ٹیگ کے محفوظات: زندگانی

نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے

محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے
سرِ محفل وہ کوئی بات بھی مجھ سے نہیں کرتے
مگر تنہائیوں میں گُل فِشانی اب بھی ہوتی ہے
چُھپاؤ لاکھ بے چینی کو خاموشی کے پردے میں
تمھارے رُخ سے دل کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے
ہمارا حال چُھپ کر پوچھتا تھا کوئی پہلے بھی
ہمارے حال پر یہ مہربانی اب بھی ہوتی ہے
تمھاری ہی کمی محسوس ہوتی ہے مجھے ورنہ
وہ موسم، وہ فضا، وہ رُت سُہانی اب بھی ہوتی ہے
زمانہ دل کی باتوں کو کبھی کُھل کر نہیں کہتا
بہ اندازِ شکایت قدردانی اب بھی ہوتی ہے
نکل آیا زمان و آشیاں کی قید سے لیکن
بقا کی رَہ میں حائل زندگانی اب بھی ہوتی ہے
شکیب جلالی

نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 196
جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی
کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی
ہوئی زنجیر، موجِ@ آب کو فرصت روانی کی
پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی
@ نسخۂ طاہر میں ” زنجیرِ موجِ آب”
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 130
رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع
زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگِ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانیِ شمع
کرے ہے صِرف بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام
بہ طرزِ اہلِ فنا ہے فسانہ خوانیِ شمع
غم اُس کو حسرتِ پروانہ کا ہے اے شعلہ@
ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتوانیِ شمع
ترے خیال سے رُوح اہتــزاز کرتی ہے
بہ جلوہ ریـزئ باد و بہ پرفشانیِ شمع
نشاطِ داغِ غمِ عشق کی بہار نہ پُوچھ
شگفتگی ہے شہیدِ گُلِ خزانیِ شمع
جلے ہے ، دیکھ کے بالینِ یار پر مجھ کو
نہ کیوں ہو دل پہ مرے داغِ بدگمانیِ شمع
@ نسخۂ مہر میں” شعلہ” ، نسخہ آسی میں شعلے۔ شعلہ زیادہ صحیح ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 44
جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی
مجھے اس سے کیا توقّع بہ زمانۂ جوانی
کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی
یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا
کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی
مرزا اسد اللہ خان غالب

دوستی مدعی جانی تھی

دیوان دوم غزل 956
یار بن تلخ زندگانی تھی
دوستی مدعی جانی تھی
سر سے اس کی ہوا گئی نہ کبھو
عمر برباد یوں ہی جانی تھی
لطف پر اس کے ہم نشیں مت جا
کبھو ہم پر بھی مہربانی تھی
ہاتھ آتا جو تو تو کیا ہوتا
برسوں تک ہم نے خاک چھانی تھی
شیب میں فائدہ تامل کا
سوچنا تب تھا جب جوانی تھی
میرے قصے سے سب کی گئیں نیندیں
کچھ عجب طور کی کہانی تھی
عاشقی جی ہی لے گئی آخر
یہ بلا کوئی ناگہانی تھی
اس رخ آتشیں کی شرم سے رات
شمع مجلس میں پانی پانی تھی
پھر سخن نشنوی ہے ویسی ہی
رات ایک آدھ بات مانی تھی
کوے قاتل سے بچ کے نکلا خضر
اسی میں اس کی زندگانی تھی
فقر پر بھی تھا میر کے اک رنگ
کفنی پہنی سو زعفرانی تھی
میر تقی میر

عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے

دیوان اول غزل 487
اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے
رشک یوسف ہے آہ وقت عزیز
عمر اک بار کاروانی ہے
گریہ ہر وقت کا نہیں بے ہیچ
دل میں کوئی غم نہانی ہے
ہم قفس زاد قیدی ہیں ورنہ
تاچمن ایک پرفشانی ہے
اس کی شمشیر تیز سے ہمدم
مر رہیں گے جو زندگانی ہے
غم و رنج و الم نکویاں سے
سب تمھاری ہی مہربانی ہے
خاک تھی موجزن جہاں میں اور
ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے
یاں ہوئے میر تم برابر خاک
واں وہی ناز و سرگرانی ہے
میر تقی میر

میں نے مر مر کے زندگانی کی

دیوان اول غزل 460
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
میں نے مر مر کے زندگانی کی
حال بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی
سب کو جانا ہے یوں تو پر اے صبر
آتی ہے اک تری جوانی کی
تشنہ لب مر گئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی
بیت بحثی سمجھ کے کر بلبل
دھوم ہے میری خوش زبانی کی
جس سے کھوئی تھی نیند میر نے کل
ابتدا پھر وہی کہانی کی
میر تقی میر

کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی

دیوان اول غزل 447
الم سے یاں تئیں میں مشق ناتوانی کی
کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی
چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہائے
جہاں میں ہم نے قفس ہی میں زندگانی کی
ملائی خوب مری خوں میں خاک بسمل گاہ
یہ تھوڑی منتیں ہیں مجھ پہ سخت جانی کی
بتنگ ہوں میں ترے اختلاط سے پیری
قسم ہے اپنی مجھے اس گئی جوانی کی
چلا ہے کھینچنے تصویر میرے بت کی آج
خدا کے واسطے صورت تو دیکھو مانی کی
تری گلی کے ہر اک سگ نے استخواں توڑے
ہماری لاش کی شب خوب پاسبانی کی
رکھے ہیں میر ترے منھ سے بے وفا خاطر
تری جفا کی تغافل کی بدگمانی کی
میر تقی میر

تخلیہ اے زندگانی تخلیہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 430
دھڑکنوں کی بدزبانی تخلیہ
تخلیہ اے زندگانی تخلیہ
ظلِ سبحانی ہیں آئے درد کے
اے کنیزِ شادمانی تخلیہ
آرہا ہے وہ چراغِ صبح پا
چاند تارو ، مہربانی ، تخلیہ
مہ وشو!اب یاسمن کے باغ کی
دیکھتے ہیں گل فشانی ، تخلیہ
بجلیو! موسیٰ کلیم اللہ سے میں
سن رہاہوں لن ترانی تخلیہ
بارگاہِ دل میں شرمندہ نہ کر
لمس کی اندھی جوانی تخلیہ
ہے دمِ عارف نسیمِ صبح دم
اے کلیمی اے شبانی تخلیہ
زندگی سے بھر گیا دل حسرتو!
اب کہانی کیا بڑھانی تخلیہ
واہ ، آئی ہے کئی صدیوں کے بعد
پھر صدائے کن فکانی تخلیہ
جائیے کہ آئینے کے سامنے
شکلِ ہستی ہے بنانی تخلیہ
جارہا ہوں میں عدم کے باغ میں
موسموں کی میزبانی تخلیہ
آرہا ہے مجھ سے ملنے آفتاب
بادلوں کی سائبانی تخلیہ
ملنا ہے منصور نے منصور سے
گم کرو اب شکل یعنی تخلیہ
منصور آفاق