ٹیگ کے محفوظات: رہگزر

ازل سے جاری بس اک ہی سفر کو دیکھتے ہیں

جہاں سے گزریں کبھی ہم، جدھر کو دیکھتے ہیں
ازل سے جاری بس اک ہی سفر کو دیکھتے ہیں
نہیں ہے اپنا ہی عجزِ ہنر نظر میں جب
تو لوگ کیوں مرے دستِ ہنر کو دیکھتے ہیں؟
وہ منزلوں پہ نظر رکھتے ہیں، مگر ہم لوگ
پڑاؤ کر کے فقط رہگزر کو دیکھتے ہیں
وداع کہہ کے پرندے شجر سے جب جائیں
ہر ایک پیڑ پہ ہم اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
مذاقِ طبع کو، سننے کو پنچھیوں کی پکُار
جلا کے گھونسلے، آؤ شجر کو دیکھتے ہیں
شفق سے بہتا لہو دیکھتے ہیں جب پنچھی
تو کیوں گلِے سے وہ مجھ بے ضرر کو دیکھتے ہیں؟
یاور ماجد

میں وہ میں ہی نہ رَہا پِھر اَثَرِ عِشق کے بَعد

سارے دَر کُھلتے گئے، ایک دَرِ عِشق کے بَعد
میں وہ میں ہی نہ رَہا پِھر اَثَرِ عِشق کے بَعد
ایک قَطرہ ہُوا کَرتا تھا، سَمَندَر ہُوں میں
سَفَرِ عِشق سے پہلے سَفَرِ عِشق کے بَعد
قَدر کرنا ہو تَو کر لو کہ یہی آخری ہے
کوئی آئے گا نہ اِس دَر بَدَرِ عِشق کے بَعد
حِدَّتِ رُوح نے پایا نہ کبھی سایہ فِگَن
کوئی پیڑ اِتنا گَھنا پِھر شَجَرِ عِشق کے بَعد
تُم یہ سَمجھوگے اَبھی نُقطَہِ آغاز پہ ہُوں
مُجھ کو دیکھو کبھی آ کر سَفَرِ عِشق کے بَعد
ہَر قَدَم لَگتا تھا ضامنؔ یہی مَنزِل ہے مِری
رہگُزَر ڈُھونڈتا کیا رہگُزَرِ عِشق کے بَعد
ضامن جعفری

عمرِ رفتہ کی رہگزر ہے یہ

دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ
عمرِ رفتہ کی رہگزر ہے یہ
سنگِ منزل سے کیوں نہ سر پھوڑوں
حاصلِ زحمتِ سفر ہے یہ
رنجِ غربت کے ناز اُٹھاتا ہوں
میں ہوں اب اور دردِ سر ہے یہ
ابھی رستوں کی دُھوپ چھاؤں نہ دیکھ
ہمسفر دُور کا سفر ہے یہ
دِن نکلنے میں کوئی دیر نہیں
ہم نہ سو جائیں اب تو ڈر ہے یہ
کچھ نئے لوگ آنے والے ہیں
گرم اب شہر میں خبر ہے یہ
اب کوئی کام بھی کریں ناصر
رونا دھونا تو عمر بھر ہے یہ
ناصر کاظمی

کیسے گزرے گا یہ سفر خاموش

کارواں سُست راہبر خاموش
کیسے گزرے گا یہ سفر خاموش
تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش
دیکھ اور دیکھ کر گزر خاموش
یوں ترے راستے میں بیٹھا ہوں
جیسے اک شمعِ رہگزر خاموش
تو جہاں ایک بار آیا تھا
ایک مدت سے ہے وہ گھر خاموش
اُس گلی کے گزرنے والوں کو
تکتے رہتے ہیں بام و در خاموش
اُٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ
ہو گئے کیسے کیسے گھر خاموش
یہ زمیں کس کے اِنتظار میں ہے
کیا خبر کیوں ہے یہ نگر خاموش
شہر سوتا ہے رات جاگتی ہے
کوئی طوفاں ہے پردہ در خاموش
اب کے بیڑا گزر گیا تو کیا
ہیں ابھی کتنے ہی بھنور خاموش
چڑھتے دریا کا ڈر نہیں یارو
میں ہوں ساحل کو دیکھ کر خاموش
ابھی وہ قافلے نہیں آئے
ابھی بیٹھیں نہ ہم سفر خاموش
ہر نفس اِک پیام تھا ناصر
ہم ہی بیٹھے رہے مگر خاموش
ناصر کاظمی

