ٹیگ کے محفوظات: سایا

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے
برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انہیں تو دن کو بھی سایا دکھائی دیتا ہے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
وہیں پہنچ کے گرائیں گے بادباں اپنے
وہ دور کوئی جزیرہ دکھائی دیتا ہے
وہ الوداع کا منظر، وہ بھیگتی پلکیں
پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے
مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے
سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قدم بھی
زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے
کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے
شکیب جلالی

تارا تارا جاگ رہا تھا

پچھلے پہر کا سناٹا تھا
تارا تارا جاگ رہا تھا
پتھر کی دیوار سے لگ کر
آئینہ تجھے دیکھ رہا تھا
بالوں میں تھی رات کی رانی
ماتھے پر دن کا راجا تھا
اک رُخسار پہ زلف گری تھی
اک رُخسار پہ چاند کھلا تھا
ٹھوڑی کے جگمگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایا پڑتا تھا
چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا
اِک پاؤں میں پھول سی جوتی
اِک پاؤں سارا ننگا تھا
تیرے آگے شمع دھری تھی
شمع کے آگے اک سایا تھا
تیرے سائے کی لہروں کو
میرا سایا کاٹ رہا تھا
کالے پتھر کی سیڑھی پر
نرگس کا اک پھول کھلا تھا
ناصر کاظمی

رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی

کیا لگے آنکھ کہ پھر دل میں سمایا کوئی
رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی
فکر یہ تھی کہ شبِ ہجر کٹے گی کیوں کر
لطف یہ ہے کہ ہمیں یاد نہ آیا کوئی
شوق یہ تھا کہ محبت میں جلیں گے چپ چاپ
رنج یہ ہے کہ تماشا نہ دِکھایا کوئی
شہر میں ہمدمِ دیرینہ بہت تھے ناصر
وقت پڑنے پہ مرے کام نہ آیا کوئی
ناصر کاظمی

ننّھی ننّھی خواہشیں خلقت کی، جو اغوا کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
وہ کمانڈو بھی تو ہوں ایسوں کو جو سِیدھا کریں
ننّھی ننّھی خواہشیں خلقت کی، جو اغوا کریں
ہر نگارِ شام اُن کے واسطے ہو مہ بکف
ہم ہلالِ عید بعد از سال ہی دیکھا کریں
اُن کے جتنے تیر ہیں موزوں ہوں وہ اہداف پر
اور ہمیں تلقین یہ ،ایسا کریں ویسا کریں ،
خود ہی جب اقبال سا لکھنا پڑے اس کا جواب
اے خدا تجھ سے بھی ہم شکوہ کریں تو کیا کریں
وہ ادا کرتے ہیں جانے موسموں کو کیا خراج
بدلیاں جن کے سروں پر بڑھ کے خود سایا کریں
ماجد صدیقی

شور سُورج سے بچھڑ کر دن بھی کچھ ایسا کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
گر کے پتّا شاخ سے جس طرح واویلا کرے
شور سُورج سے بچھڑ کر دن بھی کچھ ایسا کرے
تھے ہمِیں وُہ گُل جو گلدانوں میں بھی مہکا کئے
کون ہے ورنہ جو نُچ کر بھی سلوک اچّھا کرے
خواب تک میں بھی یہی رہتی ہے جانے آس کیوں
چاند جیسے ابر سے، کھڑکی سے وُہ جھانکا کرے
التفات ہم پر ہے یُوں اہلِ کرم کا جس طرح
دشت پر بھٹکا ہُوا بادل کوئی سایا کرے
فکر ہو بھی تو رعایا کو خود اپنی فکر ہو
شاہ کو کیا ہے پڑی ایسی کہ وہ سوچا کرے
کیا کہیں کتنی اپھل ہے نوکری اِس دَور کی
آدمی اِس سے تو دانے بھُون کر بیچا کرے
مُکھ دمک اُٹھیں سبھی تو رقص پر موقوف کیا
ہو گیا ایسا تو ماجدؔ جانے کیا سے کیا کرے
ماجد صدیقی

جانے کس بیوہ نے دیپک گایا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 92
آنکھ میں پھر اک شعلہ سا لہرایا ہے
جانے کس بیوہ نے دیپک گایا ہے
گوندھ کے آٹا، اُس سے بنے کھلونوں سے
ماں نے روتے بچّے کو بہلایا ہے
کس کس اور سے کیا کیا طوطے آ جھپٹے
باغ میں جب سے پیڑ پہ پھل گدرایا ہے
جھونپڑیاں تک محلوں کے گُن گاتی ہیں
گھر گھر جانے کس آسیب کا سایا ہے
صاحبِ ثروت پھر نادار کے جبڑے میں
اپنے کام کے لفظ نئے رکھ آیا ہے
ساتھ کے گھر میں دیکھ کے پکتا خربوزہ
ماجدؔ بھی وڈیو کیسٹ لے آیا ہے
ماجد صدیقی

اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 53
اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دُھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بُھولنے والے،میں کب تک ترارَستا دیکھوں
ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالےآ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ،جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں !
بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ،ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پُھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کِھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے،اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
پروین شاکر

ہجر کی شب اورایسا چاند؟

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 36
پُورا دکھ اور آدھا چاند!
ہجر کی شب اورایسا چاند؟
دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہُوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہو گا
اِتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اُٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے مُنہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
اِتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہو گا چاند
آنسو روکے نُور نہائے
دل دریا،تن صحرا چاند
اِتنے روشن چہرے پر بھی
سُورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
تونے کِس کو سوچا چاند
برگد کی ایک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند
بادل کے ریشم جُھولے میں
بھورسمے تک سویا چاند
رات کے شانوں پرسر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند
سُوکھے پتوں کے جُھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننّھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہو گا
اُس کی صُورت ہجر کا چاند
صحر اصحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق کا سچا چاند
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہو گا میرا چاند
پروین شاکر

سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا

دیوان ششم غزل 1790
وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا
سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا
گلشن کے طائروں نے کیا بے مروتی کی
یک برگ گل قفس میں ہم تک نہ کوئی لایا
بے ہیچ اس کا غصہ یارو بلاے جاں ہے
ہرگز منا نہ ہم سے بہتیرا ہی منایا
قد بلند اگرچہ بے لطف بھی نہیں ہے
سرو چمن میں لیکن انداز وہ نہ پایا
انگڑاتے خوبرو یاں حسرت سے پیش و پس ہیں
اینڈا پھرے ہے ہر سو جب اس پری کا سایا
نقشہ عجب ہے اس کا نقاش نے ازل کے
مطبوع ایسا چہرہ کوئی نہ پھر بنایا
شب کو نشے میں باہم تھی گفتگوے درہم
اس مست نے جھنکایا یعنی بہت چھکایا
دل بستگی میں کھلنا اس کا نہ اس سے دیکھا
بخت نگوں کو ہم نے سو بار آزمایا
عاشق جہاں ہوا ہے بے ڈھنگیاں ہی کی ہیں
اس میر بے خرد نے کب ڈھب سے دل لگایا
میر تقی میر

ہوکے عاشق بہت میں پچھتایا

دیوان دوم غزل 757
دل گیا مفت اور دکھ پایا
ہوکے عاشق بہت میں پچھتایا
مر گئے پر بھی سنگ سار کیا
نخل ماتم مرا یہ پھل لایا
صحن میں میرے اے گل مہتاب
کیوں شگوفہ تو کھلنے کا لایا
یہ شب ہجر ہے کھڑی نہ رہے
ہو سفیدی کا جس جگہ سایا
جب سے بے خود ہوا ہوں اس کو دیکھ
آپ میں میر پھر نہیں آیا
میر تقی میر

اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا

دیوان دوم غزل 723
سوز دروں سے آخر بھسمنت دل کو پایا
اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا
جی دے کے لیتے ایسے معشوق بے بدل کو
یوسفؑ عزیز دلہا سستا بہت بکایا
زلف سیاہ اس کی جاتی نہیں نظر سے
اس چشم رو سیہ نے روز سیہ دکھایا
نام اس کا سن کے آنسو گر ہی پڑے پلک سے
دل کا لگائو یارو چھپتا نہیں چھپایا
تھا لطف زیست جن سے وے اب نہیں میسر
مدت ہوئی کہ ہم نے جینے سے ہاتھ اٹھایا
مہندی لگی تھی تیرے پائوں میں کیا پیارے
ہنگام خون عاشق سر پر جو تو نہ آیا
یہ پیروی کسو سے کاہے کو ہوسکے ہے
رکھتا ہے داغ ہم کو قامت کا اس کی سایا
دیکھی نہ پیش جاتے ہرگز خردوری میں
دانستہ بائولا ہم اپنے تئیں بنایا
رہتی تھی بے دماغی اک شور ما و من میں
آنکھوں کے مند گئے پر آرام سا تو پایا
گل پھول سے بھی تو جو لیتا ہے منھ کو پھیرے
مکھڑے سے کس کے تونے اے میر دل لگایا
میر تقی میر

یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا

دیوان اول غزل 106
اس چہرے کی خوبی سے عبث گل کو جتایا
یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا
وہ آئینہ رخسار دم بازپس آیا
جب حس نہ رہا ہم کو تو دیدار دکھایا
کچھ ماہ میں اس میں نہ تفاوت ہوا ظاہر
سو بار نکالا اسے اور اس کو چھپایا
اک عمر مجھے خاک میں ملتے ہوئے گذری
کوچے میں ترے آن کے لوہو میں نہایا
سمجھا تو مجھے مرگ کے نزدیک پس از دیر
رحمت ہے مرے یار بہت دور سے آیا
یہ باغ رہا ہم سے ولے جا نہ سکے ہم
بے بال و پری نے بھی ہمیں خوب اڑایا
میں صید رمیدہ ہوں بیابان جنوں کا
رہتا ہے مرا موجب وحشت مرا سایا
یا قافلہ در قافلہ ان رستوں میں تھے لوگ
یا ایسے گئے یاں سے کہ پھر کھوج نہ پایا
رو میں نے رکھا ہے در ترسا بچگاں پر
رکھیو تو مری شرم بڑھاپے میں خدایا
ٹالا نہیں کچھ مجھ کو پتنگ آج اڑاتے
بہتوں کے تئیں بائو کا رخ ان نے بتایا
ایسے بت بے مہر سے ملتا ہے کوئی بھی
دل میر کو بھاری تھا جو پتھر سے لگایا
میر تقی میر

اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا

دیوان اول غزل 24
مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا
اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا
اس گل زمیں سے اب تک اگتے ہیں سرو مائل
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا
یکساں ہے قتل گہ اور اس کی گلی تو مجھ کو
واں خاک میں میں لوٹا یاں لوہو میں نہایا
پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو
اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا
تا چرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا
کرنے سے اب دعا کے میں ہاتھ ہی اٹھایا
تیرا ہی منھ تکے ہے کیا جانیے کہ نوخط
کیا باغ سبز تونے آئینے کو دکھایا
شادابی و لطافت ہرگز ہوئی نہ اس میں
تیری مسوں پہ گرچہ سبزے نے زہر کھایا
آخر کو مر گئے ہیں اس کی ہی جستجو میں
جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اسے نہ پایا
لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں
اک روگ میں بساہا جی کو کہاں لگایا
کہہ ہیچ اس کے منھ کو جی میں ڈرا یہاں تو
بارے وہ شوخ اپنی خاطر میں کچھ نہ لایا
ہونا تھا مجلس آرا گر غیر کا تجھے تو
مانند شمع مجھ کو کاہے کے تیں جلایا
تھی یہ کہاں کی یاری آئینہ رو کہ تونے
دیکھا جو میر کو تو بے ہیچ منھ بنایا
میر تقی میر

کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 98
وہ اختلاف نظر درمیاں میں آیا رہا
کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا
وہاں کی روشنیاں بھی مثالِ ظلمت تھیں
جہاں جہاں مری نادیدنی کا سایا رہا
یہی کہ نذرِ تب و تابِ زر ہوئیں آنکھیں
غبارِ بے بصری بستیوں پہ چھایا رہا
یہ معجزہ تھا سرِ چشم ایک آنسو کا
تمام منظرِ شب دھوپ میں نہایا رہا
بنامِ عشق اِسے قرض جاریہ کہئے
کہ نقدِ جاں بھی ادا کر کے جو بقایا رہا
آفتاب اقبال شمیم

ہزار پھول کھلیں گے جو ایک مرجھایا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 5
مجھے خراب جنوں کر کے تو نے کیا پایا
ہزار پھول کھلیں گے جو ایک مرجھایا
ترے غرور نے محفل میں جو نہ بات سنی
ترے شعور نے خلوت میں اس کو دہرایا
تمہارے ذکر سے دل کو سکوں ملے نہ ملے
چلو کوئی نہ کوئی مشغلہ تو ہاتھ آیا
بہت غرور تھا اپنی وفاؤں پر جس کو
اسی کو تیری نگاہ کرم نے ٹھکرایا
کچھ اس طرح بھی ملے ہیں فریب غم باقیؔ
قریب پہنچے تو آگے سرک گیا سایا
باقی صدیقی

سانوں۔۔ جنہاں کھیڑیاں کولوں، اپنا حق منوایا اے

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 118
ایس کارن توں اگوں لئی وی، کسّے نے ڈک سکنا نئیں
سانوں۔۔ جنہاں کھیڑیاں کولوں، اپنا حق منوایا اے
جس دے ہیتھاں بیٹھ کے بندہ، عرشاں دی سُونہہ لیندا اے
ساڈے سِراں دے اُتے، اوس ائی پک یقین دا سایا اے
ماجدُ ایہہ حاصل اے ساڈا، تن تے جریاں دھپاں دا
ہریاں فصلاں وانگر جیہڑا،سُکھ اکھیں لہرایا اے
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)