ٹیگ کے محفوظات: زیں

کہ افشاں کیجے خون اپنے سے اس کے دامن زیں کو

دیوان دوم غزل 931
ملا یا رب کہیں اس صید افگن سربسر کیں کو
کہ افشاں کیجے خون اپنے سے اس کے دامن زیں کو
گئے وے سابقے سارے خصوصیت رہے پیارے
کبھو در تک تو آ بارے ہمارے دل کی تسکیں کو
پیے جاتے نہیں بس اب لہو کے گھونٹ یہ مجھ سے
بہت پی پی گیا ڈر سے ترے میں اشک خونیں کو
نہ لکھیں یار کو محضر ہمارے خون ناحق کا
دکھا دیویں گے ہم محشر میں اس کے دست رنگیں کو
بجز حیرت نہ بن آوے گی کوئی شکل پھر اس سے
دکھایا ہم نے گر چہرہ ترا صورت گرچیں کو
ابھر کر سنگ کے تختے سے پھر دیکھا کیا اودھر
محبت ہو گئی تھی کوہکن سے نقش شیریں کو
ہم اس کے چاند سے منھ کے ہیں عاشق مہ سے کیا ہم کو
سر اپنا کبک ہی مارا کرے اس خشت سیمیں کو
ہوئے کیا کیا مقدس لوگ آوارہ ترے غم میں
سبک پا کر دکھایا شوخ تونے اہل تمکیں کو
بہت مدت ہوئی صحرا سے مجنوں کی خبر آئے
نہیں معلوم پیش آیا ہے کیا اس یار دیریں کو
لیے تسبیح ہاتھوں میں جو تو باتیں بناتا ہے
نہیں دیکھا ہے واعظ تونے اس غارت گر دیں کو
گیا کوچے سے تیرے اٹھ کے میر آشفتہ سر شاید
پڑا دیکھا تھا میں نے رہ میں اس کے سنگ بالیں کو
میر تقی میر

یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم

دیوان دوم غزل 863
کب تک رہیں گے پہلو لگائے زمیں سے ہم
یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم
تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں اس طرح
فریادی ہوں گے مل کے لہو کو جبیں سے ہم
فتراک تک یہ سر جو نہ پہنچا تو یا نصیب
مدت لگے رہے ترے دامان زیں سے ہم
ہوتا ہے شوق وصل کا انکار سے زیاد
کب تجھ سے دل اٹھاتے ہیں تیری نہیں سے ہم
چھاجے جو پیش دستی کرے نور ماہ پر
دیکھی عجب سفیدی تری آستیں سے ہم
یہ شوق صید ہونے کا دیکھو کہ آپ کو
دکھلایا صیدگہ میں یسار و یمیں سے ہم
تکلیف درد دل کی نہ کر تنگ ہوں گے لوگ
یہ بات روز کہتے رہے ہم نشیں سے ہم
اڑتی ہے خاک شہر کی گلیوں میں اب جہاں
سونا لیا ہے گودوں میں بھر کر وہیں سے ہم
آوارہ گردی اپنی کھنچی میر طول کو
اب چاہیں گے دعا کسو عزلت نشیں سے ہم
میر تقی میر