آج تو شام بھی سحر سی ہے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اُس کی صورت بھی اپنے گھر سی ہے
بے ثمر ہی رہی ہے شاخِ مراد
برف پگھلی تو آگ برسی ہے
دل میں اب کیا رہا ہے تیرے بعد
ایک سنسان رہگزر سی ہے
صبح تک ہم نہ سو سکے ناصر
رات بھر کتنی اوس برسی ہے
ناصر کاظمی

کنارِ شام پرندے، شجر پہ اُترے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
تھکن سے چُور ارادے، جگر پہ اُترے ہیں
کنارِ شام پرندے، شجر پہ اُترے ہیں
بِھنک ملی ہے کہاں سے اِنہیں، ضیافت کی
عجیب زاغ ہیں جو، بام و در پہ اُترے ہیں
کوئی بھی کنکری کم از شرر، نہیں جس کی
قدم ہمارے، یہ کس رہگزر پہ، اُترے ہیں
وُہ چاہتوں کے کبوتر، جو ہم نے بھیجے تھے
بھٹک کے جانے کہاں، کس نگر پہ اُترے ہیں
وہ دیکھ فکر کو ماجد، نئی جلا دینے
فضا سے اور بگولے، نظر پہ اُترے ہیں
ماجد صدیقی

مختصر یہی جانو، جانگسل ہے جو منظر وہ مرے ہُنر میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
درد جاں بہ جاں اُترا، کرب کُو بہ کُو پھیلا، سب مری نظر میں ہے
مختصر یہی جانو، جانگسل ہے جو منظر وہ مرے ہُنر میں ہے
آنچ ہے جو سانسوں میں آخرش وُہ پُھونکے گی ہر سلاخ زنداں کی
کشت میں تمّنا کے پھول ہی اُگائے گی نم جو چشم تر میں ہے
کب تلک چھپائے گی بھینچ کر ورق اپنے وقت کی لغت آخر
فرق کیوں نہ آئے گا سامنے نگاہوں کے، وُہ جو اسپ وخر میں ہے
روک لو گے دریا کو پر جو نم سمائے گی خاک میں وہ کیا ہو گی
اُس کا کیا کرو گے تم زور جو کرن ایسا فکر کے سفر میں ہے
جو خبر بھی آتی ہے ساتھ اپنے لاتی ہے بات اِس قدریعنی
قافلہ اُمیدوں کا اب تلک یونہی لپٹا گردِ رہگزر میں ہے
طشتِ وقت میں ماجدؔ رکھکے جب بھی دیکھوں تو دل یہی کہے مجھ سے
اِک عجیب سی رفعت دُور دُور تک پھیلی اپنے بام و در میں ہے
ماجد صدیقی

کہ ہم اداس بہت تھے مگر نہ تھے ایسے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 121
گئی رتوں میں تو شام و سحر نہ تھے ایسے
کہ ہم اداس بہت تھے مگر نہ تھے ایسے
یہاں بھی پھول سے چہرے دکھا ئی دیتے تھے
یہ اب جو ہیں یہی دیوار و در نہ تھے ایسے
ملے تو خیر نہ ملنے پہ رنجشیں کیسی
کہ اس سے اپنے مراسم تھے پر نہ تھے ایسے
رفاقتوں سے مرا ہوں مسافتوں سے نہیں
سفر وہی تھا مگر ہم سفر نہ تھے ایسے
ہمیں تھے جو ترے آنے تلک جلے ورنہ
سبھی چراغ سر رہگزر نہ تھے ایسے
دل تباہ تجھے اور کیا تسلی دیں
ترے نصیب ترے چارہ گر نہ تھے ایسے
احمد فراز

