ٹیگ کے محفوظات: سادگی

سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ

بے خودی سی ہے بے خودی! توبہ
سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ
ذہن و دل پر ہے بارشِ انوار
پی ہے مے یا کہ چاندنی توبہ
دُکھ کا احساس ہے نہ فِکر نشاط
پینے والوں کی آگہی! توبہ
ان کا غم ہے بہت عزیز مجھے
چھوڑ دی میں نے مے کشی توبہ
اک جہاں بن گیا مرا دشمن
آپ کا لُطفِ ظاہری توبہ
ہے تمھی سے شکستِ دل کا گِلہ
میری اُلفت کی سادگی توبہ
ایک ہے شمع، لاکھ پروانے
تیرگی سی ہے تیرگی! توبہ
کتنے دل خون ہو گئے ہوں گے
ان کی آنکھوں میں ہے نمی توبہ
رازِ غم پا گئے ہیں لوگ، شکیبؔ
ہنسنے والوں کی بے کسی توبہ
شکیب جلالی

آرزو میں بھی سادگی نہ رہی

حُسن میں جب سے بے رُخی نہ رہی
آرزو میں بھی سادگی نہ رہی
ان کا غم جب سے راس آیا ہے
دل کی کوئی خوشی، خوشی نہ رہی
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دلکشی نہ رہی
آپ سے ایک بات کہنی ہے
لیجیے مجھ کو یاد بھی نہ رہی
کہہ رہی ہے بہ چشمِ تر شبنم
مُسکرا کر کَلی، کَلی نہ رہی
جب کبھی وہ، شکیبؔ، یاد آئے
چاند تاروں میں روشنی نہ رہی
شکیب جلالی

حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا

نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا
حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا
لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے
عہدِ آوارگی میں کیا کچھ تھا
آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے
عالمِ بے خودی میں کیا کچھ تھا
یاد ہیں مرحلے محبت کے
ہائے اُس بے کلی میں کیا کچھ تھا
کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی
آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا
کتنے مانوس لوگ یاد آئے
صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا
رات بھر ہم نہ سو سکے ناصرؔ
پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا
ناصر کاظمی

جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
وسعتِ تِیرہ شبی ، تنہا روی ہے اور ہم
جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم
کیمیا گر تو ہمیں کندن بنا ڈالے مگر
آنچ بھر کی ایسا ہونے میں کمی ہے اور ہم
بھیڑیوں کی دھاڑ کو سمجھیں صدائے رہنما
خوش گماں بھیڑوں سی طبعی سادگی ہے اور ہم
کیا سلوک ہم سے کرے یہ منحصر ہے زاغ پر
گھونسلے کے بوٹ سی نا آگہی ہے اور ہم
ہاں یہی وہ فصل ہے پکنے میں جو آتی نہیں
زخمِ جاں کی روز افزوں تازگی ہے اور ہم
ناگہانی آندھیوں میں جو خس و خاشاک کو
جھیلنی پڑتی ہے وہ بے چارگی ہے اور ہم
ناخدا کو ناؤ سے دیکھا ہو جیسے کُودتے
دم بہ دم ماجد کچھ ایسی بے بسی ہے اور ہم
ماجد صدیقی

جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
وسعتِ تِیرہ شبی ، تنہا روی ہے اور ہم
جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم
کیمیا گر تو ہمیں کندن بنا ڈالے مگر
آنچ بھر کی ایسا ہونے میں کمی ہے اور ہم
بھیڑیوں کی دھاڑ کو سمجھیں صدائے رہنما
خوش گماں بھیڑوں سی طبعی سادگی ہے اور ہم
کیا سلوک ہم سے کرے یہ منحصر ہے زاغ پر
گھونسلے کے بوٹ سی نا آگہی ہے اور ہم
ہاں یہی وہ فصل ہے پکنے میں جو آتی نہیں
زخمِ جاں کی روز افزوں تازگی ہے اور ہم
ناگہانی آندھیوں میں جو خس و خاشاک کو
جھیلنی پڑتی ہے وہ بے چارگی ہے اور ہم
ناخدا کو ناؤ سے دیکھا ہو جیسے کُودتے
دم بہ دم ماجد کچھ ایسی بے بسی ہے اور ہم
ماجد صدیقی

