا اسد اللہ خان غالب

دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 190
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
شق ہو گیا ہے سینہ، خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا! ہوسِ بال و پر گئی
دیکھو تو دل فریبـئ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
نظّارے نے بھی کام کِیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
فردا و دی کا تفرِقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
مارا زمانے نے اسدؔاللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
مرزا اسد اللہ خان غالب

پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں

دیوان ششم غزل 1851
آئے ہیں میر کافر ہوکر خدا کے گھر میں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر
جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں
سینے میں تیر اس کے ٹوٹے ہیں بے نہایت
سوراخ پڑ گئے ہیں سارے مرے جگر میں
آئندہ شام کو ہم رویا کڑھا کریں گے
مطلق اثر نہ دیکھا نالیدن سحر میں
بے سدھ پڑا رہوں ہوں اس مست ناز بن میں
آتا ہے ہوش مجھ کو اب تو پہر پہر میں
سیرت سے گفتگو ہے کیا معتبر ہے صورت
ہے ایک سوکھی لکڑی جو بو نہ ہو اگر میں
ہمسایۂ مغاں میں مدت سے ہوں چنانچہ
اک شیرہ خانے کی ہے دیوار میرے گھر میں
اب صبح و شام شاید گریے پہ رنگ آوے
رہتا ہے کچھ جھمکتا خونناب چشم تر میں
عالم میں آب و گل کے کیونکر نباہ ہو گا
اسباب گر پڑا ہے سارا مرا سفر میں
میر تقی میر

سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک

دیوان ششم غزل 1831
رہے ہے غش و درد دو دو پہر تک
سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک
ہوئے ہیں حواس اور ہوش و خرد گم
خبر کچھ تو آئی ہے اس بے خبر تک
زمیں گرد اس مہ کے میرے ہیں عاشق
ستارے فلک کے رہے ہیں ادھر تک
قیامت ہے مشتاق لوگوں کی کثرت
پہنچنا ہے مشکل ہمیں اس کے گھر تک
کہاں تک اسے سر سے مارا کروں میں
نہ پہنچا مرا ہاتھ اس کی کمر تک
بہار آئی پر ایک پتی بھی گل کی
نہ آئی اسیران بے بال و پر تک
بہت میر برہم جہاں میں رہیں گے
اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
میر تقی میر

دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر

دیوان ششم غزل 1827
زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر
دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر
خورشید و ماہ دونوں آخر نہ دل سے نکلے
آنکھوں میں پھر نہ آئے جی سے مرے اتر کر
یوسف عزیز دلہا جا مصر میں ہوا تھا
ذلت جو ہو وطن میں تو کوئی دن سفر کر
اے ہمنشیں غشی ہے میں ہوش میں نہیں ہوں
مجھ کو مری زبانی سو بار اب خبر کر
کیا حال زار عاشق کریے بیاں نہ پوچھو
کرتا ہے بات کوئی دل کی تو چشم تر کر
دیتے نہیں ہیں سونے ٹک آہ و نالے اس کے
یارب شب جدائی عاشق کی بھی سحر کر
اتنا ہی منھ چھپایا شوخ اس کے محرموں نے
جو بچھ گئی ہیں زلفیں اس چہرے پر بکھر کر
کیا پھیر پھیر گردن باتیں کرے ہے سب میں
جاتے ہیں غش کیے ہم مشتاق منھ ادھر کر
بن دیکھے تیرے میں تو بیمار ہو گیا ہوں
حال تبہ میں میرے تو بھی تو ٹک نظر کر
رخنے کیے جو تو نے پتھر کی سل میں تو کیا
اے آہ اس صنم کے دل میں بھی ٹک اثر کر
مارے سے غل کیے سے جاتا نہیں ہے ہرگز
نکلے گا اس گلی سے شاید کہ میر مرکر
میر تقی میر

مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب

دیوان ششم غزل 1809
ہے عشق میں جو حال بتر تو ہے کیا عجب
مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب
لے جا کے نامے کتنے کبوتر ہوئے ہیں ذبح
اڑتی سی ہم کو آوے خبر تو ہے کیا عجب
شبہاے تار و تیرہ زمانے میں دن ہوئیں
شب ہجر کی بھی ہووے سحر تو ہے کیا عجب
جیسے ہے رخنہ رخنہ یہ چرخ اثیر سب
اس آہ کا ہو اس میں اثر تو ہے کیا عجب
جاتی ہے چشم شوخ کسی کی ہزار جا
آوے ادھر بھی اس کی نظر تو ہے کیا عجب
لغزش ملک سے ہووے لچک اس کمر کی دیکھ
عاشق سے جو بندھے نہ کمر تو ہے کیا عجب
ترک وطن کیا ہے عزیزوں نے چاہ میں
کر جائے کوئی رفتہ سفر تو ہے کیا عجب
برسوں سے ہاتھ مارتے ہیں سر پہ اس بغیر
ہووے بھی ہم سے دست بسر تو ہے کیا عجب
معلوم سودمندی عشاق عشق میں
پہنچے ہے اس سے ہم کو ضرر تو ہے کیا عجب
گھر بار میں لٹا کے گیا گھر سے بھی نکل
اب آوے وہ کبھو مرے گھر تو ہے کیا عجب
ملتی نہیں ہے آنکھ اس آئینہ رو کی میر
وہ دل جو لے کے جاوے مکر تو ہے کیا عجب
میر تقی میر

کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے

دیوان پنجم غزل 1726
آنکھوں کی طرف گوش کی در پردہ نظر ہے
کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے
یہ راہ و روش سرو گلستاں میں نہ ہو گی
اس قامت دلچسپ کا انداز دگر ہے
یہ بادیۂ عشق ہے البتہ ادھر سے
بچ کر نکل اے سیل کہ یاں شیر کا ڈر ہے
وہ ناوک دلدوز ہے لاگو مرے جی کا
تو سامنے ہو ہمدم اگر تجھ کو جگر ہے
کیا پھیل پڑی مدت ہجراں کو نہ پوچھو
مہ سال ہوا ہم کو گھڑی ایک پہر ہے
کیا جان کہ جس کے لیے منھ موڑیے تم سے
تم آؤ چلے داعیہ کچھ تم کو اگر ہے
تجھ سا تو سوار ایک بھی محبوب نہ نکلا
جس دلبر خودکام کو دیکھا سو نفر ہے
شب شور و فغاں کرتے گئی مجھ کو تو اب تو
دم کش ہو ٹک اے مرغ چمن وقت سحر ہے
سوچے تھے کہ سوداے محبت میں ہے کچھ سود
اب دیکھتے ہیں اس میں تو جی ہی کا ضرر ہے
شانے پہ رکھا ہار جو پھولوں کا تو لچکی
کیا ساتھ نزاکت کے رگ گل سی کمر ہے
کر کام کسو دل میں گئی عرش پہ تو کیا
اے آہ سحرگاہ اگر تجھ میں اثر ہے
پیغام بھی کیا کریے کہ اوباش ہے ظالم
ہر حرف میاں دار پہ شمشیر و سپر ہے
ہر بیت میں کیا میر تری باتیں گتھی ہیں
کچھ اور سخن کر کہ غزل سلک گہر ہے
میر تقی میر

راہ رفتن ہے اب مگر درپیش

دیوان پنجم غزل 1635
رنج و غم آئے بیشتر درپیش
راہ رفتن ہے اب مگر درپیش
مرگ فرہاد سے ہوا بدنام
ہے خجالت سے تیشہ سردرپیش
یار آنکھوں تلے ہی پھرتا ہے
میری مدت سے ہے نظر درپیش
خانہ روشن پتنگوں نے نہ کیا
ہے چراغوں کو بھی سحر درپیش
غم سے نزدیک مرنے کے پہنچے
دور کا میر ہے سفر درپیش
میر تقی میر

سو پر وا ہوئے نہ قفس کے بھی در پر

دیوان پنجم غزل 1609
بھروسا اسیری میں تھا بال و پر پر
سو پر وا ہوئے نہ قفس کے بھی در پر
سواران شائستہ کشتے ہیں تیرے
نہ تیغ ستم کر علم ہر نفر پر
کھلا پیش دنداں نہ اس کا گرہچہ
کنھوں نے بھی تھوکا نہ سلک گہر پر
جلے کیوں نہ چھاتی کہ اپنی نظر ہے
کسو شوخ پرکار رعنا پسر پر
نہ محشر میں چونکا مرا خون خفتہ
وہی تھا یہ خوابیدہ اس شور و شر پر
کئی زخم کھا کر تڑپتا رہا دل
تسلی تھی موقوف زخم دگر پر
سنا تھا اسے پاس لیکن نہ پایا
چلے دور تک ہم گئے اس خبر پر
سرشب کہے تھا بہانہ طلب وہ
گھڑی ایک رات آئی ہو گی پہر پر
کوئی پاس بیٹھا رہے کب تلک یوں
کہو ہو گی رخصت گئے اب سحر پر
جہاں میں نہ کی میر اقامت کی نیت
کہ مشعر تھا آنا مرا یاں سفر پر
میر تقی میر

کہ وے نرگسی زن تھے گلہاے تر پر

دیوان پنجم غزل 1608
کئی داغ ایسے جلائے جگر پر
کہ وے نرگسی زن تھے گلہاے تر پر
گیا میری وادی سے سیلاب بچ کر
نظر یاں جو کی عشق کے شیرنر پر
سر رہ سے اس کے موئے ہی اٹھیں گے
یہ جی جا رہا ہے اسی رہگذر پر
سر اس آستاں پر رگڑتے گئے ہیں
ہوئے خون یاروں کے اس خاک در پر
ہم آتا اسے سن کے جیتوں میں آئے
بنا زندگانی کی ہے اب خبر پر
اسے لطف اس کا ہی لاوے تو لاوے
نہیں وصل موقوف کچھ زور و زر پر
سرکتے نہیں شوق کشتوں کے سر بن
قیامت سا ہنگامہ ہے اس کے در پر
اتر جو گیا دل سے روکش ہو اس کا
چڑھا پھر نہ خورشید میری نظر پر
بھری تھی مگر آگ دل میں دروں میں
ہوئے اشک سوزش سے اس کی شرر پر
گیا پی جو ان آنسوئوں کے تئیں میں
سراسر ہیں اب داغ سطح جگر پر
سرعجز ہر شام تھا خاک پر ہی
تہ دل تھی کیسی ہی آہ سحر پر
پلک اٹھے آثار اچھے نہ دیکھے
پڑی آنکھ ہرگز نہ روے اثر پر
طرف شاخ گل کی لچک کے نہ دیکھا
نظر میر کی تھی کسو کی کمر پر
غزل در غزل صاحبو یہ بھی دیکھو
نہیں عیب کرنا نظر اک ہنر پر
میر تقی میر

