ٹیگ کے محفوظات: زاری

جانچ لیا جس نے گردن کی دھاری سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
بچتے کیا صّیاد کی ہم عّیاری سے
جانچ لیا جس نے گردن کی دھاری سے
ہم اپنے‘ وُہ اپنے جھنجھٹ لے بیٹھے
کام کی کوئی بات نہ ہو اُس ناری سے
پیڑ مسلسل زد پر آئے پانی کی
کب تک لیں گے کام بھلا جیداری سے
ہتھیا لیں گے رقبہ اپنی مرضی کا
پینچ نظر آتے ہیں ملے پٹواری سے
شیشے پر کچھ حرف لہو کے چھوڑ گئی
مشت پروں کی ٹکرا کر اِک لاری سے
ماجدؔ ہم میں کون چمک تھی سُورج سی
جو بھی ملا ہم سے وُہ ملا بے زاری سے
ماجد صدیقی

سینہ جویائے زخمِ کاری ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 247
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
چشم دلاّلِ جنسِ رسوائی
دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے
وُہ ہی@ صد رنگ نالہ فرسائی
وُہ ہی@ صد گونہ اشک باری ہے
دل ہوائے خرامِ ناز سے پھر
محشرستانِ بیقراری ہے
جلوہ پھر عرضِ ناز کرتا ہے
روزِ بازارِ جاں سپاری ہے
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز
گرم بازارِ فوجداری ہے
ہو رہا ہے جہان میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے
پھر دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے
پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
@ نسخۂ مہر و آسی میں ” وُہی”
مرزا اسد اللہ خان غالب

بھلا کب تلک بیقراری رہے

دیوان ششم غزل 1892
سر راہ چند انتظاری رہے
بھلا کب تلک بیقراری رہے
رہا ہی کئے آنسو پلکوں پہ شب
کہاں تک ستارہ شماری رہے
کہا بوسہ دے کر سفر جب چلا
کہ میری بھی یہ یادگاری رہے
کہیں خشک ہو چشمۂ چشم بھی
لہو منھ پہ تاچند جاری رہے
بس اب رہ چکی جان غمناک بھی
جو ایسی ہی تن کی نزاری رہے
تسلی نہ ہو دل اگر یار سے
ہمیں سالہا ہم کناری رہے
ترے ہیں دعاگو سنا خوب ہی
فقیروں کی گر گوش داری رہے
شب وصل تھی یا شب تیغ تھی
کہ لڑتے ہی وے رات ساری رہے
کریں خواب ہمسائے کیونکر کہ یاں
بلا شور و فریاد و زاری رہے
پھرا کرتے ہیں خوار گلیوں میں ہم
کہاں تک یہ بے اعتباری رہے
کج ابرو ان اطفال میں ہے عجب
جو میر آبرو بھی تمھاری رہے
میر تقی میر

بے موقع یاں آہ و فغاں ہے بے اثری زاری میں ہے

دیوان پنجم غزل 1742
یاری کرے جو چاہے کسو سے غم ہی غم یاری میں ہے
بے موقع یاں آہ و فغاں ہے بے اثری زاری میں ہے
ہاتھ لیے آئینہ تجھ کو حیرت ہے رعنائی کی
ہے بھی زمانہ ہی ایسا ہر کوئی گرفتاری میں ہے
باغ میں شب جو روتا پھرتا ہوں اس بن میں سو صبح تلک
دانۂ اشک روش شبنم کے گل پر ہر کیاری میں ہے
صورتیں بگڑیں کتنی کیوں نہ اس کو توجہ کب ہے وہ
سامنے رکھے آئینہ مصروف طرحداری میں ہے
میر کوئی اس صورت میں امید بہی کی کیا رکھے
ایک جراحت سینے کے میرے ہر زخم کاری میں ہے
میر تقی میر

کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ

دیوان چہارم غزل 1372
رنج کیا کیا ہم نے کھینچے دوستی یاری کے بیچ
کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ
دوش و آغوش و گریباں دامن گلچیں ہوئے
گل فشانی کر رہی ہے چشم خونباری کے بیچ
ایک کو اندیشۂ کار ایک کو ہے فکر یار
لگ رہے ہیں لوگ سب چلنے کی تیاری کے بیچ
منتظر تو رہتے رہتے پھر گئیں آنکھیں ندان
وہ نہ آیا دیکھنے ہم کو تو بیماری کے بیچ
جان کو قید عناصر سے نہیں ہے وارہی
تنگ آئے ہیں بہت اس چار دیواری کے بیچ
روتے ہی گذری ہمیں تو شب نشینی باغ کی
اوس سی پڑتی رہی ہے رات ہر کیاری کے بیچ
یاد پڑتا ہے جوانی تھی کہ آئی رفتگی
ہو گیا ہوں میں تو مست عشق ہشیاری کے بیچ
ایک ہوویں جو زبان و دل تو کچھ نکلے بھی کام
یوں اثر اے میر کیا ہو گریہ و زاری کے بیچ
میر تقی میر

لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے

دیوان سوم غزل 1281
شب اگر دل خواہ اپنے بے قراری کیجیے
لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے
ایک دن ہو تو کریں احوال گیری دل کی آہ
مر گئے ہم کب تلک تیمارداری کیجیے
نوچیے ناخن سے منھ یا چاک کریے سب جگر
جی میں ہے آگے ترے کچھ دستکاری کیجیے
جایئے اس شہر ہی سے اب گریباں پھاڑ کر
کیجیے کیا غم سے یوں ماتم گذاری کیجیے
یوں بنے کب تک کہ بے لعل لب اس کے ہر گھڑی
چشمہ چشمہ خون دل آنکھوں سے جاری کیجیے
کنج لب اس شوخ کا بھی ریجھنے کی جاے ہے
صرف کیجے عمر تو اس جاے ساری کیجیے
کوہ غم سر پر اٹھا لیجے نہ کہیے منھ سے کچھ
عشق میں جوں کوہکن کچھ بردباری کیجیے
گرچہ جی کب چاہتا ہے آپ کا آنے کو یاں
پر کبھو تو آئیے خاطر ہماری کیجیے
آشنا ہو اس سے ہم مر مر گئے آئندہ میر
جیتے رہیے تو کسو سے اب نہ یاری کیجیے
میر تقی میر

مُکھڑے مکھڑے اکو جیہی بے زاری اے

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 109
ویلے نے کُجھ ایداں دی مت ماری اے
مُکھڑے مکھڑے اکو جیہی بے زاری اے
رُکھ اپنی چھاں دُوجے رُکھ نوں دیندا نئیں
انت نوں سبھناں ایہو گل نتاری اے
گلی گلی وچ ہوکا دیوے اُسّے دا
جس جس دے سر اُتے جیہڑی کھاری اے
پَتّر نَم نوں رُکھ چھانواں نوں سِکدے نیں
دَین رُتاں دی ہرتھانویں ہکساہری اے
کون کسے دا، جنہوں ویکھو، اُنّھے اُئی
اپنے آل دوالے کندھ اُساری اے
کدے نہ پھیرا پاوے اجڑیاں تھانواں ول
کَنیاں دی رُت وی شاہ دی اسواری اے
نویں وکھالی دیون دے لئی چڑیاں نوں
سپ نے اپنی پہلی کُنج اُتاری اے
اوڑک اوہنوں پنجرہ کھِچ ائی لیاندا اے
دَھون دوالے جس پکھنو دے دھاری اے
حرص دی ایس بھاجڑ وچ کِنّھے بچنا ایں
سڑکاں اُتّے لاری پچھے لاری اے
سُولی تیک وی ایہو حرف پُجاندے نیں
ماجدُ جنہاں دے سنگ تیری یاری اے
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)