ٹیگ کے محفوظات: زیان

وُہ مہرباں تھا تو دل کو گمان کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
ہمارے زیرِ قدم آسمان کیا کیا تھے
وُہ مہرباں تھا تو دل کو گمان کیا کیا تھے
چمن کو راس فضا جن دنوں تھی موسم کی
شجر شجر پہ تنے سائبان کیا کیا تھے
کھُلا زمین کے قدموں تلے سے کھنچنے سے
کہ اوجِ فرق کے سُود و زیان کیا کیا تھے
یہ بھید وسعتِ صحرا میں ہم پہ جا کے کھُلا
کہ شہرِ درد میں ہم بے زبان کیا کیا تھے
ہمیں ہی مل نہ سکا، وُہ بہر قدم ورنہ
مہ و گلاب سے اُس کے نشان کیا کیا تھے
نہ سرخرو کبھی جن سے ہوئے تھے ہم ماجدؔ
دل و نگاہ کے وُہ امتحان کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے

دیوان ششم غزل 1915
اب دشت عشق میں ہیں بتنگ آئے جان سے
آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے
پڑتا ہے پھول برق سے گلزار کی طرف
دھڑکے ہے جی قفس میں غم آشیان سے
یک دست جوں صداے جرس بیکسی کے ساتھ
میں ہر طرف گیا ہوں جدا کاروان سے
تم کو تو التفات نہیں حال زار پر
اب ہم ملیں گے اور کسو مہربان سے
تم ہم سے صرفہ ایک نگہ کا کیا کیے
اغماض ہم کو اپنے ہے جی کے زیان سے
جاتے ہیں اس کی اور تو عشاق تیر سے
قامت خمیدہ ان کے اگر ہیں کمان سے
دلکش قد اس کا آنکھوں تلے ہی پھرا کیا
صورت گئی نہ اس کی ہمارے دھیان سے
آتا نہیں خیال میں خوش رو کوئی کبھو
تو مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان سے
آنکھوں میں آ کے دل سے نہ ٹھہرا تو ایک دم
جاتا ہے کوئی دید کے ایسے مکان سے
دیں گالیاں انھیں نے وہی بے دماغ ہیں
میں میر کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے
میر تقی میر

اللہ رے دماغ کہ ہے آسمان پر

دیوان چہارم غزل 1386
مرتے ہیں ہم تو آدم خاکی کی شان پر
اللہ رے دماغ کہ ہے آسمان پر
چرکہ تھا دل میں لالہ رخوں کے خیال سے
کیا کیا بہاریں دیکھی گئیں اس مکان پر
عرصہ ہے تنگ صدر نشینوں پہ شکر ہے
بیٹھے اگر تو جا کے کسو آستان پر
آفات میں ہے مرغ چمن گل کے شوق سے
جوکھوں ہزار رنگ کی رہتی ہے جان پر
اس کام جاں کے جلووں کا میں ہی نہیں ہلاک
آفت عجب طرح کی ہے سارے جہان پر
جاتے تو ہیں پہ خواہش دل موت ہے نری
پھر بھی ہمیں نظر نہیں جی کے زیان پر
تقدیس دل تو دیکھ ہوئی جس کو اس سے راہ
سر دیں ہیں لوگ اس کے قدم کے نشان پر
انداز و ناز اپنے اس اوباش کے ہیں قہر
سو سو جوان مرتے ہیں ایک ایک آن پر
شوخی تو دیکھو آپھی کہا آئو بیٹھو میر
پوچھا کہاں تو بولے کہ میری زبان پر
میر تقی میر

رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر

دیوان دوم غزل 805
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر
رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر
کچھ ہورہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز
آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر
یہ دلبری کے فن و فریب اتنی عمر میں
جھنجھلاہٹ اب تو آوے ہے اس کے سیان پر
محتاج کر خدا نہ نکالے کہ جوں ہلال
تشہیر کون شہر میں ہو پارہ نان پر
دیکھا نہ ہم نے چھوٹ میں یاقوت کی کبھو
تھا جو سماں لبوں کے ترے رنگ پان پر
کیا رہروان راہ محبت ہیں طرفہ لوگ
اغماض کرتے جاتے ہیں جی کے زیان پر
پہنچا نہ اس کی داد کو مجلس میں کوئی رات
مارا بہت پتنگ نے سر شمع دان پر
یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھائو کی
ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان پر
بزاز کے کو دیکھ کے خرقے بہت پھٹے
بیٹھا وہ اس قماش سے آکر دکان پر
موزوں کرو کچھ اور بھی شاید کہ میر جی
رہ جائے کوئی بات کسو کی زبان پر
میر تقی میر