اور نیچی نظر کریں کیوں کر

دیوان چہارم غزل 1393
بزم میں منھ ادھر کریں کیوں کر
اور نیچی نظر کریں کیوں کر
یوں بھی مشکل ہے ووں بھی مشکل ہے
سر جھکائے گذر کریں کیوں کر
رازپوشی عشق ہے منظور
آنکھیں رو رو کے تر کریں کیوں کر
مست و بے خود ہم اس کے در پہ گئے
لوگ اس کو خبر کریں کیوں کر
سو رہا بال منھ پہ کھول کے وہ
ہم شب اپنی سحر کریں کیوں کر
مہ فلک پر ہے وہ زمیں پر آہ
ان کو زیر و زبر کریں کیوں کر
دل نہیں دردمند اپنا میر
آہ و نالے اثر کریں کیوں کر
میر تقی میر

اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں

دیوان سوم غزل 1217
تاچند وہ ستم کرے ہم درگذر کریں
اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں
بے رو سے ایسی بات کے کرنے کا لطف کیا
وہ منھ کو پھیر پھیر لے ہم حرف سر کریں
کب تک ہم انتظار میں ہر لحظہ بے قرار
گھر سے نکل نکل کے گلی میں نظر کریں
فرہاد و قیس کوہکن و دشت گرد تھے
منھ نوچیں چھاتی کوٹیں یہی ہم ہنر کریں
سختی مسلم اس سے جدا رہنے میں ولے
سر سنگ سے نہ ماریں تو کیوں کر بسر کریں
وہ تو نہیں کہ دیکھیں اس آئینہ رو کو صبح
ہم کس امید پر شب غم کو سحر کریں
لاویں کہاں سے خون دل اتنا کہ میر ہم
جس وقت بات کرنے لگیں چشم تر کریں
میر تقی میر

لگی ہے آگ اک میرے جگر میں

دیوان سوم غزل 1207
شرر سے اشک ہیں اب چشم تر میں
لگی ہے آگ اک میرے جگر میں
نگین عاشق و معشوق کے رنگ
جدا رہتے ہیں ہم وے ایک گھر میں
بلا ہنگامہ تھا کل اس کے در پر
قیامت گم ہوئی اس شور و شر میں
بگولے کی روش وحشت زدہ ہم
رہے برچیدہ دامن اس سفر میں
سماں یاں سانجھ کا سا ہو نہ جاتا
اثر ہوتا اگر آہ سحر میں
لچکنے ہی نے ہم کو مار رکھا
کٹاری تو نہ تھی اس کی کمر میں
رہا تھا دیکھ اودھر میر چلتے
عجب اک ناامیدی تھی نظر میں
میر تقی میر

ہے عجب طور کا سفر درپیش

دیوان سوم غزل 1146
فکر میں مرگ کے ہوں سر درپیش
ہے عجب طور کا سفر درپیش
کس کی آنکھیں پھرے ہیں آنکھوں میں
دم بہ دم ہے مری نظر درپیش
مستی بھی اہل ہوش کی ہے جنھیں
آوے ہے عالم دگر درپیش
کیا کروں نقل راہ ہستی میں
مرحلے آئے کس قدر درپیش
کیا پتنگے کو شمع روئے میر
اس کی شب کو بھی ہے سحر درپیش
میر تقی میر

ہم تک نہیں پہنچتی گل کی خبر عطر کچھ

دیوان دوم غزل 946
اب تو صبا چمن سے آتی نہیں ادھر کچھ
ہم تک نہیں پہنچتی گل کی خبر عطر کچھ
ذوق خبر میں ہم تو بے ہوش ہو گئے تھے
کیا جانے کب وہ آیا ہم کو نہیں خبر کچھ
یہ طشت و تیغ ہے اب یہ میں ہوں اور یہ تو
ہے ساتھ میرے ظالم دعویٰ تجھے اگر کچھ
وے دن گئے کہ بے غم کوئی گھڑی کٹے تھی
تھمتے نہیں ہیں آنسو اب تو پہر پہر کچھ
ان اجڑی بستیوں میں دیوار و در ہیں کیا کیا
آثار جن کے ہیں یہ ان کا نہیں اثر کچھ
واعظ نہ ہو معارض نیک و بد جہاں سے
جو ہوسکے تو غافل اپنا ہی فکر کر کچھ
آنکھوں میں میری عالم سارا سیاہ ہے اب
مجھ کو بغیر اس کے آتا نہیں نظر کچھ
ہم نے تو ناخنوں سے منھ سارا نوچ ڈالا
اب کوہکن دکھاوے رکھتا ہے گر ہنر کچھ
تلوار کے تلے ہی کاٹی ہے عمر ساری
ابروے خم سے اس کے ہم کو نہیں ہے ڈر کچھ
گہ شیفتہ ہیں مو کے گہ بائولے ہیں رو کے
احوال میر جی کا ہے شام کچھ سحر کچھ
میر تقی میر

قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو

دیوان دوم غزل 929
لا میری اور یارب آج ایک خوش کمر کو
قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو
بے طاقتی میں شب کی پوچھو نہ ضبط میرا
ہاتھوں میں دل کو رکھا دانتوں تلے جگر کو
پھولا پھلا نہ اب تک ہرگز درخت خواہش
برسوں ہوئے کہ دوں ہوں خون دل اس شجر کو
ہے روزگار میرا ایسا سیہ کہ یارو
مشکل ہے فرق کرنا ٹک شام سے سحر کو
ہرچند ہے سخن کو تشبیہ در سے لیکن
باتیں مری سنو تو تم پھینک دو گہر کو
نزدیک ہے کہ جاویں ہم آپ سے اب آئو
ملتے ہیں دوستوں سے جاتے ہوئے سفر کو
کب میر ابر ویسا برساوے کر اندھیری
جیسا کہ روتے ہم نے دیکھا ہے چشم تر کو
میر تقی میر

جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں

دیوان دوم غزل 892
یوں قیدیوں سے کب تئیں ہم تنگ تر رہیں
جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں
اے کاش ہم کو سکر کی حالت رہے مدام
تا حال کی خرابی سے ہم بے خبر رہیں
رہتے ہیں یوں حواس پریشاں کہ جوں کہیں
دو تین آ کے لوٹے مسافر اتر رہیں
وعدہ تو تب ہو صبح کا جب ہم بھی جاں بلب
جیسے چراغ آخر شب تا سحر رہیں
آوارگی کی سب ہیں یہ خانہ خرابیاں
لوگ آویں دیکھنے کو بہت ہم جو گھر رہیں
ہم نے بھی نذر کی ہے کہ پھریے چمن کے گرد
یارب قفس کے چھوٹنے تک بال و پر رہیں
ان دلبروں کی آنکھ نہیں جاے اعتماد
جب تک رہیں یہ چاہیے پیش نظر رہیں
فردا کی فکر آج نہیں مقتضاے عقل
کل کی بھی دیکھ لیویں گے کل ہم اگر رہیں
تیغ و تبر رکھا نہ کرو پاس میر کے
ایسا نہ ہو کہ آپ کو ضائع وے کر رہیں
میر تقی میر

کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں

دیوان دوم غزل 890
کوچے میں تیرے میر کا مطلق اثر نہیں
کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں
ہے عاشقی کے بیچ ستم دیکھنا ہی لطف
مر جانا آنکھیں موند کے یہ کچھ ہنر نہیں
کب شب ہوئی زمانے میں جو پھر ہوا نہ روز
کیا اے شب فراق تجھی کو سحر نہیں
ہر چند ہم کو مستوں سے صحبت رہی ہے لیک
دامن ہمارا ابر کے مانند تر نہیں
گلگشت اپنے طور پہ ہے سو تو خوب یاں
شائستۂ پریدن گلزار پر نہیں
کیا ہو جے حرف زن گذر دوستی سے آہ
خط لے گیا کہ راہ میں پھر نامہ بر نہیں
آنکھیں تمام خلق کی رہتی ہیں اس کی اور
مطلق کسو کو حال پہ میرے نظر نہیں
کہتے ہیں سب کہ خون ہی ہوتا ہے اشک چشم
راتوں کو گر بکا ہے یہی تو جگر نہیں
جاکر شراب خانے میں رہتا نہیں تو پھر
یہ کیا کہ میر جمعے ہی کی رات گھر نہیں
میر تقی میر

گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں

دیوان دوم غزل 875
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں
ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا
دل اچنبھا ہے کہ ہے سوختہ تر پانی میں
آب شمشیر قیامت ہے برندہ اس کی
یہ گوارائی نہیں پاتے ہیں ہر پانی میں
طبع دریا جو ہو آشفتہ تو پھر طوفاں ہے
آہ بالوں کو پراگندہ نہ کر پانی میں
غرق آب اشک سے ہوں لیک اڑا جاتا ہوں
جوں سمک گوکہ مرے ڈوبے ہیں پر پانی میں
مردم دیدئہ تر مردم آبی ہیں مگر
رہتے ہیں روز و شب و شام و سحر پانی میں
ہیئت آنکھوں کی نہیں وہ رہی روتے روتے
اب تو گرداب سے آتے ہیں نظر پانی میں
گریۂ شب سے بہت آنکھ ڈرے ہے میری
پائوں رکھتے ہی نہیں باردگر پانی میں
فرط گریہ سے ہوا میر تباہ اپنا جہاز
تختہ پارے گئے کیا جانوں کدھر پانی میں
میر تقی میر

نہ پہنچا کبھو ہاتھ اس کی کمر تک

دیوان دوم غزل 845
لیا چیرہ دستی سے گر میر سر تک
نہ پہنچا کبھو ہاتھ اس کی کمر تک
مجھے نیند کیسی کہ مانند انجم
کھلی رہتی ہیں میری آنکھیں سحر تک
اٹھا پاس بے اختیاری سے سب کا
بکا بیٹھے کرتے ہیں دو دو پہر تک
دماغ اور دل ہیں سراسیمہ دونوں
سرزخم شاید کہ پہنچا جگر تک
بلا شور و ہنگامہ ہے دل زدوں کا
قیامت کیے جائے ہے اس کے گھر تک
نہ دے ماریں چوکھٹ سے سر کو تو کہیو
رسائی ہوا چاہیے اس کے در تک
محبت میں جی سے گئے میر آخر
خبر گفتنی ہے یہ ہر بے خبر تک
میر تقی میر

اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد

دیوان دوم غزل 799
اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد
اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد
پھریں گے لوٹتے صحن چمن میں بائو کے ساتھ
موئے گئے بھی مرے مشت بال و پر صیاد
رہے گی ایسی ہی گر بے کلی ہمیں اس سال
تو دیکھیو کہ رہے ہم قفس میں مر صیاد
چمن کی باؤ کے آتے خبر نہ اتنی رہی
کہ میں کدھر ہوں کدھر ہے قفس کدھر صیاد
شکستہ بالی کو چاہے تو ہم سے ضامن لے
شکار موسم گل میں ہمیں نہ کر صیاد
ہوا نہ وا درگلزار اپنے ڈھب سے کبھو
کھلا سو منھ پہ ہمارے قفس کا در صیاد
سنا ہے بھڑکی ہے اب کی بہت ہی آتش گل
چمن میں اپنے بھی ہیں خار و خس کے گھر صیاد
لگی بہت رہیں چاک قفس سے آنکھیں لیک
پڑا نہ اب کے کوئی پھول گل نظر صیاد
اسیر میر نہ ہوتے اگر زباں رہتی
ہوئی ہماری یہ خوش خوانی سحر صیاد
میر تقی میر

رونا مرا سنوگے کہ طوفان کر رہا

دیوان دوم غزل 695
جوں ابرقبلہ دل ہے نہایت ہی بھر رہا
رونا مرا سنوگے کہ طوفان کر رہا
شب میکدے سے وارد مسجد ہوا تھا میں
پر شکر ہے کہ صبح تئیں بے خبر رہا
مل جس سے ایک بار نہ پھر تو ہوا دوچار
رک رک کے وہ ستم زدہ ناچار مر رہا
تسکین دل ہو تب کہ کبھو آگیا بھی ہو
برسوں سے اس کا آنا یہی صبح پر رہا
اس زلف و رخ کو بھولے مجھے مدتیں ہوئیں
لیکن مرا نہ گریۂ شام و سحر رہا
رہتے تو تھے مکاں پہ ولے آپ میں نہ تھے
اس بن ہمیں ہمیشہ وطن میں سفر رہا
اب چھیڑ یہ رکھی ہے کہ پوچھے ہے بار بار
کچھ وجہ بھی کہ آپ کا منھ ہے اتر رہا
اک دم میں یہ عجب کہ مرے سر پہ پھر گیا
جو آب تیغ برسوں تری تا کمر رہا
کاہے کو میں نے میر کو چھیڑا کہ ان نے آج
یہ درد دل کہا کہ مجھے درد سر رہا
میر تقی میر

گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا

دیوان دوم غزل 693
کل دل آزردہ گلستاں سے گذر ہم نے کیا
گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا
کر گئی خواب سے بیدار تمھیں صبح کی بائو
بے دماغ اتنے جو ہو ہم پہ مگر ہم نے کیا
سیدھے تلوار کے منھ پر تری ہم آئے چلے
کیا کریں اس دل خستہ کو سپر ہم نے کیا
نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں
سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا
پائوں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہو گی ہم سی
کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا
کھا گیا ناخن سر تیز جگر دل دونوں
رات کی سینہ خراشی میں ہنر ہم نے کیا
کام ان ہونٹوں سے وہ لے جو کوئی ہم سا ہو
دیکھتے دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر ہم نے کیا
جیسے حسرت لیے جاتا ہے جہاں سے کوئی
آہ یوں کوچۂ دلبر سے سفر ہم نے کیا
بارے کل ٹھہر گئے ظالم خونخوار سے ہم
منصفی کیجے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا
اس رخ و زلف کی تسبیح ہے یاں اکثر میر
ورد اپنا یہی اب شام و سحر ہم نے کیا
میر تقی میر

تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے

دیوان اول غزل 514
حرم کو جایئے یا دیر میں بسر کریے
تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے
کٹے ہے دیکھیے یوں عمر کب تلک اپنی
کہ سنیے نام ترا اور چشم تر کریے
وہ مست ناز تو مچلا ہے کیا جتایئے حال
جو بے خبر ہو بھلا اس کے تیں خبر کریے
ہوا ہے دن تو جدائی کا سو تعب سے شام
شب فراق کس امید پر سحر کریے
جہاں کا دید بجز ماتم نظارہ نہیں
کہ دیدنی ہی نہیں جس پہ یاں نظر کریے
جیوں سے جاتے ہیں ناچار آہ کیا کیا لوگ
کبھو تو جانب عشاق بھی گذر کریے
ستم اٹھانے کی طاقت نہیں ہے اب اس کو
جو دل میں آوے تو ٹک رحم میر پر کریے
میر تقی میر

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

دیوان اول غزل 509
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم
یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے
میخانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے
کیا جانیں وے مرغان گرفتار چمن کو
جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے
تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ
کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے
ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں
وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے
دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت
اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے
واعظ نہیں کیفیت میخانہ سے آگاہ
یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے
صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے
اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میر بلاکش ادھر آوے
مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے
میر تقی میر

ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے

دیوان اول غزل 492
تیری گلی سے جب ہم عزم سفر کریں گے
ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے
آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کروگے ہم گریہ سر کریں گے
عذر گناہ خوباں بدتر گنہ سے ہو گا
کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے
سر جائے گا ولیکن آنکھیں ادھر ہی ہوں گی
کیا تیری تیغ سے ہم قطع نظر کریں گے
اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے
کیا جانے یار اس کو کب تک خبر کریں گے
گر دل کی تاب و طاقت یہ ہے تو ہم نشیں ہم
شام غم جدائی کیونکر سحر کریں گے
یہ ظلم بے نہایت دیکھو تو خوبرویاں
کہتے ہیں جو ستم ہے ہم تجھ ہی پر کریں گے
اپنے بھی جی ہے آخر انصاف کر کہ کب تک
تو یہ ستم کرے گا ہم درگذر کریں گے
صناع طرفہ ہیں ہم عالم میں ریختے کے
جو میر جی لگے گا تو سب ہنر کریں گے
میر تقی میر

جان کے دینے کو جگر چاہیے

دیوان اول غزل 484
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
جان کے دینے کو جگر چاہیے
قابل آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے
حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے
کم ہے شناساے زر داغ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے
سینکڑوں مرتے ہیں سدا پھر بھی یاں
واقعہ اک شام و سحر چاہیے
عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل دست بسر چاہیے
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
جیسے جرس پارہ گلو کیا کروں
نالہ و افغاں میں اثر چاہیے
خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بار دگر چاہیے
میر تقی میر

صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی

دیوان اول غزل 459
میری پرسش پہ تری طبع اگر آوے گی
صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی
محو اس کا نہیں ایسا کہ جو چیتے گا شتاب
اس کے بے خود کی بہت دیر خبر آوے گی
کتنے پیغام چمن کو ہیں سو دل میں ہیں گرہ
کسو دن ہم تئیں بھی باد سحر آوے گی
ابر مت گور غریباں پہ برس غافل آہ
ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی
میر میں جیتوں میں آئوں گا اسی دن جس دن
دل نہ تڑپے گا مرا چشم نہ بھر آوے گی
میر تقی میر

ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی

دیوان اول غزل 444
فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی
کہہ حدیث آنے کی اس کے جو کیا شادی مرگ
نامہ بر کیا چلی تھی ہم کو خبر کرنے کی
کیا جلی جاتی ہے خوبی ہی میں اپنی اے شمع
کہہ پتنگے کے بھی کچھ شام و سحر کرنے کی
اب کے برسات ہی کے ذمے تھا عالم کا وبال
میں تو کھائی تھی قسم چشم کے تر کرنے کی
پھول کچھ لیتے نہ نکلے تھے دل صد پارہ
طرز سیکھی ہے مرے ٹکڑے جگر کرنے کی
ان دنوں نکلے ہے آغشتہ بہ خوں راتوں کو
دھن ہے نالے کو کسو دل میں اثر کرنے کی
عشق میں تیرے گذرتی نہیں بن سر پٹکے
صورت اک یہ رہی ہے عمر بسر کرنے کی
کاروانی ہے جہاں عمر عزیز اپنی میر
رہ ہے درپیش سدا اس کو سفر کرنے کی
میر تقی میر

کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ

دیوان اول غزل 427
کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ
کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ
سعی اتنی یہ ضروری ہے اٹھے بزم سلگ
اے جگر تفتگی بے اثر پروانہ
کس گنہ کا ہے پس از مرگ یہ عذر جاں سوز
پائوں پر شمع کے پاتے ہیں سر پروانہ
آ پڑا آگ میں اے شمع یہیں سے تو سمجھ
کس قدر داغ ہوا تھا جگر پروانہ
بزم دنیا کی تو دل سوزی سنی ہو گی میر
کس طرح شام ہوئی یاں سحر پروانہ
میر تقی میر

آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

دیوان اول غزل 384
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو
یوں عرق جلوہ گر ہے اس منھ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو
ہر خراش جبیں جراحت ہے
ناخن شوق کا ہنر دیکھو
تھی ہمیں آرزو لب خنداں
سو عوض اس کے چشم تر دیکھو
رنگ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک شب اور یاں سحر دیکھو
دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو
پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
میر تقی میر

ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم

دیوان اول غزل 277
آئے تو ہو طبیباں تدبیر گر کرو تم
ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم
رنگ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے
ایک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم
تھی چشم داشت مجھ کو اے دلبراں یہ تم سے
دل کو مرے اڑاکر آنکھوں میں گھر کرو تم
اس بزم خوش کے محرم ناآشنا ہیں سارے
کس کو کہوں کہ واں تک میری خبر کرو تم
ہے پیچ دار از بس راہ وصال و ہجراں
ان دو ہی منزلوں میں برسوں سفر کرو تم
یہ ظلم ہے تو ہم بھی اس زندگی سے گذرے
سوگند ہے تمھیں اب جو درگذر کرو تم
روے سخن کہاں تک غیروں کی اور آخر
ہم بھی تو آدمی ہیں ٹک منھ ادھر کرو تم
ہو عاشقوں میں اس کے تو آئو میر صاحب
گردن کو اپنی مو سے باریک تر کرو تم
کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے
سینہ سپر کریں ہم قطع نظر کرو تم
میر تقی میر

