ٹیگ کے محفوظات: سجھاتا

نجانے یہ دل جشن کیا کیا مناتا تم آئے تو ہوتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
زرونقدِراحت تمہی پر لٹاتا تم آئے تو ہوتے
نجانے یہ دل جشن کیا کیا مناتا تم آئے تو ہوتے
گلے میں حمائل سجل ضَو کے ہالے، سرِبام چندا
جہاں بھر کو میں اپنی پونجی دکھاتا تم آئے تو ہوتے
کلی کی چٹک سی ،زمیں پر نئی بوندیوں کی کھنک سی
نرالی دھنیں میں لبوں پر سجاتا تم آئے تو ہوتے
مجھے کس طرح تم جلاتے بجھاتے رہے فرقتوں میں
تمہیں جَور اک اک تمہارا سُجھاتا تم آئے تو ہوتے
ان اشکوں کے آنکھوں سے فرطِمسرت میں جو پھوٹتے ہیں
نئے دیپ پلکوں پہ اپنی جلاتا تم آئے تو ہوتے
ماجد صدیقی

اشک سا خاک میں سماتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
شاخ پر جو بھی پھول آتا ہے
اشک سا خاک میں سماتا ہے
شیر کس انتقام کی آتش
خون پی پی کے نِت بُجھاتا ہے
کیا یہ شب ہے کہ جس میں جگنو بھی
دُور تک راستہ سُجھاتا ہے
جانے قصّہ ہے کیا قفس میں جسے
نت پرندہ زباں پہ لاتا ہے
اَب تو ماجدؔ بھی چند قبروں کو
چُومتا ہے گلے لگاتا ہے
ماجد صدیقی