ہم میں ہے جو اِس قدر بھی سادگی اچّھی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
جنگلوں میں میش کی سی بے بسی اچّھی نہیں
ہم میں ہے جو اِس قدر بھی سادگی اچّھی نہیں
دل میں تُو اہلِ ریا کے بیج چاہت کے نہ بو
اِس غرض کو یہ زمیں ہے بُھربھُری،اچّھی نہیں
ہر سفر ہے آن کا بَیری اور اُس کے سامنے
اور جو کچھ ہو سو ہو پہلو تہی اچّھی نہیں
ظرفِ انساں ہی کے سارے رنگ ہیں بخشے ہوئے
چیز اپنی ذات میں کوئی بُری، اچّھی نہیں
ہو کے رہ جاتی ہے اکثر یہ عذابِ جان بھی
ہوں جہاں اندھے سبھی، دیدہ وری اچّھی نہیں
کچھ دنوں سے تجھ کو لاحق ہے جو ماجدؔ دمبدم
جان لے مشکل میں ایسی بے دلی اچّھی نہیں
ماجد صدیقی

بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
جنوں شناس کیا جس کی ہر گلی نے مجھے
بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے
شجر سے جھڑ کے دُہائی چمن چمن دوں گا
وہ دن دکھائے اگر میری خستگی نے مجھے
مرا نصیب! مجھے تربیت طلب کی نہ تھی
کیا ہے خوار تمّنا کی سادگی نے مجھے
خزاں کے بعد سلوکِ وداع، صرصر کا
سِک سِسک کے سنایا کلی کلی نے مجھے
در آئی ہے جو مجھے اُس نمی پہ حق ہے مرا
کہ دشت دشت پھرایا ہے تشنگی نے مجھے
پئے نمو ہے یہ کیا عارضہ لجاجت کا
یہ کیسے روگ دئیے ذوقِ تازگی نے مجھے
رہِ سفر میں برہنہ نظر تھا میں ماجدؔ
لیا ہے ڈھانپ بگولوں کی ہمرہی نے مجھے
ماجد صدیقی

ہاں دیکھ ہماری سادگی کو

ہم خاک ہوئے تری خوشی کو
ہاں دیکھ ہماری سادگی کو
اے واہمۂ فراقِ جاناں
پیروں میں کچل نہ دوں تجھی کو
تم مجھ سے جُدا ہوئے تو ہوتے
پھر دیکھتے میری بے کلی کو
ظلمت ہی جہاں نظر نظر ہو
چاہے کوئی کیسے روشنی کو
یہ لُطفِ سخن کہاں تھا ماجدؔ
بیتِے ہیں برس سخنوری کو
ماجد صدیقی

کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 29
وفا کے باب میں الزام عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا
خوشا وہ لوگ کہ محروم التفات رہے
ترے کرم کو بہ انداز سادگی نہ لیا
تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے
ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری، چراغ بھی نہ لیا
احمد فراز

ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 156
وہ کہکشاں وہ رہِ رقصِ رنگ ہی نہ رہی
ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی
تمارے بعد کوئی خاص فرق تو نہ ہوا
جزیں قدر کے وہ پہلی سی زندگی نہ رہی
یہ ذکر کیا کہ خرد میں بہت تصنّع ہے
ستم یہ ہے جنوں میں بھی سادگی نہ رہی
قلمروِ غمِ جاناں ہوئی ہے جب سے تباہ
دل و نظر کی فضاوں میں زندگی نہ رہی
نکال ڈالیے دل سے ہماری یادوں کو
یقین کیجیے ہم میں وہ بات ہی نہ رہی
جہاں فروز تھا یادش بخیر اپنا جنوں
پھر اُس کے بعد کسی شے میں دل کشی نہ رہی
دکھائیں کیا تمہیں داغوں کی لالہ انگیزی
گزر گئیں وہ بہاریں، وہ فصل ہی نہ رہی
وہ ڈھونڈتے ہیں سر جادہ امید کسے
وہاں تو قافلے والوں کی گرد بھی نہ رہی
جون ایلیا

باز آئے اس آگہی سے ہم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 86
خود کو لگتے ہیں اجنبی سے ہم
باز آئے اس آگہی سے ہم
ہر تمنا ہے دور کی آواز
مرمٹے دور دور ہی سے ہم
راہ کچھ اور ہو گئی تاریک
جب بھی گزرے ہیں روشنی سے ہم
واقف رنگ دہر ہو کر بھی
تجھ سے ملتے ہیں کس خوشی سے ہم
غم کا احساس مٹ گیا شاید
اب الجھتے نہیں کسی سے ہم
کہہ کے روداد زندگی باقیؔ
ہنس دئیے کتنی سادگی سے ہم
باقی صدیقی