دُکھ پیڑ کے بے ثمر ہی ٹھہرے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 101
پُھول آئے ، نہ برگِ تر ہی ٹھہرے
دُکھ پیڑ کے بے ثمر ہی ٹھہرے
ہیں تیز بہت ہَوا کے ناخن،
خوشبو سے کہو کہ گھر ہی ٹھہرے
کوئی تو بنے خزاں کا ساتھی
پتّہ نہ سہی ، شجر ہی ٹھہرے
اس شہرِ سخن فروشگاں میں
ہم جیسے تو بے ہُنر ہی ٹھہرے
اَن چکھّی اڑان کی بھی قیمت
آخر مرے بال و پر ہی ٹھہرے
روغن سے چمک اُٹھے تو مجھ سے
اچھّے مرے بام و در ہی ٹھہرے
کچھ دیر کو آنکھ رنگ چُھو لے
تتلی پہ اگر نظر ہی ٹھہرے
وہ شہر میں ہے ، یہی بہت ہے
کس نے کہا ، میرے گھر ہی ٹھہرے
چاند اُس کے نگر میں کیا رُکا ہے
تارے بھی تمام اُدھر ہی ٹھہرے
ہم خود ہی تھے سوختہ مقدر
ہاں ! آپ ستارہ گر ہی ٹھہرے
میرے لیے منتظر ہو وہ بھی
چاہے سرِ رہگزر ہی ٹھہرے
پا زیب سے پیار تھا ، سو میرے
پاؤں میں سدا بھنور ہی ٹھہرے
پروین شاکر

میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 18
آنگنوں میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا
میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا
رات کی خموشی تو پھر بھی مہرباں نکلی
کِتنا جان لیوا ہے دوپہر کا سناٹا
صُبح میرے جُوڑے کی ہر کلی سلامت نکلی
گونجتا تھا خوشبو میں رات بھر کا سناٹا
اپنی دوست کو لے کر تم وہاں گئے ہو گے
مجھ کو پوچھتا ہو گا رہگزر کا سناٹا
خط کو چُوم کر اُس نے آنکھ سے لگایا تھا
کُل جواب تھا گویا لمحہ بھر کا سناٹا
تُونے اُس کی آنکھوں کو غور سے پڑھا قاصد!
کُچھ تو کہہ رہا ہو گا اُس نظر کا سناٹا
پروین شاکر

وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 83
بے خودی میں ان کے وعدے معتبر سمجھا نہیں
وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں
اس نے کس جملے کو سن کر کہہ دیا تجھ سے کہ خیر
نامہ بر میں یہ جوابِ مختصر سمجھا نہیں
اس قفس کو چھوڑ دوں کیونکر کہ جس کے واسطے
میں نے اے صیاد اپنے گھر کو گھر سمجھا نہیں
تہمتیں ہیں مجھ پہ گمرآ ہی کی گستاخی معاف
خضر سا رہبر تمہاری رہگزر سمجھا نہیں
ہے مرض وہ کون سا جس کا نہیں ہوتا علاج
بس یہ کہئیے دردِ دل کو چارہ گر سمجھا نہیں
داغِ دل اس سے نہ پوچھا حالِ شامِ غم کے ساتھ
تم کو صورت سے وہ شاید اے قمر سمجھا نہیں
قمر جلالوی

وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 180
مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے
جدائی نے اُسے دیکھا سرِبام
دریچے پر شفق کے رنگ برسے
میںِاس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اُتارے کون اب دیوار پر سے
گلہ ہے ایک گلی سے شہرِدل کی
میں لڑتاِپھر رہا ہوں شہر بھر سے
اسے دیکھے زمانے بھر کا یہ چاند
ہماری چاندنی سائے کو ترسے
میرے مانند گذرا کر میری جان
کبھی تو خود بھی اپنی رہگزر سے
جون ایلیا

