ٹیگ کے محفوظات: زعفرانی

کہاں ہم کہاں تم کہاں پھر جوانی

دیوان پنجم غزل 1738
ملو ان دنوں ہم سے اک رات جانی
کہاں ہم کہاں تم کہاں پھر جوانی
شکایت کروں ہوں تو سونے لگے ہے
مری سرگذشت اب ہوئی ہے کہانی
ادا کھینچ سکتا ہے بہزاد اس کی
کھنچے صورت ایسی تو یہ ہم نے مانی
ملاقات ہوتی ہے تو کشمکش سے
یہی ہم سے ہے جب نہ تب اینچا تانی
بسنتی قبا پر تری مر گیا ہے
کفن میر کو دیجیو زعفرانی
میر تقی میر

اب کب گئی اٹھائی ہے زور ناتوانی

دیوان چہارم غزل 1501
اکثر کی بے دماغی ہر دم کی سرگرانی
اب کب گئی اٹھائی ہے زور ناتوانی
تم دل کو دیتے ہو تو بے دل سمجھ کے ہوجو
ہم نے تو قدر دل کی افسوس کچھ نہ جانی
عہد شباب کی تو فرصت تھی ایک چشمک
مژگاں بہم زدن میں جاتی رہی جوانی
حسرت سے دیکھ رہیو اے نامہ بر منھ اس کا
بس اور کچھ نہ کہیو ہرگز مری زبانی
اس غیرت قمر کی خجلت سے تاب رخ کی
آئینہ تو سراسر ہوتا ہے پانی پانی
مرزائی فقر میں بھی دل سے گئی نہ میرے
چہرے کے رنگ اپنے چادر کی زعفرانی
یوں میر تو غم اپنا برسوں کہا کریں گے
اب رات کم ہے سوئو بس ہو چکی کہانی
میر تقی میر

دوستی مدعی جانی تھی

دیوان دوم غزل 956
یار بن تلخ زندگانی تھی
دوستی مدعی جانی تھی
سر سے اس کی ہوا گئی نہ کبھو
عمر برباد یوں ہی جانی تھی
لطف پر اس کے ہم نشیں مت جا
کبھو ہم پر بھی مہربانی تھی
ہاتھ آتا جو تو تو کیا ہوتا
برسوں تک ہم نے خاک چھانی تھی
شیب میں فائدہ تامل کا
سوچنا تب تھا جب جوانی تھی
میرے قصے سے سب کی گئیں نیندیں
کچھ عجب طور کی کہانی تھی
عاشقی جی ہی لے گئی آخر
یہ بلا کوئی ناگہانی تھی
اس رخ آتشیں کی شرم سے رات
شمع مجلس میں پانی پانی تھی
پھر سخن نشنوی ہے ویسی ہی
رات ایک آدھ بات مانی تھی
کوے قاتل سے بچ کے نکلا خضر
اسی میں اس کی زندگانی تھی
فقر پر بھی تھا میر کے اک رنگ
کفنی پہنی سو زعفرانی تھی
میر تقی میر