ٹیگ کے محفوظات: زنار

دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار بہت

دیوان ششم غزل 1818
باہر چلنے میں آبادی سے کر نہ تغافل یار بہت
دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار بہت
دعویٰ عاشق بیچارے کا کون سنے گا محشر میں
خیل ملائک واں بھی ہوں گے اس کے خاطر دار بہت
خشکی لب کی زردی رخ کی نمنا کی دو آنکھوں کی
جو دیکھے ہے کہے ہے ان نے کھینچا ہے آزار بہت
جسم کی حالت جی کی طاقت نبض سے کر معلوم طبیب
کہنے لگا جانبر کیا ہو گا یہ تو ہے بیمار بہت
چار طرف ابرو کے اشارے اس ظالم کے زمانے میں
ٹھہرے کیا عاشق بیکس یاں چلتی ہے تلوار بہت
پیش گئی نہ کچھ چاہت میں کافر و مسلم دونوں کی
سینکڑوں سبحے پھینکے گئے اور ٹوٹے ہیں زنار بہت
جی کے لگاؤ کہے سے ہم نے جی ہی جاتے دیکھے ہیں
اس پہ نہ جانا آہ برا ہے الفت کا آزار بہت
کس کو دماغ سیر چمن ہے کیا ہجراں میں واشد ہو
کم گلزار میں اس بن جاکر آتا ہوں بیزار بہت
میر دعا کر حق میں میرے تو بھی فقیر ہے مدت سے
اب جو کبھو دیکھوں اس کو تو مجھ کو نہ آوے پیار بہت
میر تقی میر

انچھر ہیں تو عشق کے دوہی لیکن ہے بستار بہت

دیوان پنجم غزل 1582
دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی نازک ہے اسرار بہت
انچھر ہیں تو عشق کے دوہی لیکن ہے بستار بہت
کافر مسلم دونوں ہوئے پر نسبت اس سے کچھ نہ ہوئی
بہت لیے تسبیح پھرے ہم پہنا ہے زنار بہت
ہجر نے جی ہی مارا ہمارا کیا کہیے کیا مشکل ہے
اس سے جدا رہنا ہوتا ہے جس سے ہمیں ہے پیار بہت
منھ کی زردی تن کی نزاری چشم تر پر چھائی ہے
عشق میں اس کے یعنی ہم نے کھینچے ہیں آزار بہت
کہہ کے تغافل ان نے کیا تھا لیکن تقصیر اپنی ہے
کام کھنچا جو تیغ تک اس کی ہم نے کیا اصرار بہت
حرف و سخن اب تنگ ہوا ہے ان لوگوں کا ساتھ اپنے
منھ کرنے سے جن کی طرف آتی تھی ہم کو عار بہت
رات سے شہرت اس بستی میں میر کے اٹھ جانے کی ہے
جنگل میں جو جلد بسا جا شاید تھا بیمار بہت
میر تقی میر

اچھا بھی ہووے دل کا بیمار گاہ باشد

دیوان چہارم غزل 1380
جاوے جدائی کا یہ آزار گاہ باشد
اچھا بھی ہووے دل کا بیمار گاہ باشد
امیدوار اس کے ملنے کے جیسے ہیں ہم
آ نکلے ناز کرتا یاں یار گاہ باشد
گو قدر دل کی کم ہے پر چیز کام کی ہے
لے تو رکھیں تمھیں ہو درکار گاہ باشد
کہتا ہوں سو کرے ہے لیکن رہوں ہوں ڈرتا
آوے کسو سخن پر تکرار گاہ باشد
کہتے تو ہیں گئے سو کب آئے کیا کریں تب
جو خواب مرگ سے ہوں بیدار گاہ باشد
غصے سے اپنے ابرو جو خم کرے ہے ہر دم
وہ اک لگا بھی بیٹھے تلوار گاہ باشد
غیرت سے عشق کی ڈر کیا شیخ کبر دینی
تسبیح کا ہو رشتہ زنار گاہ باشد
وحشت پہ میری مت جا غیرت بہت ہے مجھ کو
ہو بیٹھوں مرنے کو بھی تیار گاہ باشد
ہے ضبط عشق مشکل ہوتا نہیں کسو سے
ڈر میر بھی ہو اس کا اظہار گاہ باشد
میر تقی میر

آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب

دیوان چہارم غزل 1354
بیکار بھی درکار ہیں سرکار میں صاحب
آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب
محروم نہ رہ جائیں کہیں بعدفنا بھی
شبہ، ہے ہمیں یار کے دیدار میں صاحب
لیتی ہے ہوا رنگ سراپا سے تمھارے
معلوم نہیں ہوتے ہو گلزار میں صاحب
رہتا تھا سرزلف بھی زیرکلہ آگے
سو بال گھڑس نکلے ہیں دستار میں صاحب
ہے چار طرف شور مری بے خبری کا
کیا کیا خبریں آتی ہیں اخبار میں صاحب
گو فہم نہ ہو کفر کی اسلام کی نسبت
رشتہ ہے عجب سبحہ و زنار میں صاحب
یا گفتگو کا میری نہ کرتے تھے کبھو ذکر
یا ہر سخن اب آوے ہے تکرار میں صاحب
طالع سے زلیخا نے لیا مصر میں یوسفؑ
کب ایسا غلام آوے ہے بازار میں صاحب
رکھتی ہے لکھا ساتھ مٹا دینے کا میرے
جوہر نہیں ہے آپ کی تلوار میں صاحب
یہ عرض مری یاد رہے بندگی میں میر
جی بچتے نہیں عشق کے اظہار میں صاحب
میر تقی میر

نوگل جیسے جلوہ کرے اس رشک بہار کو دیکھا ہے

دیوان سوم غزل 1256
کیسے ناز و تبختر سے ہم اپنے یار کو دیکھا ہے
نوگل جیسے جلوہ کرے اس رشک بہار کو دیکھا ہے
چال زمانے کی ہے نظر میں شام و سحر کس کو ہے قیام
نووارد ہم یاں کے ہیں پر لیل و نہار کو دیکھا ہے
ایک نہ آیا دید میں اپنی دلکش دلچسپ اس کے رنگ
ان آنکھوں سے اس گلشن میں یوں تو ہزار کو دیکھا ہے
قدرکفر اسلام سے زائد جانی سبحہ فروشی سے
بکتے کہیں بازار میں تونے گہ زنار کو دیکھا ہے
قلب و دماغ و جگر کے گئے پر ضعف ہے جی کی غارت میں
کیا جانے یہ قلقچی ان نے کس سردار کو دیکھا ہے
بائو سے بھی گر پتا کھڑکے چوٹ چلے ہے ظالم کی
ہم نے دام گہوں میں اس کے ذوق شکار کو دیکھا ہے
جمع کرو دل میر سے تم بھی بیتابی تھی دل کو بہت
اچھے کچھ آثار نہ تھے میں اس بیمار کو دیکھا ہے
میر تقی میر

ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم

دیوان سوم غزل 1170
میر آج وہ بدمست ہے ہشیار رہو تم
ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم
جی جائے کسی کا کہ رہے تم کو قسم ہے
مقدور تلک درپئے آزار رہو تم
وہ محو جمال اپنی ہی پروا نہیں اس کو
خواہاں رہو تم اب کہ طلب گار رہو تم
اس معنی کے ادراک سے حیرت ہی ہے حاصل
آئینہ نمط صورت دیوار رہو تم
یک بار ہوا دل کی تسلی کا وہ باعث
یہ کیا کہ اسی طور پہ ہر بار رہو تم
ہو لطف اسی کا تو کوئی کام کو پہنچے
تسبیح گلے ڈال کے زنار رہو تم
کیا میر بری چال سے جینے کی چلے ہے
بہتر ہے کہ اپنے تئیں اب مار رہو تم
میر تقی میر

حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ

دیوان سوم غزل 1122
حال کہنے کی کسے تاب اس آزار کے بیچ
حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ
آرزومند ہے خورشید میسر ہے کہاں
کہ تنک ٹھہرے ترے سایۂ دیوار کے بیچ
کیا کہیں ہم کہ گلے ڈالے پھریں مستی میں
دانے سبحہ کے پرو رشتۂ زنار کے بیچ
رشک خوبی کا اسی کے جگرمہ میں ہے داغ
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے بیچ
مل گیا پھولوں میں اس رنگ سے کرتے ہوئے سیر
کہ تامل کیے پایا اسے گلزار کے بیچ
قدر گو تم نہ کرو میری متاع دل کی
جنس لگ جاوے گی یہ بھی کسو سرکار کے بیچ
گرد سررفتہ ہیں اے میر ہم اس کشتے کے
رہ گیا یار کی جو ایک ہی تلوار کے بیچ
میر تقی میر

اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ

دیوان دوم غزل 937
ظالم یہ کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ
ہر آن ہم کو تجھ بن ایک اک برس ہوئی ہے
کیا آ گیا زمانہ اے یار رفتہ رفتہ
کیا کہیے کیونکے جانیں بے پردہ جاتیاں ہیں
اس معنی کا بھی ہو گا اظہار رفتہ رفتہ
یہ ہی سلوک اس کے اکثر چلے گئے تو
بیٹھیں گے اپنے گھر ہم ناچار رفتہ رفتہ
پامال ہوں کہ اس میں ہوں خاک سے برابر
اب ہو گیا ہے سب کچھ ہموار رفتہ رفتہ
چاہت میں دخل مت دے زنہار آرزو کو
کردے ہے دل کی خواہش بیمار رفتہ رفتہ
خاطر نہ جمع رکھو ان پلکوں کی خلش سے
سر دل سے کاڑھتے ہیں یاں خار رفتہ رفتہ
تھے ایک ہم وے دونوں سو اتحاد کیسا
ہر بات پر اب آئی تکرار رفتہ رفتہ
گر بت کدے میں جانا ایسا ہے میر جی کا
تو تار سبحہ ہو گا زنار رفتہ رفتہ
میر تقی میر

تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس

دیوان دوم غزل 822
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس
تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس
دردمندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے ہو کچھ
پوچھنے ورنہ سبھی آتے ہیں بیمار کے پاس
چشم مست اپنی سے صحبت نہ رکھاکر اتندی
بیٹھیے بھی تو بھلا مردم ہشیار کے پاس
خندہ و چشمک و حرف و سخن زیرلبی
کہیے جو ایک دو افسون ہوں دلدار کے پاس
داغ ہونا نظر آتا ہے دلوں کا آخر
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے پاس
خط نمودار ہوئے اور بھی دل ٹوٹ گئے
یہ بلا نکلی نئی زلف شکن دار کے پاس
در گلزار پہ جانے کے نصیب اپنے کہاں
یوں ہی مریے گا قفس کی کبھو دیوار کے پاس
کیا رکھا کرتے ہو آئینے سے صحبت ہر دم
ٹک کبھو بیٹھو کسی طالب دیدار کے پاس
دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا
تربیت پائی ہے تم نے کسو عیار کے پاس
مورچہ جیسے لگے تنگ شکر کو آکر
خط نمودار ہے یوں لعل شکر بار کے پاس
جس طرح کفر بندھا ہے گلے اسلام کہاں
یوں تو تسبیح بھی ہم رکھتے ہیں زنار کے پاس
ہم نہ کہتے تھے نہ مل مغبچوں سے اے زاہد
ابھی تسبیح دھری تھی تری دستار کے پاس
نارسائی بھی نوشتے کی مرے دور کھنچی
اتنی مدت میں نہ پہنچا کوئی خط یار کے پاس
اختلاط ایک تمھیں میر ہی غم کش سے نہیں
جب نہ تب یوں تو نظر آتے ہو دوچار کے پاس
میر تقی میر

اب ہو گئے ہیں آخر بیمار تیری خاطر

دیوان دوم غزل 803
کیا کیا نہ ہم نے کھینچے آزار تیری خاطر
اب ہو گئے ہیں آخر بیمار تیری خاطر
غیروں کی بے دماغی بیتابی چھاتی داغی
یہ سب ستم اٹھائے اے یار تیری خاطر
کیا جانیے کہ ہے تو کیا جنس بیش قیمت
جاتے ہیں پگڑی جامے بازار تیری خاطر
اک بار تونے آکر خاطر نہ رکھی میری
میں جی سے اپنے گذرا سو بار تیری خاطر
میں کیا کہ آہ کافر دیں کے اکابروں نے
قشقے لگائے پہنے زنار تیری خاطر
گو دل دھسک ہی جاوے آنکھیں ابل ہی آویں
سب اونچ نیچ کی ہے ہموار تیری خاطر
ایک آن تیرے ابرو ایدھر جھکے نہ پائے
سو سو میں میں نے کھینچی تلوار تیری خاطر
کیا چیز ہے تو پیارے مفلس ہیں داغ تیرے
پیسے لیے پھرے ہیں زردار تیری خاطر
تجھ سے دوچار ہونا پھر آہ بن نہ آیا
دی جان میر جی نے ناچار تیری خاطر
میر تقی میر

جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ

دیوان دوم غزل 792
آتی ہے خون کی بو دوستی یار کے بیچ
جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ
حیف وہ کشتہ کہ سو رنج سے آوے تجھ تک
اور رہ جائے تری ایک ہی تلوار کے بیچ
گرچہ چھپتی نہیں ہے چاہ پہ رہ منکر پاک
جی ہی دینا پڑے ہے عشق کے اقرار کے بیچ
نالہ شب آوے قفس سے تو گل اب اس پہ نہ جا
یہی ہنکار سی ہے مرغ گرفتار کے بیچ
انس کرتا تو ہے وہ مجھ کو خردباختہ جان
جیت میں اپنی نکالی ہے اسی ہار کے بیچ
چال کیا کبک کی اک بات چلی آتی ہے
لطف نکلے ہیں ہزاروں تری رفتار کے بیچ
تو جو جاتا ہے چمن میں تو تماشے کے لیے
موسم رفتہ بھی پھر آوے ہے گلزار کے بیچ
داغ چیچک نہ اس افراط سے تھے مکھڑے پر
کن نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ
گھٹّے شمشیرزنی سے کف نازک میں ہیں
یہ جگرداری تھی کس خوں کے سزاوار کے بیچ
توبہ صد بار کہ مستی میں پرو ڈالے ہیں
دانے تسبیح کے میں رشتۂ زنار کے بیچ
حلقۂ گیسوے خوباں پہ نہ کر چشم سیاہ
میر امرت نہیں ہوتا دہن مار کے بیچ
میر تقی میر

ناسور چشم ہو مژہ خوں بار کیوں نہ ہو

دیوان اول غزل 397
عاشق ہوئے تو گو غم بسیار کیوں نہ ہو
ناسور چشم ہو مژہ خوں بار کیوں نہ ہو
کامل ہو اشتیاق تو اتنا نہیں ہے دور
حشر دگر پہ وعدئہ دیدار کیوں نہ ہو
گل گشت کا بھی لطف دل خوش سے ہے نسیم
پیش نظر وگرنہ چمن زار کیوں نہ ہو
مخصوص دل ہے کیا مرض عشق جاں گداز
اے کاش اس کو اور کچھ آزار کیوں نہ ہو
آوے جو کوئی آئینہ بازار دہر میں
بارے متاع دل کا خریدار کیوں نہ ہو
مقصود درد دل ہے نہ اسلام ہے نہ کفر
پھر ہر گلے میں سجہ و زنار کیوں نہ ہو
شاید کہ آوے پرسش احوال کو کبھو
عاشق بھلا سا ہووے تو بیمار کیوں نہ ہو
تلوار کے تلے بھی ہیں آنکھیں تری ادھر
تو اس ستم کا میر سزاوار کیوں نہ ہو
میر تقی میر

ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں

دیوان اول غزل 344
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں
جہاں کے مصطبے میں مست طافح ہی نظر آئے
نہ تھا اس دور میں آیا جسے ہشیار کہتے ہیں
سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے اے ناصح
وہ میں ہی ہوں کہ جس کو عافیت بیزار کہتے ہیں
مسافر ہووے جی اس کا خراماں دیکھ کر تجھ کو
جسے میرے وطن میں کبک خوش رفتار کہتے ہیں
معاذ اللہ دخل کفر ہو اسلام میں کیوں ہی
غلط اور پوچ نامعقول بعضے یار کہتے ہیں
علم کو کب ہے وجہ تسمیہ لازم سمجھ دیکھو
سلیمانی میں کیا زنار ہے زنار کہتے ہیں
تری آنکھوں کو آئوں دیکھنے میں تو عجب مت کر
کہ بہتر ہے عیادت اور انھیں بیمار کہتے ہیں
عجب ہوتے ہیں شاعر بھی میں اس فرقے کا عاشق ہوں
کہ بے دھڑکے بھری مجلس میں یہ اسرار کہتے ہیں
مزے ان کے اڑا لیکن نہ یہ سمجھیں تو بہتر ہے
کہ خوباں بھی بہت اپنے تئیں عیار کہتے ہیں
سگ کو میر میں اس شیر حق کا ہوں کہ جس کو سب
نبیؐ کا خویش و بھائی حیدر کرار کہتے ہیں
میر تقی میر