خون کی پیاسی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
موت جہاں بھی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
جہل کی اس کالی آندھی کو روکو مت
اچھی خاصی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
عقل سے خطرہ تھا وہ ساکت بیٹھی ہے
بھیڑ جنوں کی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
اس کے لیے کیا وقتِ عصر قضا کردیں؟
ظلم کی دیوی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
ہم پر "مشعل” گُل کرنا ہی واجب تھا
رات اندھیری ناچ رہی ہے، ناچنے دو
تم ہو قوم کے رہبر، چوکیدار نہیں
دہشت گردی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
عورت کا پردے میں رہنا لازم ہے
وحشت ننگی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
وجدآور ہے تال بہت جلادی کی
ملت ساری ناچ رہی ہے، ناچنے دو
عزت داروں کو کیا ایسی لعنت سے
کاروکاری ناچ رہی ہے، ناچنے دو
آدھی قوم کو کوئی فرق نہیں پڑتا
باقی آدھی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
تم آباد ہو، چین سے شعر کہو عرفان
جو بربادی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
عرفان ستار