رازِ حیات و موت بڑا عاشقانہ ہے
عنوان دو ہیں اور مکمل فسانہ ہے
ہمدردیوں کا ذکر کروں اِن سے یا نہیں
ظاہرپرست دوست ہیں، دشمن زمانہ ہے
مرعوب کرسکے گا نہ مجھ کو جمالِ دوست
میرا مزاج میری نظر باغیانہ ہے
بیٹھا ہوں بجلیوں کا تصوّر کیے ہوئے
گہوارہِ جمال مرا آشیانہ ہے
ترسا رہے ہو کیوں خس و خاشاک کے لیے
میرا چمن ہے اور مرا آشیانہ ہے
شاید مری حیات کا مرکز بدل گیا
میرے لبوں پہ آج خوشی کا ترانہ ہے
تسلیم، اُڑ کے جا نہیں سکتا مگر، شکیبؔ
نظروں کے سامنے تو مرا آشیانہ ہے
شکیب جلالی