ٹیگ کے محفوظات: سازگار

وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے

کلی کلی کی نگاہوں میں مثلِ خار رہے
وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے
وہ جھرمٹوں میں ستاروں کے جلوہ گر ہیں آج
بَلا سے ان کی اگر کوئی اشک بار رہے
طِلسم اثر ہے فضا، چاندنی فسوں انداز
حضورِ دوست یہ ممکن نہیں قرار رہے
سیاہیوں کے بگولے چراغِ رَہ بن جائیں
جو حوصلہ شبِ غربت میں پختہ کار رہے
اب انتہاے اَلَم بھی گراں نہیں دل پر
مگر وہ غم جو ترے رُخ پہ جلوہ بار رہے
وہ بات کیا تھی ہمیں خود بھی اب تو یاد نہیں
نہ پوچھ ہم ترے کس درجہ راز دار رہے
خلوصِ عشق کے جذبات عام کرنا ہیں
کچھ اور دن یہ فضا مجھ کو سازگار رہے
یہ کشمکش، یہ بھلاوے حیات پرور ہیں
کسی کے دل میں اگر عشق کا وقار رہے
کسی کا قُرب اگر قُربِ عارضی ہے، شکیبؔ
فراقِ دوست کی لذّت ہی پائدار رہے
شکیب جلالی

یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی

یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
’’حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی‘‘
یہ پیش خیمہِ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں
بدل رہی ہے ہوا سازگار اگر ہے بھی
لہو کی شمعیں جلاؤ قدم بڑھائے چلو
سروں پہ سایہِ شب ہائے تار اگر ہے بھی
ابھی تو گرم ہے میخانہ جام کھنکاؤ
بلا سے سر پہ کسی کا ادھار اگر ہے بھی
حیاتِ درد کو آلودئہ نشاط نہ کر
یہ کاروبار کوئی کاروبار اگر ہے بھی
یہ امیتازِ من و تو خدا کے بندوں سے
وہ آدمی نہیں طاعت گزار اگر ہے بھی
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے زِندگی ناصر
بس ایک جبر ہے یہ اختیار اگر ہے بھی
ناصر کاظمی

بھرپور رہی بہار کچھ دیر

ٹھہرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر
بھرپور رہی بہار کچھ دیر
اک دُھوم رہی گلی گلی میں
آباد رہے دیار کچھ دیر
پھر جھوم کے بستیوں پہ برسا
ابرِ سرِ کوہسار کچھ دیر
پھر لالہ و گل کے میکدوں میں
چھلکی مئے مشکبار کچھ دیر
پھر نغمہ و مے کی صحبتوں کا
آنکھوں میں رہا خمار کچھ دیر
پھر شامِ وصالِ یار آئی
بہلا غمِ روزگار کچھ دیر
پھر جاگ اُٹھے خوشی کے آنسو
پھر دل کو ملا قرار کچھ دیر
پھر ایک نشاطِ بے خودی میں
آنکھیں رہیں اشکبار کچھ دیر
پھر ایک طویل ہجر کے بعد
صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر
پھر ایک نگاہ کے سہارے
دنیا رہی سازگار کچھ دیر
ناصر کاظمی

چاند بھی دل پہ اپنے، بار لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
غیر جب سے وُہ اپنا یار لگا
چاند بھی دل پہ اپنے، بار لگا
کھو گیا آنکھ سے دھنک جیسا
جو بھی ماحول، سازگار لگا
بڑھتی دیکھی جو رحمتِ یزداں
ابر بھی مجھ کو، آبشار لگا
کر کے وا چشمِ اِنبساط مری
آشنا، پھر نہ وُہ نگار لگا
آنکھ جب سے کھُلی،دل و جاں پر
شش جہت جبر کا حصار لگا
تھا جو ماجدؔ پسِ نگاہ تری
بھید سب پر وُہ، آشکار لگا
ماجد صدیقی

بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
بیاں حکایتِ بُخل بہار کیا کرتے
بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے
اُفق اُفق پہ کیا صَرف لُطفِ بینائی
ہم اِس سے بڑھ کے ترا انتطار کیا کرتے
نفس نفس تھا رسن، دار ایک اِک دھڑکن
زباں سے تذکرۂ طوق و دار کیا کرتے
ہمیں تو لطفِ نظر بھی تِرا بہم نہ ہُوا
فضائے دہر کو ہم سازگار کیا کرتے
اب اِس کے بعد تو تیشہ تھا اور تھا سر اپنا
کرشمہ اور کوئی بہرِ یار کیا کرتے
فراغ ہی نہ مِلا اہلِ مصلحت سے کبھی
جنوں کی راہ بھلا اختیار کیا کرتے
کھنچے تھے خاک نشیں تک بھی ہم سے جب ماجدؔ
ہمارے حق میں بھلا تاجدار کیا کرتے
ماجد صدیقی

بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 101
اُتر کے اَوج سے پل بھر جو خاکسار ہوئے
بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے
خطا کچھ اِس میں تمہاری بھی تھی کہ غیروں کے
تمام لوگ مقلّد سپند وار ہوئے
جو جھُک گئے تھے سکوں آشنا تو تھے لیکن
گراں بہا تھے وہی سر جو زیبِ دار ہوئے
دُعا کو جن کی اُٹھے ہاتھ شل ہوئے اپنے
ہمارے حق میں وُہی پل نہ سازگار ہوئے
کہاں کا لطف کہاں کی طراوتیں ماجدؔ
کہ اب تو لفظ بھی اپنے ہیں خارزار ہوئے
ماجد صدیقی

ہے چیز کون سی جو تیرا شاہکار نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 136
یہ گل نہیں یہ شگوفے نہیں یہ خار نہیں
ہے چیز کون سی جو تیرا شاہکار نہیں
خیال تیری طرف ہو تو غم بھی بار نہیں
یہ کیا گلہ ہے کہ ماحول سازگار نہیں
چمن کو دیکھ کے دیکھو بنانے والے کو
مقام فکر بھی ہے صرف یہ بہار نہیں
تری نگاہ کرم کی امید ہے ورنہ
میرے گناہوں کا یا رب کوئی شمار نہیں
زمانہ راز ہے تو راز ہی رہے باقیؔ
اسی میں اپنا بھرم ہے کہ آشکار نہیں
باقی صدیقی