ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
بچتے کیا صّیاد کی ہم عّیاری سے
جانچ لیا جس نے گردن کی دھاری سے
ہم اپنے‘ وُہ اپنے جھنجھٹ لے بیٹھے
کام کی کوئی بات نہ ہو اُس ناری سے
پیڑ مسلسل زد پر آئے پانی کی
کب تک لیں گے کام بھلا جیداری سے
ہتھیا لیں گے رقبہ اپنی مرضی کا
پینچ نظر آتے ہیں ملے پٹواری سے
شیشے پر کچھ حرف لہو کے چھوڑ گئی
مشت پروں کی ٹکرا کر اِک لاری سے
ماجدؔ ہم میں کون چمک تھی سُورج سی
جو بھی ملا ہم سے وُہ ملا بے زاری سے
ماجد صدیقی