ٹیگ کے محفوظات: زیبا

ہو کوئی بے بَصَر تَو بھَلا کیا دکھائی دے

حُسنِ نظر کو حُسن ہر اِک جا دکھائی دے
ہو کوئی بے بَصَر تَو بھَلا کیا دکھائی دے
خوش رنگیِ چمن بھی ہے غارت گرِ سکوں
گلشن بہ ہر نظر رخِ زیبا دکھائی دے
رشکِ صد انجمن ہے وہ تنہا اگر ملے
آجائے انجمن میں تَو تنہا دکھائی دے
اِس انجمن میں سَب کو ہے اپنی پڑی ہُوئی
دربارِ حُسن حشر کا نقشا دکھائی دے
الزامِ خودکُشی ہمیں دینے سے پیشتر
قاتل سے بھی کہیَں نہ مسیحا دکھائی دے
کب تک پیے گا شہر میں آنسو ہر ایک شخص
ہے کوئی جس کو قطرے میں دریا دکھائی دے
ضامنؔ! یہ کیسا گلشنِ امّید ہے جہاں
ہر برگِ گل پہ خونِ تمنّا دکھائی دے
ضامن جعفری

رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 51
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر
شوقِ خوباں اُڑ گیا حوروں کا جلوہ دیکھ کر
رنجِ دنیا مٹ گیا آرامِ عقبیٰ دیکھ کر
ہے وہ آتش جلوہ، اشک افشاں ہمارے شور سے
شمع رو دیتی ہے پروانے کو جلتا دیکھ کر
خیر جو گزری سو گزری پر یہی اچھا ہوا
خط دیا تھا نامہ بر نے اس کو تنہا دیکھ کر
سائلِ مبرم کی پھبتی مجھ پہ فرمانے لگے
آرزوئے شوق کو گرمِ تقاضا دیکھ کر
ہے وہاں سستی طلب میں ، جان یاں بھاری نہیں
کام کرتے ہیں مزاجِ کارفرما دیکھ کر
ہیں تو دونوں سخت لیکن کون سا ہے سخت تر
اپنے دل کو دیکھئے میرا کلیجا دیکھ کر
گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے
آئے ہیں ہم سخت پُر آشوب صحرا دیکھ کر
اب کسے لاؤں گواہی کے لئے روزِ جزا
میرے دشمن ہو گئے، اس کو احبا دیکھ کر
میں کمینِ توبہ میں ہوں آپ ، لیکن کیا کروں
منہ میں بھر آتا ہے پانی جام و مینا دیکھ کر
التماسِ وصل پر بگڑے تھے بے ڈھب رات کو
کچھ نہ بن آئی مگر جوشِ تمنا دیکھ کر
دوستی کرتے ہیں اربابِ غرض ہر ایک سے
میرے عاشق ہیں عدو اب ربط اس کا دیکھ کر
بے نقط مجھ کو سناؤ گے جو دیکھو گے ستم
آپ عاشق تو ہوئے ہیں شوق میرا دیکھ کر
پھر کہو گے اس کو دل، فرماؤ اے اربابِ دل
جو نہ ہو بے تاب و مضطر، روئے زیبا دیکھ کر
یار پہلو میں نہیں، مے جام و مینا میں نہیں
تم ہوئے حیران مجھ کو نا شکیبا دیکھ کر
ناگہاں بادِ موافق شیفتہ چلنے لگی
جان پر کل بن رہی تھی شورِ دریا دیکھ کر
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 5
یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا
وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا
سُن سُن کے تیرے عشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی کلیجا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا
اُن کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں‌سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا
خط میں وہ مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں
آخر میں‌لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا
پھٹتا ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت
پوچھو تو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا
یہ خوب سمجھ لیجئے غماّز وہی ہے
جو آپ سے کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا
تم کو یہی شایاں ہے کہ تم دیتے ہو دشنام
مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں‌ کہتا
مشتاق بہت ہیں مرے کہنے کے پر اے داغ
یہ وقت ہی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
داغ دہلوی

وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 4
یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
سن سن کے ترے عشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی کلیجا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ان کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
خط میں مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں
آخر میں یہ لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
پھٹتا ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت
پوچھوں تو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یہ خوب سمجھ لیجئے غمار وہی ہے
جو آپ سے کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
تم کو یہی شایاں ہے کہ تم دیتے ہو دشنام
مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
مشتاق بہت ہیں مرے کہنے کے پر اے داغؔ
یہ وقت ہی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
داغ دہلوی

جہل کو دانش کہیں ، بینا کو نابینا کہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 44
دَور ہی ایسا ہے، جو دیکھیں اُسے اُلٹا کہیں
جہل کو دانش کہیں ، بینا کو نابینا کہیں
شہرِ نو آباد کی یہ قُربتیں ، یہ دُوریاں
یعنی ہم برسوں کے ناواقف کو ہمسایا کہیں
اُن کا کہنا ہے کہ ہر ظاہر کا باطن اور ہے
جاگتی آنکھیں جو دِکھلائیں اُسے سپنا کہیں
وُہ جو کر دے زندگی کا سارا منظر خواب گُوں
کوئی آئے بھی نظر ایسا جسے تجھ سا کہیں
روز فرمائش کرے صورت گر دُنیا کہ ہم
مصلحت کے چہرۂ یک چشم گو زیبا کہیں
اُن میں کرتا ہے جو نا مُعتبر کو مُعتبر
وُہ مدارِ قسمتِ انساں ، جسے پیسا کہیں
کوئی کیوں جانے کہ ہم کب آئے کب رخصت ہوئے
زندگی کر لی، اِسے اب زحمتِ بے جا کہیں
آفتاب اقبال شمیم