اک عبث یہ شمار ہے اماں ہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 86
ایک ہی بار بار ہے اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے اماں ہاں
ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے اماں ہاں
ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
جو بھے خود شکار ہے اماں ہاں
وہ جو ہے جو کہیں نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے اماں ہاں
اپنی بے روزگارئ جاوید
اک عجب روزگار ہے اماں ہاں
شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے اماں ہاں
کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر ، رہگزر ہے اماں ہاں
بُھولے بُھولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے اماں ہاں
جون ایلیا

گھروں کو جوڑ دیا جائے تو نگر بن جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 56
جو چوب و خِشت بہم ہوں تو ایک گھر بن جائے
گھروں کو جوڑ دیا جائے تو نگر بن جائے
ہر ابتلائے زمیں دُور ہو بھی سکتی ہے
یہ اژدہام اگر ایک ہی بشر بن جائے
خدا نصیب کرے بادِ سازگار اِسے
یہ چوب خشک کا پیکر کبھی شجر بن جائے
سفر بھی ختم نہ ہو، منزلیں بھی ساتھ چلیں
اگر یہ راہگزر تیری رہگزر بن جائے
مجھے بھی مژدہ ملے میری تاج پوشی کا
محبتوں کی قلم رو کہیں اگر بن جائے
آفتاب اقبال شمیم

وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 30
کچھ دن سے انتظار سوال دگر میں ہے
وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے
سیکھی یہیں مرے دل کافر نے بندگی
رب کریم ہے تو تری رہگزر میں ہے
ماضی میں جو مزا مری شام و سحر میں تھا
اب وہ فقط تصور شام و سحر میں ہے
کیا جانے کس کو کس سے ہے داد کی طلب
وہ غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے
فیض احمد فیض

وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 27
وفا سے وعدہ نہیں، وعدہ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریم ہوس میں دولت حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
نگاہ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہد ترک محبت ہے کس لیے آخر
سکون قلب ادھر بھی نہیں، ادھر بھی نہیں
فیض احمد فیض

ہے ساتھ ساتھ کوئی ہمسفر تسلی رکھ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 410
طویل و تیرہ سہی شب مگر تسلی رکھ
ہے ساتھ ساتھ کوئی ہمسفر تسلی رکھ
اسے گزرنا انہی پتھروں سے ہے آخر
اومیری شوق بھری رہگزر تسلی رکھ
ابھی سے صبحِ جدائی کا خوف کیا کرنا
ہے مہتاب ابھی بام پر تسلی رکھ
کسی کا ساتھ گھڑی دو گھڑی بھی کافی ہے
او زندگی کی رہِ مختصر تسلی رکھ
نہیں نکلتی ترے منظروں سے بینائی
یہیں کہیں ہے ، گرفتِ نظر تسلی رکھ
شکست عشق میں ہوتی نہیں کبھی منصور
یہ ہار ، ہار نہیں ، ہار کر تسلی رکھ
منصور آفاق

گئے جس در پہ تیرے در کے سوا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 38
کچھ بھی پایا نہ درد سر کے سوا
گئے جس در پہ تیرے در کے سوا
یوں پریشاں ہیں جیسے حاصل شب
آج کچھ اور ہے سحر کے سوا
کس کے در پر صدا کریں جا کر
وا نہیں کوئی اپنے در کے سوا
کل تو سب کچھ تھی آپ کی آمد
آج کچھ بھی نہیں خبر کے سوا
وائے ہنگامہ جیسے کچھ بھی نہیں
کارواں شور رہگزر کے سوا
یہ نشیمن یہ گلستاں باقیؔ
اور سب کچھ ہے بال و پر کے سوا
باقی صدیقی