کہ پہنچا شمع ساں داغ اب جگر تک

دیوان اول غزل 259
کہیں پہنچو بھی مجھ بے پا و سر تک
کہ پہنچا شمع ساں داغ اب جگر تک
کچھ اپنی آنکھ میں یاں کا نہ آیا
خزف سے لے کے دیکھا درتر تک
جسے شب آگ سا دیکھا سلگتے
اسے پھر خاک ہی پایا سحر تک
ترا منھ چاند سا دیکھا ہے شاید
کہ انجم رہتے ہیں ہر شب ادھر تک
جب آیا آہ تب اپنے ہی سر پر
گیا یہ ہاتھ کب اس کی کمر تک
ہم آوازوں کو سیر اب کی مبارک
پر و بال اپنے بھی ایسے تھے پر تک
کھنچی کیا کیا خرابی زیر دیوار
ولے آیا نہ وہ ٹک گھر سے در تک
گلی تک تیری لایا تھا ہمیں شوق
کہاں طاقت کہ اب پھر جائیں گھر تک
یہی دردجدائی ہے جو اس شب
تو آتا ہے جگر مژگان تر تک
دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں
اگر رہ جائیں گے جیتے سحر تک
کہاں پھر شور شیون جب گیا میر
یہ ہنگامہ ہے اس ہی نوحہ گر تک
میر تقی میر

دوری رہ ہے راہ بر نزدیک

دیوان اول غزل 258
شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک
دوری رہ ہے راہ بر نزدیک
آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک
دور والوں کو بھی نہ پہنچے ہم
یہی نہ تم سے ہیں مگر نزدیک
ڈوبیں دریا و کوہ و شہر و دشت
تجھ سے سب کچھ ہے چشم تر نزدیک
حرف دوری ہے گرچہ انشا لیک
دیجو خط جا کے نامہ بر نزدیک
دور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں
ہم جو تم سے تھے بیشتر نزدیک
خبر آتی ہے سو بھی دور سے یاں
آئو یک بار بے خبر نزدیک
توشۂ آخرت کا فکر رہے
جی سے جانے کا ہے سفر نزدیک
دور پھرنے کا ہم سے وقت گیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک
مر بھی رہ میر شب بہت رویا
ہے مری جان اب سحر نزدیک
میر تقی میر

تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف

دیوان اول غزل 251
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف
کوئی داد دل آہ کس سے کرے
ہر اک ہے سو اس فتنہ گر کی طرف
محبت نے شاید کہ دی دل کو آگ
دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف
لگیں ہیں ہزاروں ہی آنکھیں ادھر
اک آشوب ہے اس کے گھر کی طرف
بہت رنگ ملتا ہے دیکھو کبھو
ہماری طرف سے سحر کی طرف
بخود کس کو اس تاب رخ نے رکھا
کرے کون شمس و قمر کی طرف
نہ سمجھا گیا ابر کیا دیکھ کر
ہوا تھا مری چشم تر کی طرف
ٹپکتا ہے پلکوں سے خوں متصل
نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف
مناسب نہیں حال عاشق سے صبر
رکھے ہے یہ دارو ضرر کی طرف
کسے منزل دلکش دہر میں
نہیں میل خاطر سفر کی طرف
رگ جاں کب آتی ہے آنکھوں میں میر
گئے ہیں مزاج اس کمر کی طرف
میر تقی میر

کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ

دیوان اول غزل 247
ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ
کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ
تم اور ہم سے محبت تمھیں خلاف خلاف
ہم اور الفت خوب دگر دروغ دروغ
غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل
تم اور پوچھو ہماری خبر دروغ دروغ
فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبح صادق کے
شب فراق کو کب ہے سحر دروغ دروغ
کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو میر سے تو
وہ اور اس کو کسو پر نظر دروغ دروغ
میر تقی میر

بگلا شکار ہووے تو لگتے ہیں ہاتھ پر

دیوان اول غزل 224
داڑھی سفید شیخ کی تو مت نظر میں کر
بگلا شکار ہووے تو لگتے ہیں ہاتھ پر
اے ابر خشک مغز سمندر کا منھ نہ دیکھ
سیراب تیرے ہونے کو کافی ہے چشم تر
آخر عدم سے کچھ بھی نہ اکھڑا مرا میاں
مجھ کو تھا دست غیب پکڑ لی تری کمر
ہجراں کی شب سے مجھ کو گلہ نئیں کہ ان نے بھی
دیکھی نہیں ہے خواب میں آنکھوں کبھی سحر
سوتا تھا بے خبر تو نشے میں جو رات کو
سو بار میر نے تری اٹھ اٹھ کے لی خبر
میر تقی میر

اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر

دیوان اول غزل 204
اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گذر
اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر
دھڑکا تھا دل طپیدن شب سے سو آج صبح
دیکھا وہی کہ آنسوئوں میں چو پڑا جگر
ہم تو اسیر کنج قفس ہوکے مرچلے
اے اشتیاق سیر چمن تیری کیا خبر
مت عیب کر جو ڈھونڈوں میں اس کو کہ مدعی
یہ جی بھی یوں ہی جائے گا رہتا ہے تو کدھر
آتی ہی بوجھیو تو بلا اپنے سر صبا
وے مشک فام زلفیں پریشاں ہوئیں اگر
جاتی نہیں ہے دل سے تری یاد زلف و رو
روتے ہی مجھ کو گذرے ہے کیا شام کیا سحر
کیا جانوں کس کے تیں لب خنداں کہے ہے خلق
میں نے جو آنکھیں کھول کے دیکھیں سو چشم تر
اے سیل ٹک سنبھل کے قدم بادیے میں رکھ
ہر سمت کو ہے تشنہ لبی کا مری خطر
کرتا ہے کون منع کہ سج اپنی تو نہ دیکھ
لیکن کبھی تو میر کے کر حال پر نظر
میر تقی میر

ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

دیوان اول غزل 183
پلکوں پہ تھے پارئہ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات
اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ
گذری ہے امیدوار ہر رات
مکھڑے سے اٹھائیں ان نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات
تو پاس نہیں ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات
کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات
واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گذر رات
ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گذری ہمیں ساری بے خبر رات
کیا سوز جگر کہوں میں ہمدم
آیا جو سخن زبان پر رات
صحبت یہ رہی کہ شمع روئی
لے شام سے تا دم سحر رات
کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات
دن وصل کا یوں کٹا کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات
کل تھی شب وصل اک ادا پر
اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات
جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات
کرنے لگا پشت چشم نازک
سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات
تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات
پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میر کس قدر رات
میر تقی میر

دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا

دیوان اول غزل 103
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا
دہر میں میں خاک بسر ہی رہا
عمر کو اس طور بسر کر گیا
دل نہیں ہے منزل سینہ میں اب
یاں سے وہ بیچارہ سفر کر گیا
حیف جو وہ نسخۂ دل کے اپر
سرسری سی ایک نظر کر گیا
کس کو مرے حال سے تھی آگہی
نالۂ شب سب کو خبر کر گیا
گو نہ چلا تا مژہ تیر نگاہ
اپنے جگر سے تو گذر کر گیا
مجلس آفاق میں پروانہ ساں
میر بھی شام اپنی سحر کر گیا
میر تقی میر

ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا

دیوان اول غزل 101
دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا
ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا
پلکوں سے تیری ہم کو کیا چشم داشت یہ تھی
ان برچھیوں نے بانٹا باہم جگر ہمارا
دنیا و دیں کی جانب میلان ہو تو کہیے
کیا جانیے کہ اس بن دل ہے کدھر ہمارا
ہیں تیرے آئینے کی تمثال ہم نہ پوچھو
اس دشت میں نہیں ہے پیدا اثر ہمارا
جوں صبح اب کہاں ہے طول سخن کی فرصت
قصہ ہی کوئی دم کو ہے مختصر ہمارا
کوچے میں اس کے جاکر بنتا نہیں پھر آنا
خون ایک دن گرے گا اس خاک پر ہمارا
ہے تیرہ روز اپنا لڑکوں کی دوستی سے
اس دن ہی کو کہے تھا اکثر پدر ہمارا
سیلاب ہر طرف سے آئیں گے بادیے میں
جوں ابر روتے ہو گا جس دم گذر ہمارا
نشوونما ہے اپنی جوں گردباد انوکھی
بالیدہ خاک رہ سے ہے یہ شجر ہمارا
یوں دور سے کھڑے ہو کیا معتبر ہے رونا
دامن سے باندھ دامن اے ابرتر ہمارا
جب پاس رات رہنا آتا ہے یاد اس کا
تھمتا نہیں ہے رونا دو دو پہر ہمارا
اس کارواں سرا میں کیا میر بار کھولیں
یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا
میر تقی میر

سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہو گی

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 23
کب ٹھہرے گا درد اے دل ، کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی ، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گل ، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی ، کب شامِ نظر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے ، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
فیض احمد فیض

پھر نور سحر دست و گریباں ہے سحر سے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 36
پھر لوٹا ہے خورشید جہانتاب سفر سے
پھر نور سحر دست و گریباں ہے سحر سے
پھر آگ بھڑکنے لگی ہر ساز طرب میں
پھر شعلے لپکنے لگے ہر دیدہ تر سے
پھر نکلا ہے دیوانہ کوئی پھونک کے گھر کو
کچھ کہتی ہے ہر راہ ہر اک راہگزر سے
وہ رنگ ہے امسال گلستاں کی فضا کا
اوجھل ہوئی دیوار قفس حد نظر سے
ساغر تو کھنکت ہیں شراب آئے نہ آئے
بادل تو گرجتے ہیں گھٹا برسے نہ برسے
پاپوش کی کیا فکر ہے، دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزرجائے گی سر سے
فیض احمد فیض

وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 30
کچھ دن سے انتظار سوال دگر میں ہے
وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے
سیکھی یہیں مرے دل کافر نے بندگی
رب کریم ہے تو تری رہگزر میں ہے
ماضی میں جو مزا مری شام و سحر میں تھا
اب وہ فقط تصور شام و سحر میں ہے
کیا جانے کس کو کس سے ہے داد کی طلب
وہ غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے
فیض احمد فیض