ٹیگ کے محفوظات: زہراب

ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو

گُونجتا ہے نالہِ مہتاب آدھی رات کو
ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹُوٹتے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
شام ہی سے بزمِ انجم نشہِ غفلت میں تھی
چاند نے بھی پی لیا زہراب آدھی رات کو
اک شکستہ خواب کی کڑیاں ملانے آئے ہیں
دیر سے بچھڑے ہوئے احباب آدھی رات کو
دولتِ احساسِ غم کی اتنی اَرزانی ہوئی
نیند سی شے ہو گئی نایاب آدھی رات کو
شکیب جلالی

وہ تو کوئی دریا لے آیا دریا بھی سیلاب بھرا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 7
دکھ کی دو اک برساتوں سے کب یہ دل پایاب بھرا
وہ تو کوئی دریا لے آیا دریا بھی سیلاب بھرا
سوچا تھا غم کو غم کاٹے زہر کا زہر بنے تریاق
اب دل آبلہ آبلہ ہے اور شیشئِہ جاں زہراب بھرا
تم آ جاتے تو اس رات کی عمر بھی لمبی ہو جاتی
ابھی تھا دیواروں پر سبزہ ابھی تھا صحن گلاب بھرا
جانے ہجر کی رات کہ وصل کی رات گزار کے آئے ہو
آنکھیں نیندوں نیند بھری ہیں جسم ہے خوابوں خواب بھرا
احمد فراز